بھارت کے جنونی حکمرانوں کی کہانی

بھارتی معاشرہ عدم برداشت کی بیماری کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ انڈیا میں کورونا وائرس نے اتنی تباہی نہیں مچائی جتنی عدم برداشت نے مچا دی ہے۔ مودی سرکار نے تو مسلمانوں، کسانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے مگر عوام تو سرکار سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ انڈیا کے مشہور کامیڈین ویر داس نے بھارتی معاشرے میں پائے جانے والے تضادات اور دوغلے پن کو عیاں کیا تو شدت پسندوں نے ان پر تنقید کے نشتر چلا دیے۔ ایک فنکار کو نظم لکھنا اور سنانا مہنگا پڑ گیا۔ اس نظم کا عنوان ہے ''میں دو انڈیا سے ہوں‘‘ آپ بھی اس طویل نظم کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے۔
''میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں ہم سبزی خور ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اسی انڈیا میں سبزی اگانے والے کسانوں کو گاڑیوں تلے روند دیا جاتا ہے۔ میں اس انڈیا سے تعلق رکھتا ہوں جہاں ہم دن میں عورت کی پوجا کرتے ہیں اور اسی انڈیا میں رات میں اس کے ساتھ گینگ ریپ ہوتا ہے۔ میں اس انڈیا سے ہوں جہاں صحافت ختم ہو چکی ہے۔ مرد صحافی اچھے کپڑے پہن کر ایک دوسرے کی تعریفیں کر تے ہیں جبکہ اسی انڈیا میں خواتین صحافی سڑکوں پر لیپ ٹاپ اٹھائے سچ بیان کر رہی ہیں۔ میں اس انڈیا سے ہوں جہاں کی زیادہ تر آبادی تیس برس سے نیچے ہے لیکن اسی انڈیا میں ہم 75 سال کے لیڈروں سے ڈیڑھ سو برس پرانے خیالات سنتے ہیں۔ میں اس انڈیا سے ہوں جہاں ٹویٹر پر لوگ بالی ووڈ پر منقسم نظر آتے ہیں جبکہ تھیٹر کے اندھیرے میں اسی بالی ووڈ کی وجہ سے متحد ہوتے ہیں۔ میں ایسے انڈیا سے ہوں جہاں بچے ماسک پہن کر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ہیں اور لیڈران بغیر ماسک کے گلے مل رہے ہوتے ہیں۔ میں اس انڈیا سے ہوں جہاں کامیڈی کلب کی دیواریں اس لیے توڑ دی جاتی ہیں کیونکہ اندر سے ہنسی کی آواز آ رہی ہوتی ہے۔ میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں آپ فوجیوں کو تب تک مکمل سپورٹ کرتے ہیں جب تک ان کی پنشن کی بات نہ کی جائے۔ میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں پر لوگ اس وڈیو کو دیکھ کر کہیں گے کہ اس میں کامیڈی کہاں ہے؟ لطیفہ کہاں ہے؟ اور میرا تعلق اس انڈیا سے بھی ہے جو کہ اسے دیکھ کر لطیفہ کہیں گے لیکن یہ ان کے لیے مزاحیہ نہیں ہو گا‘‘۔
ویر داس نے یہ نظم واشنگٹن کے کینڈی سنٹر میں ہونے والے ایک شو میں سنائی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ بھارت کے انتہا پسند طبقے نے ویر داس کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کسی نے کہا کہ ہندوستان چھوڑ جاؤ ورنہ ہم تمہیں نکال دیں گے۔ کوئی بولا: امریکا میں رہو یا پاکستان چلے جاؤ، بھارت کو تم جیسوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ کسی نے غدار کہا تو کسی نے پاکستانی جاسوس کا لقب دیا۔ کسی نے جان سے مارنے کی دھمکی دی تو کوئی ایف آئی آر کٹوانے تھانے پہنچ گیا۔ شدت پسند بھارتی شہری کہتے ہیں کہ ویر نے ملک کا نام بدنام کیا ہے، بھارت میں جمہوریت کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے اس لیے یہ بھارتی ہونے کا حق کھو چکا ہے۔ ٹی وی اور فلم پروڈیوسرز کی ایسوسی ایشنز نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ ویر داس کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔ دوسری طرف ششی تھرور اور برکھا دت جیسے بھارتی بھی ہیں جو اپنے ٹویٹس میں ویر داس کا شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ششی تھرور نے کہا ''ویر داس نے لاکھوں ہندوستانیوں کی ترجمانی کی ہے۔ اپنی چھ منٹ کی ویڈیو میں اس نے دو قسم کے انڈیا کی بات کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ کس انڈیا کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ لطیفہ ہے لیکن یہ مزاحیہ ہرگز نہیں‘‘۔
بھارت میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کا یہ اکلوتا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات وہاں آئے روز پیش آتے رہتے ہیں۔ جب سے مودی سرکار آئی ہے‘ نفرت اور شدت پسندی کی فراوانی ہے جبکہ تحمل اور بردباری مکمل طور پر ناپید ہو چکے ہیں۔ اقلیتوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، کوئی روکنے والا ہے‘ نہ کوئی سمجھانے والا۔ اترپردیش کی مسجدوں میں نمازوں کے اوقات میں شور شرابہ کیا جاتا ہے اور عید کے دن تقریبات میں خلل ڈالنا معمول بن چکا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ نہ تو ہسپتالوں میں بہتر سلوک کیا جاتا ہے اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں ان کو عزت دی جاتی ہے۔ اردو یوپی کی پہچان رہی ہے۔ لکھنؤکو اردو زبان کا کیپیٹل کہا جاتا ہے مگر اب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اردو بولنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور تو اور ٹی وی کے اشتہارات میں اردو کے لفظ زیادہ آ جائیں تو اشتہار ہی بند کر دیا جاتا ہے۔اردو کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ممبئی میں بھی ''ہندی، ہندو اور ہندوستان‘‘ کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ گزشتہ سات سالوں سے فلم نگری میں پروڈیوسرز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنی فلموں میں اردو کے بجائے ہندی کو پروموٹ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی نسبت اب فلموں میں زیادہ سے زیادہ ہندی بولی جاتی ہے۔
بھارتی ریاست ہریانہ میں ہندو شدت پسندوں نے گزرے ایک ماہ سے عجیب تماشا لگا رکھا ہے۔ وہ مسلمانوں کو کھلے میدانوں میں جمعہ یا دوسری نمازیں پڑھنے سے روکنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ کبھی میدان میں گوبر پھینک دیا جاتا ہے تو کبھی نماز کے اوقات میں ہارن بجائے جاتے ہیں۔کبھی مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور کبھی نوبت لڑائی جھگڑے تک آ جاتی ہے۔ سرکار ہے کہ بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے، وہ جنونی ہندوؤں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہے۔ یہی نہیں‘ ریاست گجرات میں راجکوٹ اور جوناگڑھ سمیت متعدد شہروں میں بی جے پی نے بلدیہ کے ذریعے گوشت اور انڈے سے تیار کردہ کھانا بیچنے والوںکے خلاف مہم شروع کر دی ہے۔ بلدیہ نے دکانداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی دکانوں میں ''نان ویج اشیا‘‘ کی فروخت بند کر دیں یا انہیں چھپا کر رکھیں۔ سٹرک یا فٹ پاتھ پر چلنے والے افراد کویہ اشیا نظر نہ آئیں۔ سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
چند روز قبل سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کرتارپور یاترا پر آئے تو انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو اپنا بڑا بھائی قرار دیا اور کہا کہ چودہ کروڑ سکھوں پر ان کا احسان ہے۔ اتنی سی بات بھارتی میڈیا اور عوام برداشت نہ کر سکے اور سدھو کے خلاف جی بھر کر زہر اگلنے لگے۔ انہیں غدار قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ وہ بھارت کے نمائندے نہیں بلکہ عمران خان کی کابینہ کے رکن ہیں۔ ٹویٹر پر باقاعدہ ٹرینڈ چلائے گئے کہ سدھو پاکستان منتقل ہو جائیں، کئی لوگوں نے تو یہاں تک کہا کہ وہ سدھو کی پاکستان منتقلی کے اخراجات بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں۔
بھارت میں عدم برداشت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوںکے بعد پڑھے لکھے اور باشعور ہندو بھی اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ پاکستان سے کرکٹ میچ ہارنے کے بعد محمد شامی کے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا‘ ویرات کوہلی اور اس کے خاندان کو بھی شدت پسندوں نے نہیں بخشا۔ ویرات کی دس ماہ کی پھول جیسی بیٹی کے بارے میں جو دھمکیاں دی گئیں‘ وہ میں یہاں دہرا بھی نہیں سکتا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ فنکاروں کی دھرتی سے امن ختم ہو چکا ہے۔ ہرطرف نفرت ہی نفرت ہے اور ظلم ہی ظلم۔ بی جے پی ہندو مذہب کا پرچار کرنا چاہتی ہے تو شوق سے کرے مگر انسانیت کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑے۔ انسانیت سوچ و فکر اور رنگ ونسل سے بالاتر ہوتی ہے۔ کاش! اتنی سی بات مودی سرکار سمجھ سکتی۔ جب بھی کوئی غیر جانبدار تاریخ دان مودی کے دور کو قلم بند کرے گا تو اس کا عنوان ''جنونی حکمرانوں کی کہانی‘‘ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں