وزیراعظم اور پانچ ارکانِ اسمبلی کی کہانی

کیا میڈیکل کی تعلیم حاصل کیے بغیر کوئی ڈاکٹر کا منصب پا سکتا ہے؟ کیا سائنس کا علم جانے بنا کوئی سائنسدان بن سکتا ہے؟ کیا وکالت کی ڈگری لیے بغیر کوئی عدالت جا کر کیس لڑ سکتا ہے؟ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر قانون ساز اداروں کے ممبرز بننے کے لیے کوئی تعلیم یا ڈگری کیوں ضروری نہیں؟ کتنی عجیب با ت ہے کہ ایم این اے اور ایم پی اے کوئی بھی بن سکتا ہے۔ جی ہاں کوئی بھی! تعلیم ضروری ہے نہ تجربہ۔ بس عوام جسے ووٹ دے کر چن لیں ع
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے سیاہ فام لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''جب تک سیاسی اشرافیہ میں تعلیم عام نہیں ہو گی تب تک غلاموں کو کالے قوانین سے نجات نہیں ملے گی۔ جب تک سیاستدان اپنے اثر و رسوخ کے باعث اعلیٰ عہدے پاتے رہیں گے تب تک غریب کی کوئی فکر نہیں کرے گا۔ ہمیں اپنی اسمبلیوں میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہو گا ورنہ استحصال کرنے والے کم ہوں گے نہ قانون توڑنے والے۔ کالا ہونا جرم ہے نہ غریب ہونا۔ جرم اگر کوئی ہے تو جہالت کا لبادہ اوڑھے رکھنا ہے۔ جو وقت کے ساتھ خود کو نہیں بدلتے‘ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرتی‘‘۔ امریکا نے تو ابراہم لنکن کے فرمان کو اپنا لیا مگر نجانے کب ہماری اسمبلیوں میں تعلیم کے چراغ جلیں گے؟ نجانے کب ماہرین اسمبلیوں میں آ کر ہمارے مسائل کا حل نکالیں گے؟ نجانے کب پارلیمنٹ‘ جسے تمام اداروں کی ماں کہا جاتا ہے‘ کی تکریم اس کے اپنے ارکان بھی کریں گے۔
گزرے ہفتے قومی اسمبلی سے لے کر پنجاب اسمبلی تک اور سندھ اسمبلی سے لے کر بلوچستان اسمبلی تک‘ جو کچھ ہوا قابلِ افسوس بھی تھا اور قابلِ مذمت بھی۔ کیا اب ہمارے سیاستدان انہی کاموں کے لیے رہ گئے ہیں؟ بجٹ پر سیر حاصل گفتگو نہیں کرتے، بجٹ پر اپنی تجاویز دے کر اُسے عوامی نہیں بناتے مگر لڑنے کے لیے ضرور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ قومی اسمبلی کے رولز کیا کہتے ہیں؟ کیا انہیں پتا نہیں کہ ایک دن اسمبلی کا سیشن نہ ہو تو قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑتا ہے؟ ویسے تو لڑائی جھگڑے لوک سبھا میں بھی ہوتے ہیں اور کانگرس میں بھی۔ ہاؤس آف کامنز میں بھی ممبرز گالم گلوچ پراتر آتے ہیں اور جرمن وفاقی پارلیمنٹ (Bundestag) میں بھی مگر ایک فرق ہے؛ ترقی یافتہ ممالک کے ارکانِ اسمبلی اگر کبھی کبھار لڑتے ہیں تو کام بھی کرتے ہیں۔ سیاسی مفادات کے لیے درجہ حرارت بڑھاتے ہیں تو عوام کے مفادات کو بھی عزیز رکھتے ہیں مگر افسوس! ہمارے ہاں کام کم اور غیر ضروری مباحثے زیادہ ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کی پارلیمنٹوں میں صحت، تعلیم، صنعت، آئی ٹی، معیشت، امورِ داخلہ اور خارجہ پر نئے نئے قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ہماری پارلیمنٹ میں قانون سازی سے زیادہ الزام تراشی اور طعنہ زنی ہوتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے ارکانِ اسمبلی اپنے کام پہ توجہ کیوں نہیں رکھتے؟ وہ سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے لڑائی جھگڑے پہ تیار کیوں ہوجاتے ہیں؟
ہماری پولیٹکل کلاس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تعلیم اور سیاست کو الگ الگ سمجھتی ہے۔ کالج اور یونیورسٹی بھی ڈگری کے لیے جاتے ہیں‘ تعلیم کے لیے نہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب یہ لوگ منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو ان کا دھیان قانون سازی سے زیادہ ترقیاتی کاموں پر ہوتا ہے۔ یہ افراد رکنِ اسمبلی کے کاموں کو پسِ پشت ڈال کر بلدیاتی اداروں والے کاموں میں جُت جاتے ہیں۔ نجانے کیوں انہیں ہر اس کام میں دلچسپی ہوتی ہے جو ان کے کرنے کا نہیں ہوتا۔ اگر انہیں میئر کے اختیارات اتنے اچھے لگتے ہیں تو یہ میئر کا الیکشن کیوں نہیں لڑتے؟ پھر خیال آتا ہے کہ میئر کا الیکشن کیسے لڑیں؟ بلدیاتی ادارے تو حکمرانوں کو اچھے ہی نہیں لگتے ہیں۔ دو سال سے زائد بیت چکے مگر مجال ہے حکومت الیکشن کروانے کی طرف آتی ہو۔ ہماری پارلیمنٹ کے ممبران کو یہ بھی احساس نہیں ہے کہ غریب قوم کے ٹیکس کے پیسے سے ان پر خرچ کتنا آتا ہے۔ موجودہ بجٹ میں پارلیمنٹ کے لیے تقریباً دس ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ایک د ن کے سیشن پر لگ بھگ ڈھائی کروڑ روپے خرچہ آتا ہے۔ ان ممبرز کی دیکھ بھال اور سہولت کے لیے 1400 سے زائد ملازمین ہیں‘ پھر بھی اگر اسمبلی میں کام نہ ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے‘ سوائے کڑھنے اور اپنا خون جلانے کے؟
ماضی کی اسمبلیوں میں بھی کم پڑھے لکھے لوگ ممبرز بنتے رہے اور یہ روایت موجودہ اسمبلی میں بھی قائم ہے۔ 2018ء کی فافن کی رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ قومی اسمبلی کے 24 ارکان کی تعلیم میٹرک یا اس سے بھی کم ہے۔ 9 ممبرز کے پاس دینی تعلیم کی سند ہے جبکہ 20 ارکان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی تعلیم کا ''شاندار کیریئر‘‘ چھپا رکھا ہے۔ وہ کسی کو بتانا پسند نہیں کرتے کہ ان کی تعلیمی قابلیت کیا ہے۔ جو صحافی اسمبلی کی کارروائی کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ ایسے ممبرز اسمبلی پر بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔ لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں، ٹی اے ڈی اے اور باقی سہولتیں الگ مگر یہ کبھی اسمبلی کی کارروائی میں حصہ نہیں لیتے۔ ایسے ممبرز سوالات کرتے ہیں نہ پرائیویٹ ممبرز بل پیش کرتے ہیں۔ کوئی تحریک التوا لے کر آتے ہیں نہ توجہ دلاؤ نوٹس۔ سیاسی جماعتیں انہیں حکومتی جوڑ توڑ میں استعمال کرتی ہیں ورنہ ان میں صلاحیت ہوتی ہے نہ کوئی ہنر۔ یہ ہر حکومتی جماعت کے لاڈلے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ چپ کا روزہ رکھ کر اسمبلی آتے ہیں اور اسی حالت میں واپس چلے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وزیراعظم یا کسی وزیر کی تقریر کے دوران ''تالیاں‘‘ بجا لیتے ہیں یا کبھی لڑائی کی صورت میں طعنے اور گالیاں دے لیتے ہیں۔ ایسے ارکان صرف موجودہ اسمبلی میں نہیں ہیں، یہ ہر اسمبلی میں ہوتے ہیں۔ فافن ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ 2017ء کے پارلیمانی سال میں 69 ممبرز ایسے تھے جو کبھی اسمبلی کی کارروائی میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ ان ''گوہر نایابوں‘‘ میں مسلم لیگ نواز کے 47 اور پیپلزپارٹی کے 13 ممبرز شامل تھے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب بڑی جماعتوں کا یہ حال ہوگا تو چھوٹی جماعتوں کے ارکان کتنی لاپروائی برتتے ہوں گے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ''سیاسی گھرانے‘‘ دیکھ کر الیکشن میں ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں نہ کہ تعلیم اور ہنرکی وجہ سے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ چلن ہرگز نہیں ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں تعلیم اورسیاسی سوجھ بوجھ کی بنیاد پر ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ آگے آتے جاتے ہیں اور اَن پڑھ ماضی کی تاریک راہوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ اس وقت بھی برطانیہ میں 95 فیصد ممبرز پارلیمنٹ کے پاس کالج کی ڈگری ہے جبکہ امریکا میں کانگرس کے 90 فیصد ممبرز اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہاں سیاسی جماعتوں میں اتنی بلوغت آ چکی ہے کہ وہ خود ہی کم پڑھے لکھے سیاستدانوں کو آگے نہیں آنے دیتیں۔
یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے‘ دو سال قبل جب فواد چودھری کو وزارتِ اطلاعات سے ہٹا کر فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات و نشریات کا معاونِ خصوصی بنایا گیا تو ہمارے ایک صحافی دوست نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ آپ پارلیمنٹ کو زیادہ اہمیت کیوں نہیں دے رہے؟ غیر منتخب لوگ آپ کی کابینہ میں کیوں بڑھتے جا رہے ہیں؟ محترم وزیر اعظم کا جواب زمینی حقائق کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے فرمایا ''آپ بتا دیں کہ میں اپنی پارلیمانی پارٹی میں سے اور کس کس کو وزارت دوں اور کون ہے جو حکومتی امور کو احسن انداز میں چلا سکے؟ آپ دو ہفتے کے اندر پانچ ارکان کی لسٹ بنا کر مجھے بھیج دیں میں انہیں وزارت دے دوں گا۔ صحافی دوست نے مجھ سے رابطہ کیا‘ ہم دونوں نے لسٹ بنانے کے لیے کافی سوچ بچار کی مگر دوسال گزرنے کے باوجود ہم پانچ اہل ارکان نہیں ڈھونڈ سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں