تحریک انصاف جیت چکی ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ انسان چشمۂ خواب سے ہی اپنی پیاس بجھا لے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دیوانہ پرچھائیں کو دیکھے اور اس کی روح سیراب ہو جائے؟ کیا یہ امکان موجود ہے کہ پانی میں اترے بنا تیراکی کا شوق تمام کر لیا جائے؟ اور سب سے بڑھ کر‘ کیا دوسرے کی ہار دیکھ کر اپنی فتح کا اعلان کر دینا چاہیے؟ اگر نہیں تو کشمیر کے الیکشن میں تمام پارٹیاں اپنی اپنی جیت کے دعوے کیوں کر رہی ہیں؟ تحریک انصاف بغلیں بجا رہی ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر لے گی جبکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی بھی جیت کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ اب سیاست دانوں کو کون سمجھائے کہ مقابلے سے پہلے امید کے دیے جلائے جاتے ہیں‘ جیت کے جشن نہیں مناتے۔ امیر مینائی یاد آتے ہیں ؎
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
کشمیر میں الیکشن مہم کا سورج سوا نیزے پر ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں دنگل کا سماں ہے۔ بلاول بھٹو چند جلسے کر کے امریکا جا چکے ہیں اور یوں مریم نواز اور وفاقی وزرا کے لیے میدان خالی ہے۔ جس کے دل میں جو ہے‘ وہ زباں پر آ رہا ہے۔ حساس موضوعات کا خیال رکھا جا رہا ہے نہ باہمی احترام ملحوظِ خاطر ہے۔ دونوں طرف سے الزامات کی آندھی چل رہی ہے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس الیکشن مہم سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ہماری سیاسی لیڈرشپ کو تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ پاکستان کا نہیں‘ کشمیر کا الیکشن ہے۔ کشمیر کی اپنی ایک حساسیت ہے‘ جسے کوئی بھی مدنظر نہیں رکھ رہا۔ نجانے کیوں مریم نواز بار بار کہہ رہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے پانچ اگست کے اقدامات کے پیچھے ہماری وفاقی حکومت کی مرضی شامل تھی۔ کاش! مسلم لیگ نون کی نائب صدر ایسے بیانات دینے کے بعد بھارتی میڈیا کو بھی دیکھ لیں‘ پھر شاید انہیں احساس ہو کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں اور کیوں۔ مودی حکومت کا آلہ کار میڈیا ایسے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے اور انہیں اپنی مرضی کے معنی دے رہا ہے۔ انڈیا میںجو کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے‘ میری تحریر میں اتنی ''وسعت‘‘ نہیں کہ وہ باتیں سما سکیں۔ مریم نواز کا ایک اور بیان جس کے بھارتی میڈیا میں خوب چرچے ہیں وہ یہ کہ ''وزیراعظم عمران خان کشمیر کو صوبہ بنانا چاہتے ہیں‘‘۔ ایسی تقریروں سے ہو سکتا ہے مسلم لیگ نون کو تھوڑا بہت سیاسی فائدہ مل جائے مگر یہ ملک و قوم کی خدمت ہرگز نہیں ہے۔ آزادکشمیرکو صوبہ بنانے کا مطلب ہے آپ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کو تسلیم کر رہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 35اے اور 370 کے خاتمے پر بھی آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیا کوئی محب وطن ایسا کر سکتا ہے؟ کیا کوئی اپنے گھر کو خود آگ لگا سکتا ہے؟ کیا کوئی اپنے حصے کا دیا رقیب کی منڈیر پر رکھ سکتا ہے؟ خدارا! الیکشن کو الیکشن سمجھ کر لڑیں‘ جنگ سمجھ کر نہیں۔ وہ الزامات مت لگائیں جن کا کوئی وجود‘ کوئی سر پیر ہی نہ ہو۔ ایسی بات مت کریں جس کے بعد دشمن کے آنگن میں شادیانے بجنے لگیں۔ آپ تنقید ضرور کریں مگر حکومت کی کارکردگی پر۔ تحریک انصاف کی ''کارکردگی‘‘ ایسی ہے کہ آپ بات کرنے لگیں گے تو شاید کسی اور موضوع کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
اب دیکھتے ہیں کشمیر کا الیکشن کون جیتے گا اور کون محض نعرے بازی تک محدود رہے گا؟ ایک بات جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ کہ مستقبل کی اپنی آنکھیں نہیں ہوتیں وہ ہمیشہ ماضی کی روشنی سے کام چلاتا ہے اور ماضی جو دکھاتا ہے‘ وہی مستقبل کو نظر آتا ہے۔ میر ے نزدیک کشمیر الیکشن میں کچھ نیا ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اس بار بھی وہی ہو گا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ اپوزیشن لاکھ جتن کرے،الزامات لگائے، حکومتی نااہلی کا ڈھول پیٹے یا سچ جھوٹ ملا کر کشمیریوں کے دل جیتنے کی کوشش کرے۔ اس کی دال گلنے والی نہیں‘ ہوگا وہی جوکشمیر الیکشن کی ریت رہی ہے۔ اس بار بھی ویسا ہی نتیجہ نکلے گا جو گزشتہ کئی انتخابات میں نکلتا آیا ہے۔
البتہ کچھ سوالات ہیں جو یونہی ذہن میں سوچوں کے پردے پر نمودار ہو رہے ہیں کہ شاید کوئی مناسب جواب مل سکے۔ کوئی تو ہو جو یہ بتا سکے کہ کشمیر میں ہمیشہ وہی پارٹی کیوں جیتتی ہے جو اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھی ہوتی ہے؟ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو کشمیر میں بھی وہی برسرِ اقتدار آئی۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو کشمیر میں بھی جیت نون لیگ کے حصے میں آئی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ دوسرا، ہر الیکشن سے پہلے امیدواروں کی منڈی کیوں لگتی ہے؟ اور ہمیشہ اُس پارٹی کے ممبرز کا ''ضمیر‘‘ کیوں جاگتا ہے جو مظفرآباد میں اپنی مدت پوری کرچکی ہوتی ہے؟ صحت، تعلیم، سٹرکیں، صاف پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی بنیاد پر کشمیر کے لوگ ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ اور اگر دیتے ہیں تو پھر نتیجہ وہی کیوں نکلتا ہے جس بارے لوگ پہلے ہی اندازے لگا چکے ہوتے ہیں؟
یہ صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں ہے‘ گلگت بلتستان کے الیکشن بھی اسی طرز پر ہی ہوتے ہیں۔ وہاں بھی وہی جیتتا ہے جو اسلام آباد کی مسندِ اقتدار پر براجمان ہوتا ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی جیتی، پھر مسلم لیگ نون اور اب وہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام محض فنڈز اور سہولتوں کے لیے حکومتی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یا وجہ کچھ اور ہے؟ کون جانے یہ عقدہ کب کھلے گا۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان میں بھی ایسا ہی ''جادو بھرا‘‘ الیکشن ہوتا ہے۔ وہاں بھی ہمیشہ وہی پارٹی حکومت بناتی ہے جو وفاق میں بیٹھی ہوتی ہے۔ اختر مینگل کی حکومت ہو یا جام یوسف کی، اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ ہوں یا ڈاکٹر مالک یا پھر ثناء اللہ زہری اور اب جام کمال۔ یہ سب وفاقی حکومت کے نمائندے تھے یا اتحادی؟ مجھے نہیں معلوم یہ کرشمہ کیسے ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟ بلوچستان سے پنجاب میں داخل ہوں تو یہاں بھی ایک ''جادونگری‘‘ آتی ہے جسے عرفِ عام میں جنوبی پنجاب کہا جاتا ہے۔ یہاں ہر الیکشن سے پہلے امیدواروں کے سر کے تاج تبدیل کیے جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بادبانی سیاست والے زیادہ ہیں‘ یعنی ان کی منزل کا تعین ہوا کا رخ کرتا ہے۔ زیادہ دور مت جائیں‘ آپ گزشتہ پانچ انتخابات کے حقائق دیکھ لیں‘ ساری حقیقت واضح ہو جائے گی۔ سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے کا رجحان جتنا جنوبی پنجاب میں ملتا ہے شاید ہی ملک کے کسی اور علاقے میں اتنا رواج ہو۔ ڈیرہ غازی خان کے لغاری ہوں یا کھوسہ خاندان، راجن پور کے مزاری ہوں یا دریشک، مظفر گڑھ کے کھر ہوں یا گوپانگ یا پھر بخاری خاندان، ملتان کے قریشی ہوں یا مخدوم، خانیوال کا سید خاندان ہو یا ہراج، رحیم یار خان کے تینوں مخدوم خاندان ہوں یا وڑائچ، بہاولنگر کی لالیکا فیملی ہو یا وہاڑی کے کھچی، لودھراں کے کانجو ہوں یا ترین‘ سب پارٹیاں بدل چکے ہیں۔ ہوا کا رخ جس پارٹی کی طرف ہوتا ہے یہ سیاسی گھرانے بھی اپنی بادبانی کشتیوں کو اس رخ پر چلانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ پارٹی پنجاب اور وفاق میں حکومت بنا لیتی ہے۔ کوئی تو بتائے ان رہنمائوں کو ہوائوں کا بدلتا رخ کیسے نظر آ جاتا ہے؟ کراچی کا بھی یہی حال ہے۔ اس شہر کے الیکشن کو سمجھنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں بھی نظر کے دھوکے جگہ جگہ ملتے ہیں۔ ایک پارٹی کی ہانڈی میں ابال آتا ہے‘ دوسری پارٹی شور مچاتی رہتی ہے مگر جیت کوئی اور جاتا ہے۔ یہ ایسے بھید ہیں جو کھلتے ہیں نہ سمجھ میں آتے ہیں۔ پھر خیال آتا ہے سمجھ کر کرنا بھی کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں