ایوب خان یا نواب آف کالا باغ

آپ کے کپڑوں پر کیچڑ لگا ہو تو اس کا دوش کسی اور کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟ خواب پورے ہونے سے پہلے بکھر جائیں تو کوئی اور ذمہ دار کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی وقتی فائدے کے لیے اپنے وعدوں سے مکر جائے تو اس کا قصوروارکسی اور کو کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
''ملک میں چینی بحران کی ذمہ دار سندھ حکومت اور مافیاز ہیں۔ چینی کی زیادہ تر فیکٹریاں شریف اور زرداری خاندان کی ملکیت ہیں۔ ڈالر کی قدر افغانستان سمگلنگ کی وجہ سے بڑھ رہی ہے جس کی ساری ذمہ داری مافیاز کے سر ہے۔ گھی، دالیں، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں عالمی منڈی میں مہنگائی کی وجہ سے اوپر گئی ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافہ مسلم لیگ نون کے لگائے ہوئے مہنگے کارخانوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ گیس کی قیمتیں مسلم لیگ نون کے کیے گئے غلط معاہدوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں۔ گندم کی سمگلنگ سندھ سرکار کی نااہلی کے سبب ہے۔ نیا قرضہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لیے ہوئے قرضوں کا سود دینے کے لیے لیا جاتا ہے۔ ترقیاتی کاموں میں سست روی کی وجہ بیورو کریسی ہے۔ کرائم میں اضافہ پولیس کی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ پولیس آج بھی مسلم لیگ نون کے زیر اثر ہے۔ سرکلر ڈیٹ میں ایک ہزار ارب سے زائد کا اضافہ مسلم لیگ نون کی بنائی ہوئی غلط پالیسیوں اور بجلی چوروں کی وجہ سے ہے۔ کراچی پیکیج پر عمل درآمد وزیراعلیٰ سندھ کے سخت رویے کے باعث نہیں ہو رہا۔ پنجاب میں کورونا کے جعلی سرٹیفکیٹ مسلم لیگ نون کے بھرتی کیے ہوئے لوگ بنا رہے ہیں جبکہ مہنگائی کی وجہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے ادوار میں ہونے والی کرپشن ہے‘‘۔ یہ سارے وہ بیانات ہیں جو حکومتی زعما، وزرا، مشیر اور دیگر اکابرین گاہے گاہے دیتے رہتے ہیں۔ حکومت کی سب سے بڑی ''خوبی‘‘ یہ ہے کہ وہ مہنگائی کی ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار ہے نہ بدانتظامی کی۔ وہ بڑھتی کرپشن کی وجہ اپنی پالیسیوں کو سمجھتی ہے نہ معیشت کی بدحالی کا ''تاج‘‘ اپنے سر پر سجانا چاہتی ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ جو غلط ہو ر ہا ہے‘ وہ ماضی قریب کے حکمرانوں کی میراث ہے اور جس‘ جس شعبے میں بھی بہتری آ رہی ہے وہ اس کی بہترین صلاحیتوں کا ثمر ہے۔
ہم آج ڈیجیٹل دور سے گزر رہے ہیں۔ ساری دنیا آپ کے ہاتھوں میں بستی ہے۔ جو بھی معلومات درکار ہوں‘ چند سیکنڈوں‘ منٹوں میں میسر ہو جاتی ہیں۔ گوگل نے ہر ناممکن چیز کو ممکن بنا دیا ہے۔ آپ سارے براعظموں کی معلومات لے لیں، دشمن ملکوں سے لے کر دوست ممالک تک‘ سب کا ڈیٹا اکٹھا کر لیں، آپ کو ایسی حکومت نہیں ملے گی جس کا رویہ عوامی مسائل اور مہنگائی پر اتنا ''ذمہ دارانہ‘‘ ہو۔ یوںگمان ہوتا ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا مارکیٹ سے کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔ مافیاز اور تاجر من مانی کر رہے ہیں مگر انتظامیہ ہے کہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ جب بھی پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے‘ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ آٹا، چینی، گندم، دودھ، دہی، سبزیاں، پھل اور گھی کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اس دور کا سب سے بڑا ''تحفہ‘‘ یہ ہے کہ چینی ہر دوسرے دن کمیاب ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حکومتی رٹ بھی۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ چینی کا سٹاک کم ہو کر چند دنوں تک کا رہ گیا ہے مگر حکومت ہے کہ ذمہ داری اپنے سر پر لینے کو تیار نہیں۔ سارا ملبہ سندھ سرکار پر ڈالا جا رہا ہے کہ انہوں نے چینی کی کرشنگ وقت پر شروع نہیں کی اس لیے بحران پیدا ہو گیا۔
میرے خیال میں حکومت کے اکابرین کو چاہیے کہ وہ ایک دن چائے پر اکٹھے ہوں اور مل کر جنرل ایوب خان اور نواب آف کالا باغ کے عہد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بہت سی الجھنیں دور ہو جائیں گی اور بہت سے عقدے کھل جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کی تقلید کرنے لگیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایوب خان آپ کے لیے ایک مثال بن جائیں۔ نواب صاحب کی بطورگورنر مغربی پاکستان انتظامی امور پر گرفت اتنی سخت تھی کہ ملکہ برطانیہ کو بھی کہنا پڑا تھا کہ جنگل کا شیر بھی نواب کا کہنا ماننے پر مجبور ہے۔ 1965ء میں بھارت سے جنگ شروع ہوئی تو نواب آف کالا باغ نے تاجروں کو اپنے پاس بلایا اور کہا ''لمبی چوڑی گفتگو کی گنجائش نہیں‘ یہ جنگ کا زمانہ اور قربانی کا وقت ہے۔ اگر کسی نے اشیائے ضروریہ ذخیرہ کیں یا مقررکردہ نرخ سے زائد پر فروخت کیں تو ذخیرہ شدہ مال عوام میں تقسیم کر دیا جائے گا اور دکان ہمیشہ کے لیے بند کر دی جائے گی‘‘۔ یہی نہیں‘ جنگ ہی کے دنوں میں انہیں اطلاع ملی کہ فلاں تاجر زائد قیمت پر گندم فروخت کر رہا ہے۔ گورنر مغربی پاکستان فوری طور پر‘ بغیر سکیورٹی کے‘ بازار پہنچے اور تاجر سے مخاطب ہوکر کہا: تم شاید یہ سمجھتے ہو گے کہ امیر محمد جنگ میں مصروف ہے اور تم من مانی کر لو گے؟ میری مونچھ کو تاؤ آنے سے پہلے نرخ اپنی جگہ پر آ جائیں ورنہ ایسی سزا دوں گا کہ دنیا یاد کرے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد پورے صوبے سے ایسی کوئی شکایت موصول نہ ہوئی۔ یہ تھی امیر محمد خان کی افسر شاہی اور نظام حکومت پر گرفت۔
جنگ کے کچھ عرصہ بعد نواب آف کالا باغ اور جنرل ایوب خان کے درمیان اختلافات شد ت اختیار کر گئے تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ایوب خان کا اقتدار اور مارکیٹ پر سے کنٹرول ختم ہوتا گیا۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں اور بدانتظامی کے باعث مہنگائی عام ہو گئی۔ چینی کے ساتھ ساتھ چاول، آٹے اور دالوںکی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوام حکومت سے بیزار ہوگئے اور صورتِ حال اتنی خراب ہو گئی کہ پہلے کراچی کی ساری بیکریوں نے ہڑتال کی اور پھر چینی اتنی نایاب ہو گئی کہ پنجاب میں راشن بندی کرنا پڑی۔ ڈھاکہ میں عوام نے شہید مینار کے سامنے خستہ حال ہڈیوں کا ڈھانچہ لٹکا دیا اور مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کا مذاق اڑایا۔ پھر جس دن ایوب خان نے استعفیٰ دیا‘ اس روز پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں تھا جہاں مہنگائی کے خلاف احتجاج نہیں ہوا تھا۔ ستم تو یہ ہے کہ ایوب خان بھی ویسے ہی عذر تراشا کرتے تھے جیسے آج کے حکمران تراشتے ہیں۔ ایوب خان بھی اپنی پالیسیوں کو مہنگائی کا سبب سمجھتے تھے نہ اس کی ذمہ داری حکومت پر آنے دیتے تھے۔ اپنی ڈائری میں انہوں نے لکھا تھا کہ حکومتی مشینری انہیں ناکام بنانے کے لیے کام کر رہی تھی۔ اس کا ثبوت انہوں نے یہ پیش کیا کہ مشرقی پاکستان میںسرکاری عہدے دار اشیائے خورو نوش مارکیٹ میں لانے کے بجائے بھارت سمگل کر دیتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایوب خان اپنا اقتداربچانے کے لیے ذمہ داری دوسروں پر تھوپ رہے تھے یا خود کو ایسے بہانوں سے تسلی دے رہے تھے؟ وجہ جو بھی تھی مگر اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ وہ بہانے بنانے کے باوجود اپنا اقتدار نہیں بچا سکے تھے۔ آخر کار انہیں جانا ہی پڑا تھا۔ وہ بدانتظامی اور مہنگائی کے سیلاب کا سامنا نہیں کر سکے تھے۔
نواب آف کالاباغ کا تعلق وزیراعظم عمران خان کے موجودہ حلقے سے تھا۔ لوگ آج بھی ان کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ کیا وزیراعظم عمران خان بھی عوام کے دلوں میں نواب صاحب جیسا تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا ایوب خان کی طرح بے بسی کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا اور وقت ہمیشہ بے رحم ہوتا ہے۔ وہ کوئی عذر مانتا ہے نہ بہانے گوارا کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں