تعلق بوجھ بن جائے تو…

''صلاحیت کبھی بانجھ نہیں ہوتی‘‘ یہ جملہ حضرت امیر خسرو نے ہندوستان کے بادشاہ علاؤ الدین خلجی کو کہا تھا۔ صلاحیت کبھی بانجھ نہیں ہوتی‘ وہ اپنا راستہ خود بناتی ہے، آگے بڑھنے کا جذبہ، ہنر اور فن انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتا ہے۔ قابلیت ہو تو زمین کی گرد بھی آسمان کا نور بن جاتی ہے۔ کوئی صفت، کوئی خوبی ہو تو دانتوں سے پتھر کاٹے جا سکتے ہیں۔ ہمت ہو تو دریاؤں کا رخ موڑا جا سکتاہے۔کبھی بھی، کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ امیر تیمور کون تھا؟ سمرقند کے حکمران ''امیر یاخمان‘‘ کی فوج کا ایک سپاہی۔ قطب الدین ایبک کون تھا؟ فارس کے شہر نیشاپور کی منڈی میں بکنے والا ایک غلام۔ شیر شاہ سوری کون تھا؟ بابر کے دربار میں ادنیٰ سا ملازم۔ یہ صلاحیت ہی تھی جس کے باعث امیر تیمور اتنا بڑا فاتح بنا۔ یہ صلاحیت ہی تھی جس نے قطب الدین ایبک کو دلی کا پہلا مسلمان حکمران بنایا۔ یہ صلاحیت ہی تھی جس کی وجہ سے شیر شاہ سوری نے بابر کے بیٹے ہمایوں کو ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے حکمران طبقے میں باصلاحیت لوگوں کی کمی کیوں ہے؟ ہر جانے والے حکمران میں کیڑے نکالے جاتے ہیں‘ مہنگائی اور بدانتظامی کا انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور ہر آنے والے کی تاج پوشی ہوتی ہے، ''تختِ طاؤس‘‘ پر بٹھایا جاتا ہے مگر پھر کچھ عرصے بعد وہی پرانا دکھ بھرا گیت چلنے لگتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ساحر لدھیانوی سے پوچھتے ہیں، جانے والوں کوکیسے رویا جاتا ہے۔
تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ڈھائی سال کی حکومت میں پانچ بار وزارتیں بدل چکیں۔ کئی آئے اور کئی چلے گئے مگر عوام کے دکھوں کا مداوا نہ ہو سکا۔ بدن سے اُٹھتی ٹیسیں دردِ لادوا کا روپ دھار گئیں۔ آنکھ سے ٹپکتے آنسو لہو میں تبدیل ہو گئے مگر نہیں بدلا تو پاکستان نہیں بدلا۔ نہیں بدلے تو خلقِ خدا کے شب وروز نہیں بدلے۔ اس میں قصور حکومت کا بھی کیا ہوگا‘ ہم ہی نکمے ہیں۔ صلاحیتوں سے عاری اور قابلیت کے مجرم۔ ہم میں کوئی ہنرمندی ہوتی تو حکومت یوں قابل لوگوں کی تلاش میں دربدر نہ پھرتی۔ محترم عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے درجنوں بار اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی تقدیر صرف دو سو باصلاحیت لوگ بدل سکتے ہیں مگر ہمارے اندر سے دو سو قابل لوگ ہی نہیں مل سکے۔ کتنی کوششیں کیں، کتنے لوگ آزمائے مگر بے سود۔ پہلے وزیرخزانہ سات ماہ تک اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے مگر کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ مہنگائی روک سکے نہ روپے کی بے قدری۔ چینی مافیا کو لگام دے سکے نہ گندم مافیا کو۔ پوسٹر بوائے کے ناکام ہوتے ہی دیارِغیر سے ڈھونڈ کر ایک اور تجربہ کار پاکستانی کو وزارت خزانہ کے لیے لایا گیا۔ ہمیں دن رات بتایا گیا کہ حفیظ شیخ بہت پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہیں۔ مٹی کو سونا بنانے کا فن جانتے ہیں۔ بس تھوڑا سا انتظار کریں۔ دو سال بعد انتظار ختم ہوا تو بتایا گیا کہ موصوف کو تو مہنگائی ختم کرنے کا منتر ہی نہیں آتا تھا۔ انہیں بھی گھر بھیج دیا گیا۔ اب بتایا گیا کہ وزراتِ خزانہ حماد اظہر سنبھالیں گے۔ دل میں ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑی کہ چلو دیر آئے‘ درست آئے۔ تحریک انصاف اپنے منشور کی طرف لوٹ آئی ہے۔ نوجوانوں پر بھروسہ کر رہی ہے۔ ایک دوسرا خیال بھی آیا کہ مشرف دور میں حماد اظہر کے والد میاں اظہر کے ساتھ جو ناانصافی برتی گئی تھی، شاید اس طرح اس کا ازالہ بھی ہو جائے مگر میری خوشی دوچند ہونے سے پہلے ہی خبر آگئی کہ شوکت ترین وزارت خزانہ میں اپنے کمالات کو بامِ عروج تک پہنچائیں گے۔ وہ کام جو ترین صاحب پیپلز پارٹی کے دور میں نہ کر سکے تھے انہیں وہ سارے کام کرنے دیے جائیں گے۔ اب حکومت بغلیں بجا بجا کر بتائے گی کہ شوکت ترین بہت قابل ہیں۔ وہ دنوں میں پاکستان کی معیشت کو تگڑ ا بنا دیں گے۔ ان کے پاس معیشت کے ہر مرض کی دوا موجود ہے۔ ہم خاموش ہو کر بیٹھ رہتے مگر پھر بھی ایک دھڑکا ضرور لگا رہے گا کہ کہیں یہ بھی حفیظ شیخ کی طرح نہ نکلیں۔
شومئی قسمت! حکومت دن رات ایک کر کے اُن دو سو لوگوں کا کھوج لگا رہی ہے جنہوں نے پاکستان کے دن بدلنے تھے مگر ابھی تک بات دو چار سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ آپ خود فیصلہ کریں ہم کیسی قوم ہیں، حکومت ہمیں آگے بڑھانا دینا چاہتی ہے مگر ہم ہیں کہ نااہلی اور ناتجربہ کاری کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں۔ حکومت ہمیں تجربات کی بھٹی میں تپاتی ہے تاکہ ہم کندن بن کر نکلیں مگر ہم ہیں کہ کورے کے کورے ہی رہتے ہیں۔ ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ مثبت نہ منفی‘ اچھی نہ بری۔ ہم کتنے عجیب ہیں، اپنی ہی ترقی کے دشمن ہیں۔ ہم اپنی رفتار کو دنیا کے برابر کرنے کو برائی سمجھتے ہیں۔ نجانے کیوں ہم اپنے ہاتھوں پر بیٹھے طائرانِ خوش نما پر راضی نہیں ہوتے اور جھاڑی میں بیٹھے پرندے پر نظر رکھتے ہیں۔ شاید اسی لیے ناکامی ہماری ہمراہی بن جاتی ہے اور کامیابی ہم سے روٹھی رہتی ہے۔ حکومت ہمیں بار بار موقع دیتی ہے مگر ہم کبھی اس کے اعتماد پر پورا نہیں اترتے۔ ہم کوشش کرنے کو عیب سمجھتے ہیں اس لیے آئے دن ہماری تبدیلی کے پروانے آتے رہتے ہیں۔ حکومت نے یہ تبدیلی کے تجربات صرف وزارت خزانہ میں ہی نہیں کیے بلکہ درجن بھر وزیروں کی تو باقاعدہ دوڑ لگی رہتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری وزارت مگر مجال ہے کہ کسی خانے میں وہ فِٹ ہوتے ہوں۔ ڈھائی سالوں میں تین وزیر داخلہ بدل چکے، تین فوڈ سکیورٹی کے وزیر آئے اور گئے، وزارتِ اطلاعات اور پیٹرولیم بھی تین تین بار نئے چہرے دیکھ چکیں، پارلیمانی امور کی وزارت نے تو چار مرتبہ تبدیلیوں کا مزہ چکھا ہے۔ صرف یہی نہیں، ریلوے اور ہوا بازی کی وزارتیں بھی دو دو بار تبدیلی کی نذر ہوئیں مگر بہتری ہے کہ دور سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
ذہین، پڑھے لکھے اور قابلیت میں گندھے ہوئے لوگوں کی تلاش وفاق میں ہی نہیں ہو رہی بلکہ پنجاب بھی شانہ بشانہ کام کر رہا ہے۔ اب تک پانچ آئی جی تبدیل ہو چکے، چار بار لاہور کے سی سی پی او کو بدلا جا چکا مگر پولیس ہے کہ پھر بھی اپنے باصلاحیت آفیسرز کو چھپائے بیٹھی ہے۔ اسی لیے پولیس کلچر جیسا تھا‘ ویسا ہی ہے۔ چار چیف سیکرٹری پنجاب کی قسمت کا بہتر فیصلہ نہ کر سکے تو پانچویں کو لایا گیا مگر وہ بھی ڈسکہ الیکشن والے معاملے میں الجھ کر رہ گیا۔ اب حکومت جائے تو جائے کہاں۔ اچھے آفیسرز کو تلاش کرنے کے لیے حکومت اور کون سے جتن کرے۔ صوبائی محکموں کے سیکرٹریز تو ڈھائی سالوں میں ایسے بدلتے رہے جیسے ساون میں دھوپ چھاؤں اپنے روپ بدلتے ہیں۔ کب دھوپ نکلتی ہے اور کب بارش ہوتی ہے، پتا ہی نہیں چلتا۔ ہائر ایجوکیشن کے نو سیکرٹری، محکمہ سکول اور آبپاشی کے سات سات سیکرٹری تبدیلی سرکار کو متاثر نہ کر سکے۔ باقی محکموں میں بھی چار چار‘ پانچ پانچ سیکرٹری آئے اور گئے۔ انسان اتنے کپڑے نہیں بدلتا جتنی بار پنجاب میں بیوروکریسی بدلی مگر ہم ٹھہرے نالائق لوگوں کا ریوڑ۔ ایسے ریوڑ سے بھلا لائق لوگ کہاں سے ملتے۔
مجھے تو یوں لگتا ہے کہ دو سو باصلاحیت لوگوں کا خواب‘ خواب ہی تھا۔ ہمیں ایسے خوابوں کو اپنے سرہانے جگہ ہی نہیں دینی چاہیے۔ پھر خیال آتا ہے کہ کہیں تلاش کرنے والے افراد میں ہی کوئی کمی نہ ہو۔ شاید وہ ہی ہیرے اور پتھر کے فرق کو نہ جانتے ہیں۔ شاید وہی موم اور شہد کے ذائقے میں تمیز نہ کر سکتے ہوں۔ شاید وہ خود ہی بدلے جانے کے قابل ہوں۔ شاید...

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں