Absolutely Silent

''خاموشی خود ایک راز ہے اور ہر صاحبِ اسرار خاموش رہنا پسند کرتا ہے۔ خاموشی دانا کا زیور ہے اور احمق کا بھرم۔ انسان کو بولنے کا اس قدر شوق ہے کہ وہ اپنی جہالت اور لاعلمی سے آگا ہ ہوتا ہے مگر پھر بھی خاموش نہیں رہتا۔ خاموشی میں عافیت ہے۔ اگر ہم زبان کی پھیلائی ہوئی مصیبتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ خاموشی میں کتنی راحت ہے‘‘۔ ہمارے حکمرانوں کو واصف علی واصف کی کتاب ''قطرہ قطرہ قُلزم‘‘ کی قسط نمبر 30 ضرور پڑھنا چاہیے‘ ممکن ہے کہ زیادہ بولنے کی عادت سے چھٹکارہ مل جائے۔ ہو سکتا ہے انہیں ادراک ہو جائے کہ بے ربط آوازوں کے لبوں پر تالے کتنے ضروری ہوتے ہیں۔ شاید انہیں خاموشی کے پیچھے چھپے بھید معلوم ہو جائیں کیونکہ حکمرانوں کی عافیت کے لیے خاموشی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ ناطق لکھنوی یاد آتے ہیں:
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
موجودہ حکومت کے تین سال بیت چکے مگر اس کی ''سادگی‘‘ ملاحظہ کریں کہ اسے آج بھی ''فنِ تقریر‘‘ پر ہی مکمل دسترس ہے۔ جب حکومتی زعما بولتے ہیں تو چھپڑ پھاڑ دیتے ہیں۔ ملک کی اپوزیشن ہو یا آئینی اداروں کے سربراہان‘ غیر ملکی دوست ہوں یا دشمن ممالک، یہ سب کو ایک ہی ترازو میں تولتے ہیں اور ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی میں تفریق کرتے ہیں نہ کسی کا لحاظ۔ جس زبان میں بھارت جیسے ازلی دشمن سے بات کرتے ہیں‘ اسی لہجے میں امریکا اور برطانیہ کو تولتے ہیں۔ پھر بھلے اس کا جو بھی ردعمل آئے‘ ''مردانہ وار‘‘ مقابلہ کرتے ہیں۔ کون سی خارجہ پالیسی اور کہاں کے سفارتی آداب۔ امریکا نے پاکستان سے اڈے مانگے بھی نہیں تھے مگر ہم نے پھر بھی Absolutely Not کہہ دیا۔ ہم بھلا کیوں غیر ملکی صحافی کے سوال کا جواب ''اگر مگر‘‘ جیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپ کر دیتے۔ بھلے دنیا یہ کہتی رہے کہ ہم ایک چھوٹے سے سوال کا جواب بھی درست طریقے سے نہیں دے سکے‘ ہمیں اپنا وقار اور اپنی عزت عزیز تھی اور ہم اسے داؤ پر کیسے لگا سکتے تھے؟ جو لوگ کہتے تھے کہ اس سوال کا جواب دینے کے بجائے اسے Well Left کیا جا نا چاہیے تھا‘ انہیں امریکا کی جانب سے ردعمل کا خدشہ تھا۔ ایسے افراد اپنی دانش اور دور اندیشی کو اپنے پاس رکھیں، ہمیں ایسی بزدلانہ اور ناقابل فہم تاویلوں کی ضرورت نہیں۔ ہم جو بولتے ہیں‘ درست بولتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کب بولنا ہے اور کتنا۔ ہم جانتے ہیں کہ کس کو جواب دینا ہے اور کیوں۔ ہم کبھی اپنی ترجیحات سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہم برطانیہ کو گوروں سے زیادہ جانتے ہیں اور امریکا کو بھی امریکی شہریوں سے بہتر۔
پاکستان ان دنوں ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ چند روز پہلے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم بنا کھیلے یہاں سے واپس چلی گئی اور بعد ازاں برطانیہ نے بھی دورۂ پاکستان کو منسوخ کر دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات کہتے ہیں ''نیوزی لینڈ اور برطانیہ کا دورہ سازش کے تحت ملتوی کروایا گیا ہے۔ اگر آپ Absolutely Not کہیں گے تو اس کی قیمت بھی آپ کو ادا کرنا پڑے گی۔ اگر آپ کو اپنا سر اونچا رکھنا ہو تو اس کے لیے یہ بہت چھوٹی قیمت ہے‘‘۔ میں تو سیدھا سادہ شہری ہوں‘ ہر دم ''حکومت پسندی‘‘ کا شکار رہتا ہوں۔ مجھے تو کل بھی وزرا کے بیانات کسی فلاسفر سے کم نہیں لگتے تھے اور آج بھی میں انہیں سقراط سے بڑھ کر سمجھتا ہوں۔ ہمارے وزراء کا 'سیاسی فہم‘ ہمالیہ سے بلند اور کے ٹو سے اونچا ہے مگر افسوس ہمارے ہاں لوگوں کو اس کی قدر ہی نہیں۔
ایک لمحے کے لیے فرض کریں، اگر ہم Absolutely Not نہ کہتے تو کیا ہو جانا تھا؟ سوائے اس کے کہ امریکا ہم سے ناراض نہ ہوتا‘ امریکی صدر جوبائیڈن عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک نہ ایک دن ملکی قیادت کو فون کر لیتے۔ امریکا افغانستان سے انخلا مکمل ہونے کے بعد ہمارا باضابطہ طور پر شکریہ ادا کر دیتا۔ دنیا ہماری امن پسندی کے بارے میں چند قصے سن لیتی۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم اگرپاکستان آ گئی تھی تو شاید دورہ مکمل بھی کر لیتی۔ بارہ سال بعد کسی بڑی ٹیم کے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے امن کا مثبت پیغام دنیا کو چلا جاتا۔ نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ ہنسی خوشی اپنی ٹیم کرکٹ سیریز کے لیے پاکستان بھیج دیتا۔ دنیا ہماری کووڈ پالیسی کو سراہتی اور ہمیں بلاوجہ ریڈ لسٹ میں نہ ڈالے رکھتی۔ اس سے زیادہ اور کیا ہو جانا تھا؟ مگر ہماری حکومت نے ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے Absolutely Not کہہ دیا اور اپنا سر بلندکر لیا۔ حکومت چاہتی تو وقتی فائدہ لے سکتی تھی مگر اس نے وہ کیا‘ جو بڑے بڑے لیڈرز کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ بڑے لیڈرز کبھی طاقتور ملکوں سے گھبراتے ہیں نہ ان کے سامنے جھکتے ہیں۔ پھر چاہے ان کے حصے میں جنگ آئے یا امن۔ وہ اپنی کرنی کر گزرتے ہیں۔
میں تاریخ کے صفحے پلٹنے بیٹھا تو ''حکومت پسندی‘‘ کا بخار فوراً اتر گیا۔ 1191ء میں ترائن کی پہلی جنگ میں راجپوتوں کے پاس دولاکھ سے زائد فوج تھی اور شہا ب الدین غوری کے ساتھ کل ملا کر دس ہزار سپاہ۔ کیا دونوں کی فوجی طاقت کا آپس میں کوئی مقابلہ تھا؟ شہاب الدین غوری کا جذباتی فیصلہ تھا یا اس کی غیرت کا تقاضا‘ وہ اپنے ساتھیوں کے منع کرنے کے باوجود میدانِ جنگ میں اترا۔ پرتھوی راج چوہان کی فوج نے دیکھتے ہی دیکھتے تباہی مچا دی۔ شہاب الدین غوری زخمی ہوا تو اس کے سپاہی میدانِ جنگ سے بھاگ گئے۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ اگر شہاب الدین غوری کی فوجی طاقت راجپوتوں کے برابر ہوتی تو کیا پلک جھپکتے ہی ہار اور جیت کا فیصلہ ہو جاتا؟ وہ بادشاہ ہی کیا جسے اپنی طاقت کا اندازہ نہ ہو۔ وہ حکمران ہی کیا جو اپنی سپاہ اور رعایا کی زندگیاں محفوظ نہ بنا سکے۔ صدام حسین ہوں یا حسنی مبارک، بشار الاسد ہوں یاکرنل قذافی‘ ان چاروں کو آج عوام کن لفظوں سے یاد کرتے ہیں؟ کیا عراق میں آج صدام حسین کی ''بعث پارٹی‘‘ کو زندہ رکھنے والا کوئی ہے؟ کیا حسنی مبارک اور کرنل قذافی کے چاہنے والے دھیرے دھیرے ختم نہیں ہو گئے؟ وجہ بہت سادہ ہے، حکمرانوں کے بڑے بولوں کی قیمت عوام کو اپنا خون بہا کر ادا کرنا پڑتی ہے۔ حکمرانوں کی اناؤں کا خراج ملکوں کو تباہ ہو کر ادا کرنا پڑتا ہے۔ کاش! حکمران بھی تاریخ کے بوسیدہ صفحے پلٹ کر دیکھ سکیں۔ کاش! انہیں ادراک ہو کہ دانا حکمران کبھی جذباتی لڑائیاں نہیں لڑتے۔ وہ جیتے بھی عوام کے لیے ہیں اور مرتے بھی عوام کی خاطر ہیں۔
حکومت اگر ملک کو آگے لے کر جانا چاہتی ہے تو اسے غیر ضروری مباحثوں اور بے مقصد لڑائیوں سے اجتناب کرنا ہوگا ورنہ عوام کے دکھوں کا مداوا ہوگا نہ وہ سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ دوسرا، اگرحکومت ایسے ہی اپوزیشن اور الیکشن کمیشن سے جھگڑتی رہی تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا مسئلہ حل ہو گا نہ دھاندلی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا۔ الیکشن ریفارمز ہوں گی نہ قانون کی بالادستی۔ نئے چیئرمین نیب کا تقرر ہو گا نہ نگران حکومت کی تشکیل۔ الیکشن میں ابھی دو سال باقی ہیں، اگر حکومت کام زیادہ اور بولنا کم کر دے تو قومی اور بین الاقوامی مسائل خود بخود حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ زبان کی پھیلائی ہوئیں مصیبتوں سے خاموشی کی چادر اوڑھ کر بچا سکتا ہے۔ کاش! حکومت Absolutely Not کے خمار سے نکل کر Absolutely Silent ہو جائے۔ ملک اور عوام‘ دونوں کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ پھر خیال آتا ہے اتنی مشقت کون کرے گا کیونکہ عادت بدلی جا سکتی ہے جبلت نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں