شہباز شریف اورحکومت کا پلان بی

حکومت کے پلان اے پر ناکامی کی دھند ابھی مکمل طور پر چھائی نہیں تھی کہ اس نے پلان بی پر کام شروع کر دیا ہے۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں معیشت کا پہیہ چلے نہ چلے‘ روزگار کے مواقع بڑھیں‘ نہ بڑھیں اور مہنگائی کا طوفان تھمے یا نہ تھمے، اگلا الیکشن تحریک انصاف کو جیتنا چاہیے۔ اپوزیشن اور عوام کو بھلے یہ دیوانے کا خواب لگے مگر حکومت ایسا سوچتی ہے تو اُسے کون منع کرسکتا ہے؟ طاقت کی چھاؤں میں بیٹھنے والے دھوپ کی دلیل کو کب مانا کرتے ہیں۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
شہر اقتدار میں زبان زدِ عام ہے کہ میاں شہباز شریف نے ایک ایک کرکے اپنے راستے کے سارے پتھر چُن لیے ہیں اور اب وہ بھائی اور بھتیجی کی راہ میں پڑے کانٹے اٹھانے میں مصروف ہیں۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں سیاسی حالات کروٹ لے کر رہیں گے۔ اسی لیے ''موسم کا حال‘‘ بتانے والوں نے حکومت کو بھی مخبری کر دی ہے۔ جس کے بعد حکومت قدرے خائف بھی ہے اور پریشان بھی۔ حکومت گلہ کر رہی ہے کہ آدھے سفر میں کون حکومتی گاڑی کے ڈرائیور کی تبدیلی کی بات کرکے خوفزدہ کرتا ہے جبکہ 'مسافروں‘ کا کہنا ہے کہ ڈرائیور بدلنا ناگزیر ہے ورنہ منزل دور سے دور تر ہوتی جائے گی۔ صرف یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پلان اے پر کام سست اور پلان بی کی سپیڈ تیز کر دی ہے۔ پلان اے کے مطابق حکومت کو آئندہ الیکشن جیتنے کے لیے معیشت کو بحال کرنا تھا، بے گھروں کو چھت اور بے روزگاروں کو روزگار دینا تھا۔ مہنگائی، کرپشن اور اقربا پروری کو ختم کرنا تھا مگر افسوس! یہ سفر توکٹھن سے کٹھن ہوتا گیا۔ ہر شعبے میں بیٹھے مافیاز نے حکومت کی ایک نہ چلنے دی۔ ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر اٹھانے لگتا ہے۔ دوسرے بحران کا قلع قمع ہونا ابھی باقی ہوتا ہے کہ تیسرا مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے۔ تین سالوں سے تو یہی چلن رہا ہے۔ شاید اسی لیے حکومت نے اب ساری آس اپنے پلان بی سے لگا لی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ حکومت کا پلان بی کیا ہے اور وہ کیوں اسے جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بے تاب ہے؟ حکومت کے پلان بی کے دوحصے ہیں؛ ایک کا تعلق شہباز شریف سے ہے اور دوسرا بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانا۔ چرچل نے دوسری جنگِ عظیم میں لڑائی کے اصول بیان کرتے ہوئے کہا تھا ''اگر فاتح بننا چاہتے ہو تو اپنے دشمنوں کو ختم کر دو۔ کچھ کو محبت سے اور باقیوں کو طاقت سے‘‘۔ چرچل سے پہلے یہی طریقہ مغل بادشاہ شاہ جہان اور اورنگزیب عالمگیر نے اپنایا تھا۔ دونوں نے بادشاہت کے متوقع دعوے داروں کو ایک ایک کر کے ختم کر دیا تھا۔ اقتدار کے اس کھیل کی زد میں اُن کے بھائی بھی آئے اور بھتیجے بھی، بہنیں بھی آئیں اور باپ بھی مگر مجال ہے طاقت کے نشے نے انہیں رحم کی سیڑھی چڑھنے دیا ہو۔ غور کیا جائے تو آج کی سیاست بھی طاقت کے انہی اصولوں پر قائم ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ اگلا الیکشن جیتنا ہے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا بندوبست کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی لیے مبینہ طور پر ایک کے بعد ایک کیس سامنے لایا جا رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کو ضمانت دیتے ہوئے جو لکھا وہ حکومت کے لیے پریشان کن تھا۔ اسی فیصلے کے بعد حکومت نے حدیبیہ پیپر مل کیس دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا۔ اب حکومت کی خواہش ہے اور کوشش بھی کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو کسی نہ کسی کیس میں سزا ضرور ہو جائے تاکہ شہباز شریف کو جس ''آپشن‘‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے وہ خود بخود ختم ہو جائے۔ حکومتی وزراء کو یقین ہے کہ شہباز شریف کے خلاف شواہد اتنے مضبوط ہیں کہ وہ کسی طور سز ا سے نہیں بچ سکتے‘ اسی لیے حکومت کی ساری توانائی اور دانائی شریف خاندان کے کیسزکو منطقی انجام تک پہنچانے میں صرف ہو رہی ہے۔ حکومت کے بڑوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف لندن میں ہیں اور مریم نواز پر بھی سزا یافتہ ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر اگلے الیکشن سے پہلے شہباز شریف بھی سیاسی منظر سے ہٹ جائیں تو حکومت کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ پنجاب کا میدان خالی ہوگا اور مسلم لیگ (ن) قیادت کی غیر موجودگی میں 2002ء کے الیکشن سے زیادہ نشستیں نہیں لے پائے گی۔
پلان بی صرف شہباز شریف کے خاندان تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دوسراحصہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے۔ حکومت میں موجود تمام 'دانا‘ لوگوں کا خیال ہے کہ آج بھی اوور سیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حامی ہے۔ میرے نزدیک حکومت کے اکابرین شاید ٹھیک سوچتے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان میں نہیں رہتے اس لیے انہیں پاکستان میں بسنے والوں کی طرح حقائق کا مکمل ادراک نہیں ہے۔ مشہور محاورہ ہے قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ وہ شخص کیسے جان سکتا ہے جس نے موت کا ذائقہ ہی نہ چکھا ہو۔ اوور سیز پاکستانی ڈالرز، پائونڈز، یوروز، دینار اور ریال کماتے ہیں‘ انہیں فرق نہیں پڑتا کہ روپے کی بے قدری سے کتنی مہنگائی بڑھی اور عام آدمی کے کاروبار پر کیا اثر ہوا۔ یہ لوگ پاکستان چند دنوں کے لیے آتے ہیں اور اپنے اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم چینی، آٹا، گندم، پیڑول، ادویات اور پراپرٹی کا مافیا کس طرح عوام کا خون چوس رہا ہے۔ انہیں کیا پتا پاکستان کی معیشت کس طرح پاتال میں گری پڑی ہے اور بدانتظامی نے کیسے نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ کون جانے حکومت خوش گمانی کا شکار ہے یا حقیقت پسندی کا، اس کا فیصلہ تو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہی کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ ہمارے سفارتخانے اوور سیز پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کریں تاکہ آئندہ الیکشن میں سارے کے سارے ووٹ ان کے حصے میں آئیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کو سیاست نہیں آتی‘ میں کہتا ہوں انہیں سیاست ہی تو آتی ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں، اسّی لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کے لیے ملک سے باہر مقیم ہیں‘ اگر تحریک انصاف آدھے ووٹ لینے میں بھی کامیاب ہو گئی تو الیکشن کا منظر نامہ کیا ہوگا؟
حکومت کو سوچنا ہو گا کہ وہ درست ڈگر پر ہے یا راہِ راست سے بھٹک چکی ہے؟ اسے یاد کرنا ہو گا کہ اس کے انتخابی نعرے کیا تھے اور پارٹی منشور کیا؟ کیا عوام نے ووٹ صرف احتساب کے لیے دیے تھے؟ کیا گڈ گورننس حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتی؟ کیا عوام کو مہنگائی اور مافیاز کے چنگل سے نکالنا حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں؟ کوئی محترم وزیراعظم کو عوام کی ڈوبتی ناؤ کی کہانی بھی سنائے۔ کوئی وزیراعلیٰ صاحب کو پنجاب کے بارہ کروڑ لوگوں کے آنسو دکھائے۔ حکومت کے پلان بی سے تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ضرور ملے گا مگر کیا پلان بی کو ترجیح دینے سے عوام کے دکھ درد دور ہو جائیں گے؟ کیا لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس آ جائے گی؟ خدارا! اب بھی وقت ہے، ہوش کے ناخن لیں۔ حکومت کا نہیں‘ عوام کا سوچیں۔ عام آدمی کا خیال رکھیں گے تو ایک الیکشن کیا‘ کتنے ہی الیکشن آپ کی جھولی میں آ گریں گے ورنہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سیاست کسی کی سگی ہوتی ہے نہ سیاستدان۔ آج ترین گروپ آپ کے مدمقابل کھڑا ہے‘ کل کو مزید ارکان بھی ہوا کا رخ دیکھ کر حکومت کی کشتی سے چھلانگ لگا گئے تو پھر کیا کریں گے؟ بجٹ سر پر ہے‘ اس بار عوام کو سرپرائز دے دیں، سارے فارورڈ گروپ جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے اور اگر آپ اس بار بھی عوام کو سرپرائز دینے میں ناکام رہے تو ہو سکتا ہے کہ بجٹ کے بعد حکومت کو ہی سرپرائز مل جائے۔ آپ اپنے مطابق بجٹ بنا لیں مگر کیا گارنٹی ہے کہ وہ پاس بھی ہو جائے گا؟ وفاقی بجٹ بھاگ دوڑ کرکے پاس ہو بھی گیا تو پنجاب کے بجٹ کی منظوری کیسے کرائی جائے گی؟ اگر بجٹ منظور نہ ہوا تو پھر صوبائی حکومت کا کیا بنے گا اور سب سے بڑھ کر پنجاب میں پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں