درد ہو تو دوا بھی ممکن ہے

اچھے دنوں کا اعتبار کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ ہمیشہ پرچھائیوں کی طرح آتے ہیں اور بادلوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ انسان کے پاس حسین یادوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچتا۔ انسان سوچ کے گرم توے پرجلتارہتا اور آہیں بھرتا ہے۔ آہ! کتنے دلفریب تھے وہ ایام اور کتنی وحشت ناک ہے یہ شبِ غم۔ اچھے دنوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو فریبِ مسلسل میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کے کان ہمیشہ لہروں کی ابدی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہیں اور انہیں کبھی سمندر کی سرکش ہواؤں کا شور سنائی نہیں دے گا۔ اسے یہ وہم بھی گھیر لیتا ہے کہ اس کی آنکھیں ہمیشہ حسنِ بہار کی دید سے محظوظ ہوتی رہیں گی اور انہیں کبھی خزاں کی سختیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا مگر سوچ کا یہ چراغ وقت کے ساتھ ساتھ مدھم ہونے لگتا ہے اور پھر حقیقت کی روح تلخیوں کے کڑوے پانی سے نمودار ہوتی ہے تو انسان کی دنیا ہی بدل چکی ہوتی ہے۔ وہ سکھ کے سپنوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور دکھ کا سورج اس کے سر پہ چمکنے لگتا ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا فہم مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگ کم ہی کرتے ہیں۔
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم
حکومت ہو یا اپوزیشن، عام آدمی ہو یا اشرافیہ، وہم کا بخار سب کو چڑھتا ہے مگر سب سے پہلے اقتدار کی بالکونیوں سے جھانکتے حکمران اس کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سارا جہان ہم سے ہے اور ہم نہیں ہوں گے تو نبضِ دوراں رک جائے گی۔ پھر وہ دن دیکھتے ہیں نہ رات، آندھی نہ طوفان، ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے انہیں تسکینِ قلب ملتی ہو مگر وہ فریضہ خال خال ہی انجام دیتے ہیں جس کا انہیں مینڈیٹ ملا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریوں سے زیادہ دوسروں کی غیر ذمہ داریوں کا حساب رکھنے لگتے ہیں۔ وہ عوام کو رعایا اور سیاسی و نظریاتی مخالفین کو دشمن کے منصب پر براجمان کردیتے ہیں۔ یہ کسی ایک دور کی کہانی نہیں بلکہ قصرِ حکمرانی کا ازل سے یہی وتیرہ رہا ہے۔ اگر حکمران اپنے کام سے کام رکھیں تو راولپنڈی رنگ روڈ جیسے سکینڈل سامنے آئیں نہ چینی، گندم، آٹا، پیڑول اور ادویات کے مافیاز حکومت کی آنکھوں پر پٹی باندھ سکیں۔ اگر سیاستدان سیاست کو عبادت سمجھیں تو عوام کے اربوں روپے دن دہاڑے نہ لوٹ لیے جائیں۔
سب بڑے زعم سے آئے تھے نئے صورت گر
سب کے دامن سے وہی خواب پرانے نکلے
معیشت کے غبارے میں ہوا بھرنے کے بعد حکومت نے نیب کی تعریفوں کے پل باندھ دیے ہیں۔ حکومت نے ایک ہفتے میں دو بار ٹویٹ کر کے قوم کو بتایا کہ ہم احتساب کے باب میں گزشتہ تین حکومتوں پر بازی لے گئے ہیں۔ ٹویٹ میں بتایا گیا ''نیب نے 1999ء سے لے کر 2017ء تک 290 ارب روپے کی وصولیاں کیں جبکہ تحریک انصاف کے تین سالہ دور میں 484 ارب روپے مجرموں سے نکلوائے گئے‘‘۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے کوئی نابینا بھی انکار نہیں کر سکتا۔ گزرے چار برسوں سے احتساب کا سورج سوا نیزے پر ہے اور سب اس کی تپش محسوس کر رہے ہیں مگر کیا عوام کی تسلی اور تشفی کے لیے اتنا کافی ہے؟ 484 ارب روپے قومی خزانے میں ضرور آئے ہوں گے مگر کیا کسی حکومتی ادارے نے یہ حساب لگایا ہے کہ چینی مافیا نے تین سالوں میں عوام سے کتنے ارب لوٹے؟ گندم، آٹا اور پیڑول مافیا نے عوام پر کیا قہر ڈھایا؟ نیب ایک آزاد ادارہ ہے اس کی کارکردگی کا کریڈٹ بھی اسی کے سر ہے۔ حکومت اپنے حق میں قصیدے پڑھوانا چاہتی ہے تو کھل کر اعلان کرے کہ عوام کو تین سالوں میں کیا دیا؟ مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح کم ہوئی یا زیادہ؟ کتنے فیصد لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا گیا؟ حکومت بتائے کہ ماضی قریب میں چینی کس بھاؤ بکتی تھی اور اب کیا ریٹ چل رہا ہے؟ دالیں، آٹا، گھی، دودھ، چاول، گوشت، پھل اور سبزیاں اس وقت کتنے میں دستیاب تھے او ر آج کس قیمت پر مل رہے ہیں؟ تین سال پہلے عوامی فلاح کے منصوبے کس رفتار سے چل رہے تھے اور آج وہ حکومتی ترجیحات میں کہاں کھڑے ہیں؟ اس وقت ڈالر کی قدر کیا تھی، معیشت کا حجم کتنا تھا اور آج کی صورت حال کیا ہے؟ کیا حکومت اس ضمن میں عوام کے سامنے حقائق لائے گی؟
ہماری حکومتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو آدھا سچ بتاتی ہیں اور آدھا جھوٹ۔ اب حکومت کہہ رہی ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں ترسیلاتِ زر 24.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے مگر حکومت یہ نہیں بتا رہی کہ ترسیلاتِ زر میں اضافے کی ایک بڑی وجہ لوگوں کا بیرونِ ممالک سے بیروزگار ہوکر واپس آنا بھی ہے اور دوسری بڑی وجہ ہوائی سفر پر پابندیوں کے باعث لوگ خود پاکستان نہیں آپا رہے‘ اس لیے بینکوں کے ذریعے پیسے بھیج رہے ہیں۔ ایک اور واویلا جو حکومت کر رہی ہے وہ یہ کہ زر مبادلہ کے مجموعی ذخائر 23 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں مگرعوام کو یہ نہیں بتا رہی کہ ذخائر میں اضافہ کس قیمت پر کیا گیا ہے۔ ڈالرز بچانے کے لیے حکومت نے درآمدات کے سارے کاروبار ٹھپ کر دیے ہیں اور عالمی سیر وسیاحت پر پابندیوں کی وجہ سے پاکستانی بیرونِ ممالک نہیں جا پا رہے‘ اس باعث بھی ڈالرز کی بچت ہو رہی ہے۔ حکومت بار بار اعلان کر رہی ہے کہ اس سال برآمدات میں 10 فیصد سے زائد اضافہ متوقع ہے مگر عوام لاعلم ہیں کہ یہ اضافہ وقتی ہو گا یا مستقل بنیادوں پر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برآمدات میں خاطرخواہ بڑھاوا آیا ہے مگر اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باقی دنیا میں لاک ڈاؤن ہے اور ان کے آرڈرز ہمیں مل رہے ہیں۔ کیا کوئی گارنٹی دے سکتا ہے کہ باقی دنیا میں کارخانے کھلنے کے بعد بھی یہ آرڈرز ہمیں ملیں گے؟
تین سالوں میں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ حکومت کو سمجھ آ گئی ہے کہ اگلا الیکشن جیتنے کے لیے معیشت کو کیسے چلایا جاتا ہے؟ اسی لیے اب حکومتی اعداد وشمار میں گروتھ بھی نظر آ رہی ہے اور معیشت کا حجم بھی بڑھ رہا ہے۔ عوام کی فی کس آمدنی میں بھی اضافہ دکھایا جا رہا ہے اور بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام بھی شروع ہو رہا ہے۔ حکومت اپنی ترجیحات میں الیکشن پر بھی توجہ دے مگر خدارا! معیشت کو کھوکھلے اعداد وشمار سے مت بھرے۔ اگر حکومت معیشت کو لے کر سنجیدہ ہے تو ایف بی آر کے ریونیو کو بڑھانا ہو گا۔ جب تک حکومتی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا مالیاتی خسارے بڑھتے رہیں گے اور حکومت کشکول اٹھانے پر مجبور رہے گا۔ پاکستان میں صرف چند لاکھ لوگ ہی ٹیکس دیتے ہیں‘ اب ہمیں ٹیکس نہیں بلکہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانا ہے۔ اس کام کے لیے ہمیں اپنے بینکوں کے نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا کیونکہ پاکستانیوں کا 42 فیصدسرمایہ آج بھی بینکوں سے باہر پڑا ہے۔ جب تک یہ پیسہ لوگوں کی تجوریوں سے نکل کر بینکوں تک نہیں آ جاتا معیشت ایسے ہی بیساکھیوں پر چلتی رہے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشی ماحول کو بہتر بنائے تاکہ پرائیویٹ سکیٹر کا اعتماد بحال ہو۔ جب تک پرائیویٹ سیکٹر بینکوں سے قرضہ لے کر نئی صنعتیں نہیں لگاتا اس وقت تک روزگار کے مواقع محدود رہیں گے اور معیشت کا حجم نہیں بڑھے گا۔ حکومت اگر بڑی صنعتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی صنعتوں پر بھی مراعات کے دروازے کھول دے تو حیران کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس سے بڑے شہروں کی طرح چھوٹے شہروں میں بھی ترقی ہوگی اور شرح نمو میں صحیح معنوں میں اضافہ ہو گا۔ یہ امر بھی حکومت کے پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس کے تین برس بیت گئے ہیں اور اگر روایتی چلن تبدیل نہ کیا گیا تو معیشت کے ساتھ اس کی مقبولیت بھی زمین بوس ہو جائے گی۔ وقت کبھی کسی پر ہمیشہ کے لیے مہربان نہیں ہوتا۔ آج یہ ہیں‘ کل کوئی اور ہو گا۔ جو کرنا ہے کر گزرنا چاہیے کہ ناممکن کچھ نہیں ہوتا۔ یگانہ چنگیزی کا مصرع ملاحظہ کریں ؎
درد ہو تو دوا بھی ممکن ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں