مکافاتِ عمل کی کہانی!

''اِس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے‘ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ یہ قرآن پاک کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر 140 کا مفہوم ہے اور یہ ترجمہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن میں رقم کیا ہے۔ میرا احساس ہے کہ دنیا ہے ہی مکافاتِ عمل کا نام۔ یہاں اچھے کے ساتھ اچھا ہوتا ہے اور برے کے ساتھ برا۔ نیکی کی جزا ملتی ہے اور بدی کے بدلے سزا ملتی ہے۔ ہمارا تمام اعمال پاؤں کی بیڑیاں بن کر ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور وقت آنے پر مکافاتِ عمل کی چابی ہماری بیڑیاں کھول دیتی ہے۔ پھر جو بویا ہوتا ہے‘ وہ کاٹنا پڑتا ہے۔ یہی دنیا کا قانون ہے اور یہی قدرت کا انصاف۔
ہماری سیاست اور مکافاتِ عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کو گرانے کے لیے سازشوں کاحصہ بنتے رہتے ہیں اور پھر خود بھی ویسی ہی سانٹھ گانٹھ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بانیٔ پاکستان اور ملک کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح اور پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو چھوڑ کر‘ باقی سارے حکمران اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھوں میں گرے۔ ملک غلام محمد پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ تھے۔ انہوں نے شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بیورو کریسی اور کابینہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے خلاف سازش کی اور انہیں وزیراعظم بنا کر خود گورنر جنرل کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس کی روایت انہوں نے خود ڈالی تھی۔ میجر جنرل اسکندر مرزا ملک غلام محمد کے دور میں پہلے مشرقی پاکستان کے گورنر بنے اور پھر وزیر داخلہ۔ بعد ازاں اسکندر مرزا نے ایوب خان کے ساتھ مل کر انہیں چلتا کیا اور چوتھے گورنر جنرل اور بعد ازاں ملک کے پہلے صدر بن بیٹھے۔ اسکندر مرزا نے اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو اپنی کابینہ میں وزیر دفاع کا عہدہ دیا۔ ایوب خان آخر کب تک وزیر دفاع رہتے‘ انہوں نے اسکندر مرزا کی چھٹی کروائی اور خود مسندِ اقتدار پر براجمان ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کے وزیر خارجہ بن گئے۔ یہ ساتھ سات سال تک جاری رہا۔ دونوں میں اختلافات ہوئے۔ بھٹو صاحب نے استعفیٰ دے کر اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور ایوب خان کے خلاف برسر پیکار ہو گئے۔ احتجاجی تحریک چلی اور ایوب خان کا اقتدار تنکوں کی مانند بکھر گیا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ایوب خان کے ساتھ ہوا تھا۔ بھٹوصاحب کے خلاف بھی الیکشن میں دھاندلی کو لے کر احتجاجی تحریک چلی اور ان کے اپنے لگائے ہوئے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جس کے بعد پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ ضیاء الحق گیارہ برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور پھر ایک حادثے کا شکار ہوکر دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ایک دوسرے کے خلاف ساز باز کرتے رہے اور باری باری اقتدار میں آتے‘ جاتے رہے۔ یہ دونوں ہر بار مکافاتِ عمل کا شکار ہوئے۔ اکتوبر 1999ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کو پر ویز مشرف نے طاقت کے زور پر ختم کیا تو اس کے نو سال بعد خود ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہ مواخذے کی تحریک کا سامنا کرتے کرتے مستعفی ہو گئے۔ ملک میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی۔ میاں نواز شریف میمو گیٹ اور سوئٹزرلینڈ میں آصف علی زرداری کے ساٹھ ملین ڈالر والے کیس میں سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سزا دلوانے کے خواہشمند تھے اور پھر ہوا بھی یہی، یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اقتدار کا ہُما میاں نواز شریف کے سر پر تیسری بار بیٹھا تو چار سال بعد وہ بھی پاناما کیس میں عدالت سے نااہل قرار پانے پر گھر گئے۔ جیسا کرو گے‘ ویسا بھرو گے، یہی پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے۔ اس تلخ تاریخ سے بھلا کوئی کیسے منہ پھیر سکتا ہے؟
یہ ملکی تاریخ کے گزشتہ ستر سال کی کہانی تھی۔ میرے پاس مکافاتِ عمل کی ایک کہانی اور بھی ہے۔ اس کہانی کا آغاز 30 اکتوبر 2011ء کو ہوا۔ ٹھیک دس سال قبل حکمران جماعت نے مینار پاکستان پر جلسہ کیا اور وفاقی اور پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس وقت کے حکمرانوں کی نااہلی کا نوحہ پڑھا اور کرپشن کی داستانیں بیان کیں۔ مہنگائی اور بدانتظامی پر حکمرانوں کے لتے لیے۔ یہ سلسلہ 2018ء تک ایسے ہی جاری رہا۔ حکومتوں کے خلاف دھرنے بھی دیے گئے اور مسند اقتدار پر بیٹھے لوگوں کا مذاق اُڑایا گیا۔ سڑکیں بھی بلاک کی گئیں اور شہر بھی بند کیے گئے۔ سرکاری املاک پر دھاوا بھی بولا گیا اور اعلیٰ عہدیداران کو گریبان سے پکڑنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ سول نافرمانی کی کال بھی دی گئی اور بجلی کے بل بھی جلائے گئے۔ قانون بھی توڑا گیا اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔ پولیس کو دھمکیاں بھی دی گئیں اور ضرورت پڑنے پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ عوام کے جذبات کو اشتعال بھی دلایا گیا اور الزام تراشی کی دکان بھی سجائی گئی۔ سوشل میڈیا کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال بھی کیا گیا اور بدزبانی کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔ جمہوری اقدار کو داغدار کیا گیا، حکومت کے خلاف برسرپیکار کارکنان کو ہلہ شیری بھی دی گئی۔ نظام انصاف پر عدم اعتماد کیا گیا اور پارلیمنٹ کی بے توقیری بھی کی گئی۔ اپنی دیانت داری کے دعوے بھی کیے گئے اور جی بھر کر مخالفین کی تذلیل بھی کی گئی۔
اس کہانی میں کئی موڑ آئے مگر یہ کہانی رکی نہیں۔ مخالفین کے خلاف بولتے بولتے یہ جماعت ایک دن خود برسر اقتدار آ گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مکافاتِ عمل کا شکار ہو گئی۔ اسے ہر اس گلی سے گزرنا پڑا جہاں اس نے خود کنکر پھینکے تھے۔ اسے ہر اس راستے پر ننگے پاؤں چلنا پڑا جہاں اس نے خود کانٹے بوئے تھے۔ اسے اقتدار میں آئے ابھی نوے دن بھی نہ ہوئے تھے کہ اس کے خلاف وہی سلسلہ شروع ہو گیا جس کی ریت اس نے خود ڈالی تھی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسے نااہلی اور بدانتظامی کے طعنے بھی سننا پڑتے ہیں اور مہنگائی پر اٹھنے والی آوازوں کا شور بھی سہنا پڑتا ہے۔ اسے دھرنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جلسے جلوسوں کی اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس پر سچے جھوٹے الزام بھی لگتے ہیں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا بھی ہوتا ہے۔ سیاسی مخالفین اس پر ہنستے بھی ہیں اور الزام تراشی بھی کرتے ہیں۔ پرانے اور نئے حکمرانوں میں صرف ایک فرق ہے۔ ان کو غصہ زیادہ آتا ہے اور ان کے مخالفین کو تھوڑا کم۔ یہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں اور دھرنوں کو برداشت نہیں کر پاتے۔ یہ سوشل میڈیا کا منہ بند کرنا چاہتے ہیں اور سٹرکیں بلاک کرنے والوں کو پابند سلاسل۔ یہ ہر اس شخص کو ملک دشمن سمجھتے ہیں جو ان کا مخالف ہے۔ اب انہیں ریاست کی توقیر کا خیال بھی ہے اور حکومتی رٹ کی فکر بھی۔ یہ احتجاج کو اب جمہوری عمل سمجھتے ہیں نہ آئینی حق۔ یہ اب حکمران ہیں اور سب جانتے ہیں حکمران کی اَنا سب سے بڑی ہوتی ہے۔ عہدِ رواں کے حکمرانوں کو بھی اپنی اَنا بہت عزیز ہے۔ عوام کو خود سوچنا ہوگا کہ اب 30 اکتوبر 2011ء نہیں بلکہ 30 اکتوبر 2021ء ہے۔ دس برسوں میں سب کچھ بدل چکا ہے۔ سب آشکار ہو چکے ہیں۔ اب کوئی بھید بھید نہیں رہا۔ مکافاتِ عمل کی کہانی اپنے انجام کے قریب ہے۔
یوں مکافات عمل سب کچھ اٹھا کر لے گیا
سر پھرا سیلاب بستی کو بہا کر لے گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں