اکیلی حکومت کیا کیا کرے؟

سقراط اپنے شاگردوں کے جھرمٹ میں بیٹھا تھا، ایک شاگرد نے سوال کیا: حکمرانوں کی قابلیت کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟ سقراط نے جواب دیا ''تدبر اور حکمت سے! قابل حکمران تدبر اور حکمت سے کام لیتے ہیں اس لیے غلطیاں کم سے کم کرتے ہیں‘‘۔ دوسرا شاگرد کھڑا ہوا اور سقراط سے پوچھا: حکمرانوں کی ذہانت کو کیسے جانچا جاتا ہے؟ سقراط مسکرایا اور بولا ''غلطیوں کی اصلاح سے! جو حکمران اپنی غلطیوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور ان کا ہر ممکن دفاع کرتے ہیں، ذہانت ایسے حکمرانوں کو چھو کربھی نہیں گزرتی مگر دانا حکمران غلطیوں سے سیکھتے اور اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ ہر نیکی عقل ہے اور ہر برائی جہالت‘‘۔ سقراط کو تو حکمرانوں کے زہر نے مار دیا مگر کیا ہزاروں سال بعد حکمرانوں کی ذہانت اور قابلیت کا معیار تبدیل ہوا؟ کیا آج بھی حکمران غلطیوں پر غلطی نہیں کرتے؟ کیا آج بھی حکمران اپنی غلطیوں کے دفاع میں کھڑے نہیں ہوتے؟ اگر سب کچھ ایسا ہی ہے تو کیا زہر کا پیالہ سقراط کو ختم کر سکا؟ افریقی کہاوت ہے کہ سارے حکمران ایک جیسے نہیں ہوتے‘ بلکہ کچھ ایسے ''خوش بخت‘‘ بھی ہوتے ہیں جو صحرا میں قدم رکھ لیں تو ریت بھی نایاب ہو جاتی ہے، دریا کی جانب رخ کر لیں تو دریا بوند بوند کو ترس جاتا ہے اور اگر وادیوں پر نظر جما لیں تو ساری ہریالی غائب ہو جاتی ہے۔ یہ سب قسمت کا کھیل ہے یا نیتوں کا پھل! حکمران کوشش کرتے ہیں مگر کس کے حصے میں کامیابی آتی ہے اور کس کے نصیب میں ناکامی، اس کا معیار سقراط نے بہت پہلے طے کر دیا تھا۔
جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے‘ تنقید کے نشتر کم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ کبھی چینی مافیا کو لے کر حکومت کے لتے لیے جاتے ہیں اورکبھی آٹا، گندم، ادویات اور پیڑول مافیاز کے باعث طرزِحکمرانی میں کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ اب نئی مصیبت بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے کھڑی ہو گئی ہے جس کے بعد ناقدین ایک بار پھر تنقید کی ناؤ پر سوار ہو چکے ہیں اورہم جیسے رجعت پسند شہری حکومت کے دفاع میں نکل آئے ہیں۔ یقین مانیں! جیسے جیسے حکومت کے مخالفین کے آوازیں بلند ہو رہی ہیں ویسے ویسے میری ہمدردیاں حکومتِ وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں‘ انہیں مافیاز کے سامنے حکومت کی بے بسی نظر ہی نہیں آتی؟ حکومت جب بھی ان مافیاز کا راستہ روکتی ہے‘ وہ دامن چھڑا کر نکل جاتے ہیں تو اس میں حکومت کا کیا قصور ہے؟ میں تو جب بھی حکومت کو یوں بے بس اور لاچار دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا میٹرک کا دوست محمد علی یاد آ جاتا ہے۔ نویں سے دسویں جماعت میں جانے کے لیے سکول میں امتحانات ہوئے تو میرا یہ دوست تقریباً سارے مضامین میں فیل ہو گیا۔ اس کے والد صاحب نامی گرامی افسر تھے۔ ہمارے کلاس ٹیچر نے انہیں سکول بلایا تو وہ اگلے دن ہی آ گئے۔ ٹیچر نے محمد علی کی مارک شیٹ ان کے سامنے رکھ دی۔ والد کو زرلٹ دیکھ کر غصہ آگیا۔ انہوں نے بیٹے کو خوب ڈانٹا۔ محمد علی نے ندامت سے سر جھکا دیا اور دھیمی آواز میں بولا: میں کلی جان، میں کی کی پڑھاں؟ میں انگریزی پڑھاں، ریاضی پڑھاں، سائنس پڑھاں، اردو پڑھاں، اسلامیات پڑھاں۔ میں کلی جان، میں کی کی پڑھاں۔ (میں اکیلا ہوں‘ میں کیا کیا پڑھوں۔ انگریزی پڑھوں، ریاضی پڑھوں، سائنس، اردو یا اسلامیات پڑھوں۔ میں اکیلا ہوں‘ میں کیا کیا پڑھوں)۔ آپ خود فیصلہ کریں، محمد علی کی طرح اکیلی حکومت کیا کیا کرے۔ مافیاز سے لڑے یا مہنگائی سے۔ بدانتظامی کا قلع قمع کرے یا نااہلی کا۔ معیشت پر دھیان دے یا گورننس پر۔ چینی کی قلت دور کرے یا گندم کی۔ پولیس کو ٹھیک کرے یا پٹوار کو۔ اپوزیشن کا احتساب کرے یا حکومتی شخصیات کا۔ پنجاب کے مسائل حل کرے یا پختونخوا کے۔ وفاق کی الجھی ڈوریں سلجھائے یا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی۔ بے چاری اکیلی حکومت‘ جائے تو جائے کہاں؟ نکتہ چینوں کے منہ بند کرے یا عوام کو جواب دے۔ اپنے انتخابی منشور پر عمل کرے یا زمینی حقائق کو مدنظر رکھے۔ افغانستان سے امریکی انخلا پر فوکس کرے یا بھارت کے عزائم کو مٹی میں ملائے۔ چین سے دوستی نبھائے یا مغرب و امریکا سے۔ کوئی تو ہو جو حکومت کی الجھنوں کو سمجھ سکے؟ کوئی تو ہو جو حکومت کو کہے: لگیں رہیں‘ آپ ٹھیک ڈگر پر ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ اس کے بعد اتنی ''دور اندیش‘‘ حکومت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
مانتا ہوں کہ ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ایک بار پھر بے لگام ہو چکی ہے۔ شہروں میں آٹھ سے دس گھنٹے اور دیہات میں بارہ سے پندرہ گھنٹوں کے لیے بجلی بندکی جا رہی ہے۔ جانتا ہوں کہ گیس کی بندش کے باعث انڈسٹری کا برا حال ہے اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ میرے علم میں یہ بھی ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 24 ہزار 500 میگاواٹ ہے اور اس وقت 20 ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی جا رہی۔ پانچ ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال ہے جس نے لوگو ں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ بعض علاقوں میں بجلی جاتی ہے تو واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ حکومت کی کارکردگی میں مین میکھ نکالنے والوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ لوڈ شیڈنگ کی وجوہات کیا ہیں۔ حکومت کی اس میں کوئی کوتاہی ہے بھی یا نہیں؟ اس وقت لوڈ شیڈنگ کی بڑی وجہ 600 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کا سسٹم کو دستیاب نہ ہونا ہے کیونکہ ایک پرائیویٹ کمپنی کے ایل این جی ٹرمینل کی ڈرائی ڈاکنگ (Maintenance) کی جا رہی ہے۔ گیس کی اتنی بڑی مقدار سے چار ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ بجلی بنتی ہے۔ حکومت نے اس لاپروائی کا الزام پرائیویٹ کمپنی پر عائد کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ٹرمینل کی ڈرائی ڈاکنگ کا مقررہ وقت پر نہیں بتایا۔ دوسری طرف کمپنی کا موقف ہے کہ وہ حکومت کو مارچ میں مطلع کر چکی تھی۔ اب غلطی حکومت کی ہے یا پرائیویٹ کمپنی کی‘ لوڈشیڈنگ کا عذاب تو عوام کو بھگتنا پڑرہاہے۔ غور کیا جائے تو یہاں بھی حکومت پرائیویٹ کمپنی کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہے مگراس بار بھی نقادوں کی نبض مسلسل پھڑک رہی ہے۔
لوڈشیڈنگ کی دوسری بڑی وجہ تربیلا ڈیم میں پانی کا نہ ہونا ہے۔ حکومت پانی کی کمی کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شمالی علاقہ جات میں برف کے کم پگھلنے کو قرار دے رہی ہے۔ تربیلا ڈیم اس وقت 25 سے 30 فیصد صلاحیت پر کا م کر رہا ہے جس کی وجہ سے 3500 میگا واٹ بجلی سسٹم کو کم مل رہی ہے۔ حکومت کے گُن نہ ماننے والے یہاں بھی حکومت کو ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے متعلقہ ادارے پہاڑوں پر برف نہ پگھلنے سے بے خبر کیوں رہے؟ اور اگر انہوں نے حکومت کو خبردار کر دیا تھا تو حکومت نے توجہ کیوں نہ دی؟ حکومت اگر مناسب منصوبہ بندی کرتی تو عوام کو اس تکلیف سے بچایا جاسکتا تھا کیونکہ حکومت نے چھ سرکاری بجلی گھر اضافی بجلی ہونے کی وجہ سے بند کر رکھے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ حکومت کے ناقدین کو کھوٹے کھرے کی پہچان ہے نہ اچھے برے کی۔ ان کا کام تو بس حکومت کو بنا سوچے سمجھے ہدفِ تنقید بنانا ہے۔ بھلا انہیں کون بتائے کہ پہاڑوں سے برف موسم کی شدت کے باعث پگھلتی ہے‘ حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے نہیں۔ اگرحکومت کی کارکردگی کا اس میں کوئی کمال ہوتا تو برف کب کی پگھل چکی ہوتی اور تربیلا بھی بھر چکا ہوتا۔ عوام کی فریادیں پہاڑوں تک جاتی ہیں اور نہ آنسو تربیلا میں گرتے ہیں۔ حکومت کے سارے ناقدین یاد رکھیں حکومت نے جس جس کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا وہ کہیں کا نہیں رہا۔ حکومت نے چینی چوروں کو بے نقاب کیا، گندم، ادویات اور پیڑول مافیا کو چوراہے میں کھڑا کیا۔ میرا پختہ یقین ہے کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے ذمہ داروں کا بھی یہی حال ہو گا کیونکہ حکومت کے نزدیک مافیا‘ مافیا ہوتا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا، اصل ہو یا نقل۔ آپ دیکھ لیجئے گا حکومت اس بار تاویلیں پیش کرے گی نہ دوسروں پر الزام دھرے گی بلکہ ذمہ داروں کونشانِ عبرت بنائے گی۔ پھر خیال آتا ہے کہ ایک اور کام حکومت کے کرنے کو آ گیا ہے۔ اب اکیلی حکومت کیا کیا کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں