ناکامیوں کا بڑھتا بوجھ

گلشنِ زیست میں وطن سے محبت ہی وہ واحد پھول ہے جو موسمِ بہار کا محتاج نہیں ہوتا۔ بدن جھلساتی دھوپ ہو یا ساون کی تیز بارش، حبس کا ماحول ہو یا سخت دھند والا جاڑا‘ مادرِ وطن سے محبت کا پھول ہمیشہ ترو تازہ رہتا ہے۔ عوام ہوں یا حکمران‘ سیاسی گروہ ہوں یا جذباتی جتھے‘ کسی کا مفاد بھی دھرتی سے بلند نہیں ہوتا، مگر کیا کریں‘ سیاست دان اس منطق کو مانتے ہیں نہ حکمران۔ جس کا بس چلتا ہے وہ ملکی مفادات کو روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ عہدِ رواں کے حکمران بھی ایسے ہی ہیں جیسے ماضی کے حکمران تھے۔ فرق فقط ناموں کا ہے‘ کاموں کا نہیں۔
جب بھی الیکشن ہوتے ہیں عوام آس لگاتے ہیں کہ نئے آنے والے حکمران ان کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔ مہنگائی اور بدانتظامی کے ناسور کو ہمیشہ کے لیے شکست دے دیں گے مگر افسوس‘ کچھ بھی تو نہیں بدلتا۔ مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے اور عوام کی مشکلات بھی۔ حکمران سیاسی لڑائیوں میں مصروف رہتے ہیں اور عوام بدحالی کے پاتال میں مست۔ جب مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں سے کچھ نہیں بن پاتا تو وہ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ کبھی ایک نعرہ لگاتے ہیں تو کبھی دوسرا۔ کبھی صوبائیت کی بات کرتے ہیں تو کبھی لسانیت کا تڑکا لگاتے ہیں۔ حکومتوں کا جو اصل کام ہوتا ہے وہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ حکمران یہ بھی نہیں سوچتے کہ جذبات سے پیٹ نہیں بھرتے۔ بھوک سڑک پر بیٹھے شخص کو بھی لگتی ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں متمکن حکمرانوں کو بھی۔ بھوک کا دوزخ کسی میں تمیز نہیں کرتا، اس کی کوئی قوم ہوتی ہے نہ زبان مگر ہمارے اہلِ اختیار کی تو ہر منطق ہی نرالی ہے۔ وہ دلاسے دینے اور بہانے گھڑنے کے علاوہ کچھ منفرد نہیں کر پاتے۔ وہ کام سے زیادہ، کام نہ ہونے کا عذر تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ کبھی ماضی کی حکومتوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں تو کبھی عالمی مارکیٹ کی مہنگائی کو۔ کبھی مافیاز کو دوشی قرار دیتے ہیں تو کبھی ملبہ افسر شاہی پر ڈال دیتے ہیں۔ ذمہ داری قبول کرنے کو کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔
نجانے کیوں دل بجھ سا جاتا ہے جب وزیراعظم صاحب ٹویٹ کرکے عوام کو بتاتے ہیں کہ ان کی حکومت نے جولائی سے اکتوبر تک 1840 ارب کا ٹیکس اکٹھا کر لیا ہے جو گزشتہ برس سے 37 فیصد زیادہ ہے۔ پھر عوام کو یہ ''خوشخبری‘‘ سنائی جاتی ہے کہ ورلڈ بینک کے اندازو ں کے مطابق‘ غربت کا تناسب 5.3 فیصد سے گر کر 4.8 فیصد ہوگیا ہے جو مالی سال 2023ء تک مزید کم ہوکر 4.0 فیصد پر آ جائے گا۔ عوام کو یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ یہ حکومت کی اَنتھک محنت اور کام سے لگن کا نتیجہ ہے۔ کبھی اعلان کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے ہمارے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالر ڈپازٹ کیے ہیں اور پٹرولیم پروڈکٹس پر 1.2 ارب ڈالر کی فنانسنگ کے ذریعے مدد کی ہے۔ اہلِ اختیار اپنا کام چھوڑ کر باقی سب کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کبھی اخلاقیات پر لیکچر دیا جاتا ہے تو نوجوانوں کے بگڑتے اخلاق کا رونا رویا جاتا ہے۔ کبھی مسلمانوں کی تاریخ پر ڈرامے بنانے کی منظوری دی جاتی ہے تو کبھی فلمیں بنانے کے لیے ترکی سے مدد مانگی جاتی ہے۔ کبھی ریاست مدینہ کو ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کبھی ملائیشیا اور چین کے ماڈل کی مثال دی جاتی ہے۔ بیانات کے حوالے سے حکومت کا ہاتھ عوام کی نبض پر رہتا ہے، وہ ایسے بیانات بلکہ لیکچرز دیتی ہے کہ لوگ مہنگائی اور بدانتظامی کو بھول کر اس کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں۔ حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کتنے فیصد لوگ جذباتی نعروں پر یقین کرتے ہیں اور کتنے انہیں صرف عوام کے ساتھ مذاق سمجھتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان ہونے والے صدارتی الیکشن کی مہم میں جذباتی نعروں کا سہارا لیا گیا تھا اور پھر یہ سلسلہ آج تک تھما نہیں۔ جو حکمران بھی آیا اس نے اپنے ذوق کے مطابق عوام کے جذبات کو ابھارا اور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کیے۔ یقین مانیں، صرف موجودہ حکومت کا ہی عوام کی نبض پر ہاتھ نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو جیسی لبرل شخصیت بھی عوامی جلسوں میں جذباتی نعرے لگاتی دکھائی دیتی تھی۔ کبھی مسلم بلاک کی بات ہوتی تو کبھی اسلامی اتحاد کا تذکرہ ہوتا جس سے عوام خاصے متاثرہوتے۔ جنرل ضیاء الحق نے تو اقتدار پر قابض ہوتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں اسلامی نظام لانے کے لیے آئے ہیں۔ اس کے بعد میاں نواز شریف بھی اس سے ملتے جلتے خواب دکھا کر اقتدار کی راہیں آسان بناتے رہے۔ صرف ہمارے ہاں ہی یہ رِیت نہیں پائی جاتی‘ پڑوسی ملک اس ضمن میں ہم سے کئی ہاتھ آگے ہے۔ بھارت میں بی جے پی جذباتی مذہبی نعروں کے سہارے ہی الیکشن جیتی ہے۔ جنوری 2017ء میں انڈین سپریم کورٹ نے سیاست میں مذہب اور ذات پات کے استعمال پر پابندی عائد کی تھی مگر بعد ازاں‘ الیکشن کمپین میں اس فیصلے کی بھرپور دھجیاں اڑائی گئیں۔ یہی نہیں‘ ترکی میں طیب اردوان بھی پاپولر سیاست کے اوجِ کمال تک پہنچ چکے ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں بھی سیاست رنگ و نسل کے گرد گھومتی ہے۔ جب بھی الیکشن آتے ہیں‘ مغرب کے سیاست دانوں کو ضرور اسلامو فوبیا کا بخار ضرور چڑھتا ہے۔ امریکا میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاپولر سیاست کے ہی نمائندہ تھے ۔نجانے کیوں دنیا تما م تر جدت کے باوجود سیاست اور جذباتیت کو الگ نہیں کر سکی۔سیاست اور عوامی جذبات اہلِ روم کے ہاں بھی ساتھ ساتھ چلتے تھے اور اہلِ فارس کے ہاں بھی۔ برطانوی بادشاہوں نے بھی اسی ڈگر کو اپنائے رکھا اور ترکوں نے بھی۔ ہندوستان کے راجپوتوں نے بھی سیاست اور مذہب کو ایک نظر سے دیکھا اور یونانیوں نے بھی۔ 1529ء میں رانا سانگا نے دیگر راجپوتوں اور لودھیوں کے ساتھ مل کر مغلوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو مغل فوج پر لرزہ طاری ہو گیا۔ ظہیر الدین بابر نے صورتِ حال کو بھانپ کر پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے کہا ''مسلمان کبھی ہندوؤں کے سامنے نہیں جھک سکتے۔ اگر ہم بھاگ کر پنجاب چلے گئے تو اطراف کے مسلمان بادشاہ ہم سے نفرت کریں گے اور کہیں گے ہم نے زندگی کو عزیز سمجھ کر ایک بڑی سلطنت کھو دی۔ ہمارے مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شہادت کے لیے تیار رہیں‘‘۔
چوں جاں آخر از تن ضرورت رود
ہماں بہ کہ بارے بہ عزت رود
سر انجام گیتی ہمیں است و بس
کہ نامے پس از مرگ ما ندز کس
بابر سے پہلے اس کے دادا کا پڑدادا‘ امیر تیمور بھی جنگ سے پہلے جذباتی تقریروں کا خوب استعمال کیاکرتا تھا۔ تیمور نے محمود خلجی اور ملا اقبال کے خلاف جنگ کر کے دلّی فتح کیا تو اس کے لگ بھگ تیس ہزار فوجی مارے گئے۔ وہ ہندوستان سے نکل کر کابل کے راستے دمشق گیا اور اسے بھی فتح کر لیا۔ اس جنگ میں بھی تیموری فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ سولہ ہزار سے زائد سپاہی مارے گئے اور تیس ہزار زخمی ہوئے۔ اب تیمور روم کے بادشاہ بایزید یلدرم کو شکست دینا چاہتا تھا مگر فوج ایک کے بعد ایک لڑائی سے تھک چکی تھی۔ تیمور نے اس جنگ کو جذباتیت کے نعروں میں لپیٹتے ہوئے مذہبی رہنمائوں کا سہارا لیا جنہوں نے روم جانے سے انکار کرنے والے افراد کو کمزور ایمان کا حامل قرار دیا ۔تیمور نے فوج کے جذبات کے ساتھ کھیلا اور پھر اس کی فوج نے دیکھتے ہی دیکھتے روم فتح کر لیا۔
امیر تیمور ہو یا بابر‘ وہ دونوں عوامی جذبات کو اپنی فتح کیلئے استعمال کرتے تھے مگر ہمارے حکمران اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے پاپولر نعروں کے پیچھے چھپتے ہیں۔ کاش! کوئی حکمرانوں کو جا کر بتائے کہ تیراک کبھی لہروں کی شدت سے نہیں گھبراتے۔ جو گھبرا جاتے ہیں وہ تیراک نہیں ہوتے۔ حقیقت کا سامنا کریں‘ ناکامیوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، ایسا نہ ہو یہ بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں