تم اچھے ہمسائے بنو!

حقیقت کی دنیا مختلف ہوتی ہے اور سپنوں کا جہاں مختلف۔ دل کی حسرت الگ ہوتی ہے اور دماغ کی کاوش الگ۔ زمینی حقائق کوئی اور بولی بولتے ہیں اور دامن پر خواہشوں کا لگا ڈھیر کوئی اور کہانی سناتا ہے۔ آخر کب تک انسان فریب کی دنیا میں جی سکتا ہے، ایک نہ ایک دن اُسے حقیقت کی چوکھٹ پر لوٹنا ہی ہوتا ہے۔ بھارت اور پاکستان بھی اگر تعلقات میں نئے باب کا آغاز کرنے جا رہے ہیں تو تنقید کے نشتر کیوں چلائے جا رہے ہیں؟ کیا امن کی خواہش جرم ہے؟ جو کام دہائیوں پہلے ہو جانا چاہیے تھا اس پر مزید تاخیر کی خواہش کیوں؟ مخالفت کرنا آپ کا حق ہے مگر مخالفت حکومت کی کریں‘ پاکستان کے مستقبل کی نہیں۔ دادا مرشد خالد احمد کا ایک شعر دل پر لگی گرہیں کھولنے کے لیے کافی ہے ؎
قربت کے پھول بھی غمِ فرقت کی دھول بھی
اے باغبانِ جاں مرے دامن میں کیا نہ تھا
پاکستان اور بھارت میں پڑوسی کا رشتہ ہے، دنیا کا ہر مذہب پڑوسی سے محبت کا درس دیتا ہے‘ رقابت کا نہیں۔ پڑوسی برا ہو سکتا ہے مگر بدلے میں آپ برے کیوں بنتے ہیں؟ پیار، شفقت اور مٹھاس سے ہر ادھورا تعلق مکمل ہو جاتا ہے بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جھوٹ کے گاؤں میں سچ کے سوداگر گھس آئیں تو ایسے ہی شور شرابا اٹھتا ہے جیسے آج کل واویلا کیا جا رہا ہے۔ صلح و آتشی آپ کی ترجیح کیوں نہیں ہیں؟ امن کو موقع نہ دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ فرانس اور جرمنی سے کچھ سیکھ لیں! امریکا اور جاپان سے کوئی سبق حاصل کر لیں! روس اور برطانیہ سے نصیحت پا لیں! جنگ کے لیے تو سبھی آمادہ ہوجاتے ہیں مگر صلح کرنا صرف دانائوں کا شیوہ ہے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور بھارت کی ہٹ دھرمی۔ ہٹ دھرمی ہمیشہ اَنا کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور اناؤں کو کبھی بھی زور زبردستی سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ انا کا زہر خلوص اور محبت کے پیالے میں گرتا ہے تو فنا کا راستہ اختیار کرتا ہے ورنہ کون ہے جو آج تک انا کی گردن توڑ پایا ہو؟ کوئی بھی تو نہیں! چرچل نے کہا تھا: ڈائیلاگ میں بندوق سے زیادہ طاقت ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی یہ راستہ بند نہیں کرنا چاہیے۔ حوصلہ رکھیں! کشمیر بھی اسی راہ پر چل کر آزاد ہو گا۔رات بھلے کتنی ہی کالی ہو‘ سحر نے آخر آنا ہی ہوتا ہے۔
یہ باتیں اب ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان اور بھارت میں ڈائیلاگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ متحدہ عرب امارات دونوں ملکوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ بھارت نے اپنی پوزیشن بدلی ہے اور بدلے میں پاکستان نے بھی دو قدم آگے بڑھائے ہیں۔ یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے۔ جنگ اگر کسی مسئلے کا حل ہوتی تو آج تک دونوں ملکوں کے مابین سارے اختلافات ختم ہو چکے ہوتے، کشمیر بھارتی تسلط اور ریاستی دہشت گردی سے آزاد ہوتا، تجارت سے دونوں طرف کی معیشت کو پَر لگ چکے ہوتے، بہار، یوپی اور گجرات کے مسلمانوں پر ہندوتوا کا قہر ختم ہو چکا ہوتا مگرکچھ بھی تو نہیں ہوا۔ اگر دونوں ممالک نے اس بار تلخی کے بجائے ڈائیلاگ کو امن کا ہتھیار بنایا ہے تو اس میں انوکھی بات کیا ہے؟ انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ دنیا بھر کے مسئلے ہمیشہ بات چیت سے ہی حل ہوئے ہیں۔ وہ دن تو کب کے ہَوا ہوئے جب بزورِ شمشیر ملک فتح ہوتے تھے۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ امریکا سپر پاور ہونے کے باوجود افغانستان اور عراق کو فتح نہیں کر سکا۔ سعودی عرب یمن جنگ سے نکلنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے جبکہ مصر، شام اور لیبیا جیسے ممالک جنگوں کی نذر ہو گئے۔ کیا حاصل حصول‘ سوائے تباہی اور بربادی کے‘ آنسوؤں اور اپنوں کی جدائی کے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کیوں کی؟ عمومی رائے یہ ہے کہ بھارت لداخ میں چین کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے باعث پریشان ہے اور وہ اپنا مغربی محاذ بند کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات درست ہے مگر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں تبدیلی کی واحد وجہ یہ ہرگز نہیں ہے۔ میرے نزدیک لداخ کا مسئلہ اتنا گمبھیر نہیں کہ وہ انڈیا کو پاکستان کے ساتھ دوستی پر مجبور کر دے۔ کچھ اور عوامل بھی ہیں جو اُسے مذاکرات کی طرف دھکیل کر لائے ہیں۔ میرے خیال میں بھارت سرکار چاہتی ہے کہ دنیا بھر میں اسے معیشت اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے جانا جائے نہ کہ پاکستان اور چین کی دشمنی اس کا حوالہ بنا رہے۔ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی ختم کیے بنا اس کا پانچ ٹریلین ڈالر اکانومی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اس نے ڈائیلاگ کا راستہ چنا ہے۔ بھارتی رویے میں بدلاؤ کی تیسری وجہ عالمی منظر نامہ ہے۔ امریکا، برطانیہ اور روس جیسی بڑی طاقتیں بھی جنگو ں کو خیرباد کہہ رہی ہیں۔ امریکا افغانستا ن سے نکلنے کا اعلان کر چکا ہے، سعودی عرب اور ایران میں صدیوں پر محیط فاصلے کم ہو رہے ہیں جبکہ عرب امارات اور اسرائیل محبت کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ یہی نہیں‘ سعودی عرب اور قطر کے اختلافات بھی ختم ہونے کو ہیں۔ مڈل ایسٹ میں اگر بادشاہتوں میں معیشت اور امن کو اپنی ترجیح بنایا جا سکتا ہے تو پاکستان اور بھارت کی جمہوریت میں کیوں نہیں؟ چوتھی وجہ ہریانہ، پنجاب اور دہلی میں جاری کسانوں کا احتجاج ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ کہیں کسان تحریک کے نام پر خالصتان کی چنگاری دوبارہ نہ بھڑک اٹھے۔ اس لیے بھارت ان کسانوں کا راستہ روکنے کے لیے مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے۔ پانچویں بڑی وجہ کورونا وائرس ہے۔ دونوں ملکوں کو شاید اندازہ ہو گیا ہو کہ انسانوں سے لڑ کر ہارا جیتا جا سکتا ہے مگر نظر نہ آنے والے وائرس کا کیا کیا جائے۔شاید انہیں احساس ہوا ہو کہ دونوں ممالک کے وسائل غیرضروری جھگڑوں کی نذر ہو رہے ہیں کیوں نہ اپنا صحت کا نظام ٹھیک کر لیا جائے۔
ضروری نہیں کہ ڈائیلاگ سے تمام مسائل ایک ساتھ حل ہو جائیں مگر ہمیں کہیں سے تو ابتدا کرنی ہے۔ کشمیر جیسے بڑے اور بنیادی تنازع پر بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے چھوٹے جھگڑوں کا خاتمہ کیا جائے۔ تجارت شروع ہو جائے، سرحدوں پر موت کا کاروبار تھم جائے اور ایک دوسرے کو کھوکھلا کرنے کی کوششیں بند ہو جائیں، اس کے بعد ہی کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکے گا۔ ایک کام جو حکومتِ پاکستان کو فوری کرنا چاہیے‘ وہ عوام، اپوزیشن اور کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینا ہے۔ بھارت حکومت کا نہیں‘ ریاستِ پاکستان کا دشمن ہے اور دشمن سے بات کرنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کی رضامندی ضروری ہے۔ وزیراعظم پہل کریں، پارلیمنٹ ان کا انتظار کر رہی ہے ورنہ اپوزیشن شور مچاتی رہے گی کہ حکومت نے کشمیر کا سودا کر دیا۔ یہاں مجھے اپنی لکھی ہوئی ایک نظم یاد آ رہی ہے‘ جس کا عنوان ہے :تم اچھے ہمسائے بنو۔
سرحد پر ہم امن کی شمعیں رکھتے ہیں
فاختہ لے کرآؤ تم، اور شاخِ زیتون بھی
گولے اور بارود کی بو سے بہتر ہے
امن کا گیت سناؤ تم
اب کے جنگ ہوئی تو پیارے‘ دونوں کی خیر نہیں
ہم بچیں گے نہ زندہ رہ پائو گے تم ہی
چڑیاں، بچے، بوڑھے سب مر جائیں گے
ہوں گے قتل ہم ہی اور قاتل بھی کہلائیں گے
آنے والا سورج ہم کو گزری رات بتائے گا
کون اُسے سمجھائے گا، کون اُسے سمجھائے گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں