شوکت ترین کا اسحاق ڈار فارمولا

بہت مشہور لطیفہ ہے‘ آپ نے سنا ہو گا کہ ایک آدمی کی ٹانگ نیلی ہو گئی تو وہ پریشانی کے عالم میں حکیم کے پاس گیا۔ حکیم نے ٹانگ دیکھتے ہی کہا لگتا ہے کہ زہر پھیل گیا ہے‘ آپ کی ٹانگ کاٹنا پڑے گی۔ اس شخص کی ایک ٹانگ کاٹ دی گئی۔ کچھ دنوں کے بعد اس آدمی کی دوسری ٹانگ بھی نیلی ہو گئی تو حکیم صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی اور پلاسٹک کی ٹانگ لگا دی۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ پلاسٹک کی ٹانگ بھی نیلی ہو گئی۔ وہ شخص بھاگم بھاگ حکیم کے پاس گیا تو حکیم نے ٹانگ دیکھی اور کہا: تمہاری بیماری اب میری سمجھ میں آگئی ہے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں، اصل میں تمہاری دھوتی کا رنگ اترتا ہے۔
یہ لطیفہ مجھے نئے وزیر خزانہ شوکت ترین کی پریس کانفرنس دیکھ کر یاد آیا۔ موصوف نے ان تمام ''کارناموں‘‘ کی نفی کر دی جنہیں یہ حکومت پونے تین سالوں سے تمغہ سمجھ رہی تھی۔ اگر حکومت نے معیشت کو اسحاق ڈار فارمولے پر ہی چلانا تھا تو پھرعوام کو مہنگائی کی دلد ل میں پھینکنے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر حکومت نے اپنی معاشی پالیسیوں کو آئندہ الیکشن کے تناظر میں بدلنا ہی تھا تو پھر اصلاحات کا راگ کیوں الاپا جا رہا تھا؟ اگر حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام کے باعث سیاسی نقصان کو ہی مدنظر رکھنا تھا تو دو سال تک عوام کو گیس اور بجلی کے بلوں کے ناقابلِ برداشت جھٹکے کیوں لگائے گئے؟ سیاسی چالیں تو سب چل لیتے ہیں مگرکوئی تو ہو جو عوام کے درد کو اپنا درد سمجھے؟ کوئی تو ہو جو عوام کے آنسوؤں کا مداوا کر سکے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اپنی معاشی پالیسیاں تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اس کے پاس دو راستے تھے؛ ایک معاشی استحکام لانا اور دوسرا گروتھ ریٹ بڑھانا۔ حکومت نے سب سے پہلے معاشی استحکام کا نعرہ لگایا اور امپورٹس کے سارے کاروبار تقریباً بند کر دیے۔ امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے سے صنعتوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور بے روزگاری عام ہو گئی۔ دوسرا، روپے کو مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا جس سے روپے کی قدر دھڑام سے نیچے آ گری۔ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آ گیا۔ تیسرا، حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا وہ بہت سخت اور جان لیوا تھا۔ پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں اور عوام کی چیخ و پکار بھی۔ چوتھا، حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا جس سے عام آدمی کی کمر مزید ٹوٹ گئی۔ حکومت نے یہ سارے کام اس لیے کیے کیونکہ حفیظ شیخ چاہتے تھے کہ ساری کڑوی گولیاں ایک ساتھ نگل لی جائیں تاکہ عوام نے جو واویلا کرنا ہے ایک ہی بار کر لیں۔ اس دوران حکومت معاشی استحکام لے آئے اور پھر معاشی ترقی کی رفتار تیز کر دی جائے مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ حکومت گزشتہ دو ماہ سے شدید اضطراب کا شکار تھی۔اس کے آگے کنواں تھا اور پیچھے کھائی۔ حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ضمنی انتخابات میں پے درپے شکستوں سے حکومت جان چکی تھی کہ اس کی مقبولیت گر چکی ہے۔ عوام معاشی پالیسیوں سے خائف ہیں اسی لیے اپنا غصہ الیکشنز میں نکال رہے ہیں۔ ووٹر کے تیور دیکھ کر حکومت نے وہی فیصلہ کیا جس کی وہ خود پہلے دن سے مخالفت کر رہی تھی۔
وزیراعظم فرمایا کرتے تھے ''لیڈر وہ نہیں ہوتا جو اگلا الیکشن دیکھ کر شارٹ ٹرم فیصلے کرتا ہے بلکہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو قوم کا مستقبل اور مفاد دیکھ کر مشکل فیصلے کرتا ہے‘‘۔ یقین مانیں‘ حکومت اب اس فلسفے سے باغی ہو چکی ہے۔ اب وہ چاہتی ہے کہ معاشی اصلاحات کی دکان بند کر کے معاشی نمو کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ ووٹر کا غیظ و غضب کم سے کم ہو سکے۔ عوام کے لیے کاروبار کے نت نئے مواقع پیدا ہوں اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے۔
حفیظ شیخ کو ہٹانے اور شوکت ترین کو لانے کے پیچھے یہی کہانی تھی کہ سابق وزیر خزانہ معاشی استحکام کی پالیسیوں پر یوٹرن نہیں لینا چاہتے تھے۔ آپ وزیر خزانہ شوکت ترین کی پریس کانفرنس کا بغور جائزہ لیں تو محسوس ہو گا کہ حکومت معیشت کے میدان میں ایک نہیں درجنوں یوٹرن لینے جا رہی ہے۔ چلیں! معیشت کی دونوں ٹانگیں کاٹ کر ہی سہی‘ حکومت کو پتا تو چلا کہ اصل بیماری ہے کیا کہ جس کے باعث مہنگائی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
آئیے! اب ان تمام معاشی یوٹرنز کا ایک ایک کر کے جائز ہ لیتے ہیں جنہیں حکومت مشکل ترین اصلاحات کے متبادل اقدامات کا نام دے رہی ہے۔
(1) دو سالوں تک عام آدمی کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر حکومت کو خیال آ گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی معاشی شرائط زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستانیوں کا گلا اتنا دبا دیا ہے کہ سانس لینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اب عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ بجلی، گیس اور دیگر خدمات کے ٹیرف میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
(2) ڈھائی سالوں تک غریب عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرکے حکومت اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جس طرح آئی ایم ایف ٹیکسوں میں یکدم اضافہ کرنے کا کہہ رہا ہے‘ ویسے نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے طریقے سے ریونیو بڑھانا ہو گا۔ ٹیکس کے لیے کاروباری شخصیات کو ہراساں کیا جاتا رہا‘ اب یہ پالیسی بدلنا ہو گی ورنہ لوگ کبھی ٹیکس نیٹ میں نہیں آئیں گے۔ آگے چل کر صرف دو قسم کے ٹیکس ہوں گے‘ ایک انکم ٹیکس اور دوسرا صارفیت کا ٹیکس۔ جو یہ ٹیکس دے گا اس پر وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا جائے گا۔
(3) پونے تین سالوں میں معاشی نمو کی رفتار کو 5.8 فیصد سے منفی 0.4 پر لے جانے کے بعد حکومت کو احساس ہوا ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی تبھی آئے گی جب گروتھ ریٹ 6 فیصد ہو گا۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے‘ ملک میں معیشت کا پہیہ چلنا چاہیے۔ لوگ بینکوں سے قرضے لیں اور نئے نئے کاروبار شروع کریں کیونکہ بنگلہ دیش، بھارت اور چین نے معاشی ترقی کی رفتار اسی طریقے سے تیز کی ہے۔
(4) اپنے دورِ حکومت میں پچاس لاکھ سے زائد لوگوں کو بے روزگار کرنے کے بعد حکومت کی خواہش ہے کہ اب سالانہ بیس لاکھ نوکریوں کا بندوبست کیا جائے۔ اس منصوبے کو کامیاب کرنے کیلئے حکومت اب بڑی صنعتوں کے ساتھ ساتھ سمال انڈسٹری کیلئے سکیم لے کر آئی ہے جس کے تحت چھوٹی صنعتوں کو قرضے کیلئے کوئی مالی سکیورٹی دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
(5) حکومت کب سے چاہ رہی تھی کہ ہر طرح کی سبسڈی ختم کی جائے کیونکہ سبسڈی معیشت کو کھوکھلا کردیتی ہے مگر اب حکومت ٹارگٹڈ سبسڈی کی طرف جا رہی ہے تاکہ ہاؤسنگ سمیت تمام صنعتوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
(6) پونے تین سال سے حکومت ترقیاتی بجٹ کی بھرپور مخالفت کر رہی تھی‘ اسی لیے پورے ملک میں کوئی قابلِ ذکر منصوبہ شروع نہیں ہو سکا۔ اب حکومت شہر شہر جا کر اربوں روپے کے منصوبے شروع کر رہی ہے تاکہ عوام کو آئندہ الیکشن میں کچھ دکھایا جا سکے۔ اب سڑکیں بھی بنیں گی اور پل بھی۔ انڈر پاسز بھی تعمیر ہوں گے اور میٹرو بسیں بھی چلیں گی۔
(7) حکومت کی زراعت پر توجہ نہ ہونے کے برابر تھی جس کی وجہ سے کسان مکمل طور پر بدحال ہو چکا تھا۔ اب حکومت کسانوں کو مراعات دینے کا سوچ رہی ہے جس سے زراعت کے شعبے میں گروتھ ریٹ 4 فیصد ہونے کی توقع ہے۔ اگر حکومت ایسا کر سکی تو کسانوں کو فائدہ ہی فائدہ ہو گا۔
میرے خیال میں حکومت بہت جلد الیکشن موڈ میں آ گئی ہے، اسی لیے اس نے خزانے کا منہ کھول دیا ہے۔ ہماری معیشت جہاں کھڑی ہے‘ اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حکومت کو دیر پا اصلاحات پر یوٹرن نہیں لینا چاہیے تھا۔ نئی معاشی پالیسی سے حکومت کو سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے مگر پاکستان کا فائدہ تو اصلاحات میں ہے۔ کب تک ادھار پر چلتے رہیں گے؟ ہمیں اپنے وسائل اور استعداد بڑھانا ہو گی۔ شارٹ ٹرم منصوبے اسحاق ڈار کی معیشت کا اہم جز تھے، اب پی ٹی آئی کی حکومت بھی اسی ڈگر پر چل پڑی تو پاکستان کی معیشت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کوئی ہے جو ان معاملات کی طرف توجہ دے تاکہ عام آدمی کے ہاتھ کچھ آ سکے اور قومی معیشت بھی اڑان بھر سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں