لاڈلوں کی لڑائی

شیخ سعدی کا قول ہے ''لڑکھڑاتے پتھر پر گھاس اگتی ہے نہ تنے ہوئے درخت پر پھل۔ آگ کی فطرت میں سرکشی اور تکبر ہوتا ہے جبکہ مٹی میں عجز اور انکساری۔ آگ کی ہزار سال پرستش کی جائے تو بھی قریب جانے پر جلا کر راکھ کر دیتی ہے‘‘۔ قدرت کا قانون ہے کہ جھکے ہوئے درخت پر پھل زیادہ لگتا ہے اور چھاؤں بھی گھنی ہوتی ہے۔ اتنی سی بات مسلم لیگ نون سمجھ سکی نہ اس کے پارٹی قائدین۔ ترقی پذیر ممالک میں سیاست بھی آگ کا کھیل ہوتی ہے مگر اس کھیل میں دامن بچا کر چلنا پڑتا ہے۔ جو بے احتیاطی کرتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے فنا کی راہ اختیار کر لیتا ہے اور جو ''مٹی‘‘ کی فطرت پر چلتا ہے وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے۔
چند روز قبل تک میرا احساس تھا کہ 2023ء الیکشن میں مسلم لیگ نون کی واپسی کا سفر شروع ہو جائے گا، شہباز شریف پارٹی کی قیادت کریں گے اور میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی لندن میں آرام۔ مگر دو دن پہلے ہونے والی ایک ملاقات نے میری ''خوش گمانی‘‘ کو عیاں کر دیا۔ اپنے دوست اور سینئر صحافی سے ملنے گیا تو وہاں ایک وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نون کے اہم رہنما بھی تشریف فرما تھے۔ ان تینوں کے درمیان ہونے والی گفتگو نے 2023ء کے الیکشن کا منظر نامہ واضح کر دیا۔ جیسے جیسے میں ان حضرات کے دلائل سن رہا تھا مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ''لاعلمی‘‘ کا اندھیرا چھٹ رہا ہو اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہو۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو میاں نواز شریف کی برطانیہ میں ویزہ منسوخی کا معاملہ زیر بحث تھا اور مسلم لیگ نون کے رہنما دھیمے انداز میں بول رہے تھے ''حکومت کو میاں صاحب کے ویزے کی درخواست منسوخ ہونے پر بغلیں نہیں بجانی چاہئیں۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا نظر آ رہا ہے۔ حکومت دعا کرے کہ اپیل میں میاں نواز شریف کو ویزے میں توسیع مل جائے ورنہ بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔ آج جو ہم پر ہنس رہے ہیں انہیں رونا بھی پڑسکتا ہے‘‘۔
یہ سنتے ہی وفاقی وزیر پہلے تو طنزاً مسکرائے اور پھر بولے ''جرم آپ کریں اور سزا ہمیں ملے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میاں نواز شریف عدالتوں کو مطلوب ہیں اور وہ غیر قانونی طور پر لندن میں بیٹھے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ فوری طور پر واپس آ جائیں۔ اسی میں ان کی بہتری ہے ورنہ ہم آخری حد تک جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ہماری سیاست کا دار و مدار نواز شریف کی وطن واپسی سے جڑا ہے‘ ہم یہ موقع ضائع نہیں جانے دیں گے‘‘۔ وفاقی وزیر کی بات سن کر لیگی رہنما جذباتی ہو گئے اور یوں ایک طویل مباحثے نے جنم لیا۔
لیگی رہنما: اگر دونوں اپیلوں میں میاں نواز شریف کے ویزے میں توسیع نہ ہوئی تو معاملہ برطانوی ہائیکورٹ میں چلا جائے گا اور پھر سپریم کورٹ۔ کورٹ میاں صاحب کو طلب کرے گی اور پھر انہیں بتانا پڑے گا کہ وہ کیوں پاکستان جانا نہیں چاہتے۔ پھر انہیں ''مجھے کیوں نکالا‘‘ سے لے کر آج تک کی ساری کہانی بیان کرنا پڑے گی۔ انہیں و ہ سارے زخم دکھانا پڑیں گے جو وہ دکھانا نہیں چاہتے۔ انہیں وہ سارے راز بتانا پڑیں گے جو وہ بتانا نہیں چاہتے۔ انہیں ان تما م ''ہستیوں‘‘ کا نام لینا پڑے گا جو اس کھیل کا حصہ تھیں۔ میاں نواز شریف برطانوی عدالتوں میں ایسی باتیں کرنا نہیں چاہتے مگر انہیں مجبور کیا گیا تو پھر وہ ضرور بولیں گے اور کھل کر بولیں گے۔ کیا ریاستِ پاکستان کے لیے وہ دن خوشی کا دن ہو گا؟ کیا حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ کس اندھے کنویں میں خود کو دھکیل رہی ہے؟ خدارا! بغضِ نوا ز شریف میں وہ کام مت کریں جو ملک کے مفاد میں ہے نہ عوام کے۔
وفاقی وزیر: ہم تو چاہتے ہیں کہ آپ یہ سب کریں۔ جس دن میاں صاحب نے برطانیہ میں یہ ''کارنامہ‘‘ سر انجام دیا‘ اسی دن ان کی جماعت پاکستان میں ختم ہو جائے گی۔ یقین نہ آئے تو ایم کیو ایم کا حال دیکھ لیں۔ پھر ہر طرف ہم ہوں گے اور ہماری جماعت۔ کوئی ہمارا متبادل ہوگا نہ چوں چوں کا مربہ بنے گا۔ پورے ملک میں ''ون پارٹی‘‘ رُول ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی سندھ تک سمٹ چکی، اب وہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔
وفاقی وزیر کی بات ابھی جاری تھی کہ لیگی رہنما نے انہیں بیچ میں ٹوک دیا۔ ''آپ کو کس نے اس ''وہم‘‘ میں مبتلا کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی آپ کا مقابلہ نہیں کرے گی؟ کھلی آنکھوں سے دیکھیں، شاید آپ کو کچھ نظر آ جائے۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار کے خواب دکھائے جا چکے ہیں۔ آپ کوکیا لگتا ہے‘ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر الیکشن میں دوسری بڑی جماعت کیسے بنی؟ ایک بات طے ہے کہ ہم آپ کا ''متبادل‘‘ نہیں بننا چاہتے مگر پیپلز پارٹی پوری تیاری میں ہے‘‘۔وفاقی وزیر: چیل جتنی بھی کوشش کرلے باز نہیں بن سکتی۔ متبادل بننے کے لیے کارکردگی دکھانا پڑتی ہے اور پیپلز پارٹی کی کوئی پرفارمنس ہے ہی نہیں۔
لیگی رہنما: کارکردگی کی بات مت کریں۔ اگر صرف کارکردگی پر حکومتیں ہوتیں تو مسلم لیگ نون آج بھی برسر اقتدار ہوتی۔ اور پھر آپ کی کیا پرفارمنس ہے؟ آپ کچھ نہ کرکے بھی اتنے مطمئن ہیں تو پیپلز پارٹی کیوں نہیں؟ لیگی رہنما مزید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ سینئر صحافی مباحثے میں کود پڑے۔
سینئر صحافی: میر ی اطلاعات بھی یہی ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ''مضبوط‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ زرداری صاحب جنوبی پنجاب سے پارٹی چھوڑنے والوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور معاملات حل ہونے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہی نہیں‘ ق لیگ اور ترین گروپ کی بھی اگلی منزل پیپلز پارٹی ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ دوما ہ قبل چودھری پرویز الٰہی اور زرداری صاحب کی ملاقات کیوں ہوئی تھی؟ کوئی لاکھ انکار کرے مگر دونوں کی ملاقات کا ایجنڈا 2023ء کا الیکشن تھا۔
لیگی رہنما: میں آپ کی بات کی تائید کرتا ہوں۔ ملکی سیاست ''یوٹرن‘‘ لے رہی ہے مگر تبدیلی سرکار کو نظر نہیں آ رہا۔ فیصلہ کرنے والے فیصلہ کر چکے، اگر حکومت لاعلم ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ پنجاب ہی نہیں پیپلزپارٹی کو بلوچستان میں بھی خون کی نئی بوتلیں لگائی جا رہی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) قادر بلوچ کو دیکھ لیں یا ثناء اللہ زہری کو۔ زرداری صاحب متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ہی بلوچستان میں زہری حکومت ختم کی تھی۔ حیرت ہے کہ وہی ثناء اللہ زہری اب پیپلز پارٹی میں چلے گئے ہیں؟ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ فیصلے کہیں ہو رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی صرف فائد اٹھا رہی ہے۔
وفاقی وزیر: آپ کھل کر نام لیں کہ کس نے ثناء اللہ زہری کو پیپلز پارٹی میں جانے پر مجبور کیا؟
لیگی رہنما: وہی جن کے کہنے پر ثناء اللہ زہری نے 2017ء میں وزارتِ اعلیٰ سے استعفیٰ دیا تھا۔ میاں نواز شریف چاہتے تھے کہ زہری مستعفی ہونے کے بجائے حالات کا مقابلہ کریں مگر انہوں نے کسی اور کی بات کو ترجیح دی۔ آج ثناء اللہ زہری جلسے میں کھڑے ہوکر کچھ بھی کہیں مگر دونوں میں اختلافات کی بنیاد یہی تھی جو میں نے بیان کی ہے۔
وفاقی وزیر: اگر سب کچھ ایسے ہی چل رہا ہے تو یہ ہمارے لیے تشویش کی بات ہے۔ ہمیں ہر حال میں متبادل حکمت عملی بنانا ہو گی ورنہ بادلوں کا وہ ٹکڑا جو ہمارے سر پر سایہ کیے ہوئے ہے‘ آگے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
یہاں پہنچ کر مباحثہ ختم ہوگیا مگر میرے ذہن میں ایک سوال ابھرا۔ دونوں سیاستدانوں کی گفتگو سے لگتا ہے 2023ء میں الیکشن نہیں''لاڈلوں کی لڑائی‘‘ ہو گی۔ جوجتنا لاڈلا ہو گا اتنا ''پیار‘‘ پائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں