طالبان: جنگجو یا حکمران؟

امیر تیمور میں ایک خاص وصف یہ تھا کہ وہ ایک ہی وقت میں دونوں ہاتھوں سے شمشیر زنی اور تیر اندازی کر سکتا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے یکساں طور پر لکھنے میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے یہ کمال اپنے استاد ''ثمرطرخان‘‘ کی رہنمائی اور سرپرستی میں حاصل کیا تھا۔ امیر تیمور کا ماننا تھا ''لڑائی کے دوران جس شخص کا دایاں ہاتھ زخمی ہو جائے اور وہ صرف دائیں ہاتھ سے تلوار چلانا جانتا ہو تو پھر اس میں اور مردے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ لیکن اگر کسی شخص کو بائیں ہاتھ سے بھی اسی مہارت سے تلوار چلانا آتی ہو تو پھر وہ ایسا ہے جیسے ایک ہی شخص کے اندر دو انسان‘‘۔ یہی مسئلہ ان دنوں افغانستان میں طالبان کو درپیش ہے۔ وہ لڑنا اچھی طرح جانتے ہیں مگر ملک چلانے کے لیے میدانِ جنگ کی مہارتوں سے زیادہ انتظامی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں ابھی تک اُن کا کوئی تجربہ ہے نہ پس منظر۔
امریکا اور افغان انتظامیہ سے جنگ وہ جیت چکے ہیں مگر اپنے ہم وطنوں کے دل جیتنے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ کابل سے قندھار اور مزار شریف سے ہرات تک‘ ہر طرف ان کا کنٹرول ہے مگر پھر بھی لوگوں میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔ طالبان کے لیے جنگ سے بڑا چیلنج حکومت سازی ہے اور حکومت سازی سے زیادہ افغانستان کو ایک مہذب اور امن پسند ملک بنانا ہے۔ صدیوں سے خون میں لت پت دھرتی کو اب امن کی خوشبو کی ضرورت ہے۔ کیا وہ ایسا کر پائیں گے؟ منیر نیازی یاد آتے ہیں ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ طالبان ایک عسکری تنظیم کا نام ہے نہ کہ سیاسی پارٹی کا۔ وہ جنگ کے ماہر ہیں‘ میدانِ سیاست کے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں حکومت سازی میں مسائل کا سامنا ہے۔ امریکا اور دوسری عالمی طاقتوں کا دباؤ ہے کہ حکومتی اور سیاسی امور چلانے کے لیے انہیں ماضی کی حکومتوں میں کام کرنے والے تجربہ کار لوگ اپنے ساتھ ملانے چاہئیں تاکہ ملک کو سیاسی، معاشی اور انتظامی بحران سے بچایا جا سکے مگر مسئلہ یہ ہے کہ طالبان ایسا کرنے سے فی الوقت گریز کر رہے ہیں کیونکہ ان کے ہاں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ چاہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو حکومتی امور چلانے کے لیے سامنے لایا جائے جو عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ امریکا کسی پر معترض ہو نہ پاکستان۔ ایران کوکسی سے مسئلہ ہو نہ چین اور روس کو۔ میرے نزدیک حکومت سازی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں پرسوں یہ اُونٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔ اصل اور بنیادی مسائل تو حکومت سازی کے بعد سامنے آئیں گے۔ طالبان افغانستان میں ماضی کی طرح اسلامی نظام رائج کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنی حکومت کی قانونی حیثیت کا چیلنج درپیش ہو گا۔ مذہبی نقطہ نظر سے حکومت قائم کرنے کا ایک ہی طریقہ جائز ہے اور وہ یہ کہ حکومت لوگوں کی رائے سے یعنی مشاورت سے قائم ہو۔ طالبان کے آنے کے بعد بھی افغانستان کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کے حکمران کون ہوں گے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کا فرمان ہے ''وہ حکومت جو لوگوں کی رائے سے نہیں بنتی‘ وہ سرے سے حکومت ہی نہیں ہے‘‘۔ اگر کسی کو تصدیق درکار ہوتو حضرت عمرؓ کا یہ خطبہ بخاری شریف میں موجود ہے۔ طالبان کی اب ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں سے ووٹ کے ذریعے رائے حاصل کریں اور اپنی حکومت کا جواز بنائیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا‘ ان کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان رہے گا جو کسی طور پر ان کے لیے صائب بات نہیں ہے۔
معیشت افغانستان کے لیے کل بھی چیلنج تھی اور آج بھی معاشی صورتحال گمبھیر ہے۔ امریکا نے افغانستان کے دس ارب ڈالر منجمدکر دیے ہیں جس کے بعد درآمدات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ طالبان حکومت کے پاس ڈالر ہوں گے نہ تجارت ہو گی۔ تجارت ہو گی نہ لوگوں کے کاروبار ترقی کریں گے۔ کاروبار ترقی کریں گے نہ معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے گی۔ معیشت چلے گی نہ لوگ چین کی زندگی گزار پائیں گے۔ یوں گمان ہوتا ہے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد نہیں ہوئے بلکہ مستقبل کی روشن امیدوں کی دیے بجھ گئے ہیں۔ اس وقت بینکوں کے پاس ڈالرز نہ ہونے کے برابر ہیں اور افغان کرنسی اوندھے منہ گر پڑی ہے۔ ہر طرف مہنگائی کا راج ہے۔ سو 'افغانی‘ (افغان کرنسی) کی چیز پانچ سو افغانی میں مل رہی ہے۔ لوگوں کے کاروبار بند ہو رہے ہیں اور امیر طبقہ ملک چھوڑ کر بھاگ رہا ہے۔ ہر طرف بے چینی ہے اور مستقبل کے حوالے سے فکرمندی۔ان کے پاس سردست ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے ہیں نہ امورِ حکومت چلانے کے لیے مطلوبہ وسائل۔ انہیں حکومت سازی کے فوراً بعد معیشت پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہو گا اور تجربہ کار پروفیشنلزکو اپنے ساتھ ملانا ہو گا۔ ورنہ معیشت کی گاڑی زیادہ دیر نہیں چل پائے گی۔ انہیں سمجھنا ہو گا کہ اکانومی جذبات سے نہیں تدبر‘ تدبیر اور تجربے سے چلتی ہے۔ معیشت چلے گی تو عوام کی زندگی میں رنگ بھریں گے ورنہ بہت سے افریقی ممالک کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ترقی، خوشحالی اور جدت ان سے کوسوں دور بستی ہے اور چاہ کر بھی وہ کچھ نہیں کر پاتے۔ اگر افغانستان کے عوام کے چہرو ں پر مسکراہٹ واپس لانی ہے تو خزانہ، تجارت اور بینکنگ سیکٹر کو معیشت کی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کے حوالے کرنا ہو گا۔ ورنہ یہ سارے معیشت دان افغانستان چھوڑ کر چلے جائیں گے اور پھر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور باقی مالیاتی اداروں کے ساتھ کون ڈیل کرے گا؟ کون ملکی معیشت کا بیڑہ پار لگائے گا؟ کون ختم ہوتے کاروبار کو سہارا دے گا؟ کون افغان کرنسی کی قدر واپس دلائے گا؟ اور سب سے بڑھ کر‘ کون عوام کے لیے فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ حل کرے گا؟ اقوام متحدہ کے مطابق مستقبل قریب میں افغانستان کو خشک سالی اور خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت بھی چودہ ملین افراد‘ جن میں دو ملین بچے بھی شامل ہیں‘ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ سارے مسائل معیشت کے ساتھ جڑے ہیں۔ ہر صورت انہیں اپنی صفوں سے ابہام ختم کرنا ہوگا ورنہ جو ہو گا‘ وہ عوام کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔
طالبان کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا بھی سامنا ہے۔ اندرونی طور پر داعش ان کے خلاف متحرک ہو چکی ہے اور شمالی اتحاد کے جنگجو بھی دوبارہ صف بندی کر سکتے ہیں۔ اگر انہیں حکومت کرنی ہے تو امن و امان کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا اور ان تمام گروپس کو نیوٹرل کرنا ہوگا جو ان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ یہی نہیں‘ انہیں ادراک کرنا ہوگا کہ اب نوے کی دہائی والے حالات نہیں ہیں۔ لوگ اب سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں ایسے قوانین بنانا ہوں گے جو افغانوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لیے بھی قابل قبول ہوں۔ گزشتہ بیس سالوں میں افغانستان کے اندر ایک مڈل کلاس ابھر کر سامنے آئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ طبقہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف واویلا ضرور کرتا ہے۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ کابل اور قندھار سے اٹھنے والی آوازیں لندن، نیویارک، پیرس، بیجنگ اور ماسکو میں بھی سنائی دیتی ہیں۔ اس لیے انہیں ہر معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔ طالبان اس وقت سفارتی تنہائی کا شکار بھی ہیں‘ اگر انہیں پوری دنیا کے ساتھ مراسم قائم کرنا ہیں تو افغانستان میں انسانی حقوق کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ عورتوں اور بچوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ ایک مہذ ب معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں اور اپنے عوام کو باقی دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں