حکومت کی قدر اور روپے کی بے قدری

وعدوں کا سبز باغ اجڑ گیا، امیدوں کی ندی خشک ہو چکی، حسرتوں کا دیا بجھ چکا، تبدیلی کا خمار ہرن ہوا۔ تین سالوں میں عوام کے حصے میں سوائے ندامت اور پچھتاوے کے کیا آیا؟ آس بھی ٹوٹی اور دل بھی۔ خواب بھی بکھرے اور خواہشیں بھی۔ پرانا پاکستان بھی ہاتھ سے پھسل گیا اور نئے پاکستان کی امید بھی۔ ہر روح مضطرب اور ہر چہرہ پریشان۔ صبح کو چین ہے نہ رات کو قرار۔ دن کا اجالا بھائے ہے نہ رات کی سیاہی۔ ہر سُو مایوسی کے ڈیرے اور بے لگام ہوتی بے بسی کے سایے۔ ساحر لدھیانوی نے عوام کا روگ یوں بیان کیا ؎
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ان دنوں عوام کی ایک ہی دُہائی ہے: مہنگائی ہے‘ مہنگائی ہے۔ جس سے بات کریں وہ زخم خوردہ دکھائی دیتا ہے۔ روزبروز بڑھتی مہنگائی نے سب کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکمرانوں کے پاس مہنگائی کا علاج ہے نہ کوئی متبادل منصوبہ۔ وزراء صرف مہنگائی کی وجہ بتانے کا فن جانتے ہیں اور اسی فن کو شب و روز نکھار تے رہتے ہیں۔ خدا کی پناہ! ایک ہی دن میں پٹرول 10.49 روپے، ڈیزل 12.44 روپے اور بجلی 1 روپیہ 39 پیسے فی یونٹ مہنگے کر دیے گئے۔ یہی نہیں‘ گھی، شیمپو، کوکنگ آئل، شو پالش سے لے کر مسالا جات تک‘ ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ حکومت کو خیال ہی نہیں کہ عوام یہ بوجھ برداشت بھی کر سکتے ہیں یا نہیں۔ حکومت سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے کی وجہ پوچھیں تو آگے سے وزیر اطلاعات کا یہ جواب سننے کو ملتا ہے: ہم دنیا سے ہٹ کر کسی الگ سیارے پر نہیں رہتے، اگر دنیا میں گیس اور تیل کی قیمتیں اوپر جائیں گی تو پاکستان میں بھی اضافہ ہوگا۔ سارا ملک سبسڈی پر نہیں چل سکتا۔ جی ہاں! حکومت درست فرما رہی ہے۔ اس کا یہ عذر منطق سے خالی نہیں ہے مگر کاش! حکومت کو یہ سب الیکشن سے پہلے معلوم ہوتا اور وہ عوام کو ناممکن وعدوں کی چکی میں نہ پیستی۔ اس وقت تو اسے مہنگائی کے پیچھے صرف کرپشن نظر آتی تھی مگر اب...؟ مرزا غالبؔ کی سنیں، کیا کہتے ہیں ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
مہنگائی کے اس کھیل میں وزیراعظم اور ان کے وزرا کا صرف اتنا قصور ہے کہ انہیں معیشت کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے وہ بائیس سال تک حکومت بنانے کی جدوجہد کرتے رہے‘ حکومت چلانے کے لیے نہیں۔ میں پوری ذمہ داری سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ حکومت ہی نہیں‘ ساری تحریک انصاف میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو ماہرِ معیشت ہو۔ اگر آپ کا خیال اسد عمر کی طرف جارہا ہے تو آپ بالکل غلطی پر ہیں۔ وہ اکانومسٹ ہرگز نہیں ہیں۔ وہ ایک ادارہ اچھے طریقے سے چلاسکتے ہیں مگر ملکی معیشت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔
جب پوری حکومت میں کوئی بھی معاشی دماغ نہ ہو تو ادھار کے دماغوں پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ حفیظ شیخ ہوں یا شوکت ترین، ڈاکٹر وقار مسعود ہوں یا مزمل اسلم‘ ان کا تحریک انصاف کے وژن اور منشور سے کیا تعلق ہے؟ ٹیکنوکریٹس اپنے حساب سے چلتے ہیں، انہیں عوامی جذبات کا خیال ہوتا ہے نہ تکلیفوں کا۔ انہیں وعدوں کا بوجھ محسوس ہوتا ہے نہ جگ ہنسائی کا خطرہ۔ یہ جب بھی آتے ہیں معیشت کو تجربہ گاہ بنا دیتے ہیں اور جب ناکامیوں کا بوجھ بڑھنے لگتا ہے تو یہ لوگ واپسی کی راہ پکڑ لیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا!
حکومت نے پہلے چند ماہ میں جو جذباتی اور غیر منطقی فیصلے کیے تھے ان کا خمیازہ آج تک عوام بھگت رہے ہیں۔ حکومت نے آتے ہی روپے کی اتنی بے قدری کی اور شرحِ سود اتنی بڑھا دی کہ معیشت کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا۔ انہی دو غلط فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
آج حکومت پچھلی حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کو دوش دے رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے خود روپے کو ڈی ویلیو کیا تھا، حکومت نے یہ کام اس لیے کیا تھا کہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو سکے مگر برآمدات میں زیادہ بہتری نہیں آ سکی۔ اکتوبر 2018ء میں برآمدات 23 ارب ڈالر تک تھی جو آج لگ بھگ 25 ارب ڈالر تک ہیں۔ برآمدات کو تو کوئی فرق نہیں پڑا مگر روپے کی بے قدری مہنگائی کا سونامی لے آئی اور ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت عوام کو مہنگائی کی اصل وجہ ہی نہیں بتا رہی۔اکتوبر 2018ء میں عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 85 ڈالر فی بیرل تھی اور آج بھی لگ بھگ یہی قیمت ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت پٹرول عوام کو 92 روپے 83 پیسے فی لیٹر میں فراہم کر رہی تھی مگر آج یہ 137 روپے میں فروخت کر رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت ڈالر 133 روپے کا تھا اور آج 171 کا ہے۔ ڈالر کی اڑان کا ذمہ دار کون ہے؟ مگر حکومت ہے کہ اپنی غلطی ماننے کو تیار ہی نہیں۔ وہ سار ا قصور عالمی مارکیٹ پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے۔ اس سے کوئی انکاری نہیں کہ روپے میں گراوٹ ناگزیر تھی مگر اتنی نہیں جتنی حکومت نے کر دی ہے۔ دوسرا واویلا حکومت یہ کرتی ہے کہ خطے میں آج بھی پٹرول پاکستان سے مہنگا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا ہم سے مہنگا تیل بیچ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ حکومت یہ نہیں بتاتی کہ ان کی کرنسی کی قدر ہم سے کتنی بہتر ہے۔
بھارت میں ڈالر 75 روپے، بنگلہ دیش میں 85 ٹکا اور پاکستان میں 171 روپے کا ہے۔ کیا معاشی طور پر مضبوط اور کمزور ملکوں کو ایک ہی ترازو میں تولا جا سکتا ہے؟ کیا کسی ارب پتی شخص کے لائف سٹائل کا موازنہ کسی مڈل کلاس آدمی سے کیا جا سکتا ہے؟ مہنگائی کے مسئلے پر حکومت اتنی ناقابل فہم دلیل دیتی ہے کہ اس پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔
چلیں ایک لمحے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ حکومت ٹھیک کہہ رہی ہے اور خطے میں پٹرول پاکستان سے مہنگا ہے‘ تو براہِ مہربانی حکومت یہ بھی بتا دے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے شہریوں کی قوتِ خرید ہم سے کتنی زیادہ ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں اوسطاً فی کس آمدنی 3 لاکھ 44 ہزار روپے (2227 ڈالر) ہے۔ بھار ت میں اوسط فی کس آمدنی تین لاکھ روپے (1947 ڈالر) ہے اور پاکستان میں اوسط فی کس آمدنی 2 لاکھ 38 ہزار روپے (1543 ڈالر) ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں جب پاکستانیوں کی قوتِ خرید خطے کے باقی ممالک سے کم ہو گی تو وہ اتنا مہنگا پٹرول کیسے خرید سکیں گے۔
روپے کی گراوٹ سے صرف پٹرول ہی مہنگا نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر حکومت آئے دن بجلی کے نرخ بڑھا دیتی ہے اور بہانہ بناتی ہے کہ پچھلی حکومتوں کے لگائے کارخانوں کی وجہ سے قیمتیں بڑھانا پڑتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وجہ بھی ہو مگر اصل وجہ یہ ہے کہ بجلی پٹرول اور ایل این جی سے بنائی جا رہی ہے۔ یہ دونوں چیزیں جب پاکستان میں مہنگے داموں درآمد کی جائیں گی تو عوام کو قیمت تو چکانا پڑے گی۔
میں سوچتا ہوں کہ حکومت الیکشن میں عوام کا سامنا کیسے کرے گی؟ کیا پانچ سال بعد بھی وہی عذر تراشے جائیں گے جو آج تراشے جا رہے ہیں؟ خدارا! ہوش کے ناخن لیں۔ روپے کی بے قدری روکیں ورنہ عوام کی نظر میں حکومت کی قدر مزید گر جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں