وہی چال بے ڈھنگی

جہاں بادل گرجنے ہوں ‘ وہیں گرجتے ہیں ‘ جہاں بارش برسنی ہو ‘ وہیں برستی ہے اور جہاں بجلی گرنی ہو ‘ وہیں گرتی ہے ‘ یہ قدرت کا قانون ہے اور کوئی چاہتے ہوئے بھی اس نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا ۔ دوسرا نظام وہ ہے جس کے تحت دنیا چلتی ہے‘ ترقی یافتہ ملکوں کو عزت دی جاتی ہے اور ترقی پذیر ممالک کو دبایا جاتا ہے ۔ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک اقوام متحدہ ہو یا جی 20 ممالک ‘ سارک ہو یا او آئی سی ۔ ہر جگہ طاقت کی حکمرانی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے ۔جوملک معاشی طور پر مضبوط ہوتاہے اس کی اجارہ داری ہوتی ہے اور جن ملکوں کی معیشت بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہو وہ الٹے بھی لٹک جائیں تو ان کی بات کوئی نہیں مانتا۔ ہمارا بھی یہی المیہ ہے ‘ ہم جب بھی آئی ایم ایف کی دہلیز پر جاتے ہیں وہ چند ارب ڈالر دے کر ہماری آزادی خرید لیتا ہے ۔
وفاقی حکومت شادیانے بجا رہی ہے اور وزرا ء ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں کہ پاکستان کے اگلی قسط کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاگئے ہیں ۔ میں حیران ہوں کہ کس بات کی مبارکبا د؟کیا عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا خوشی کی بات ہے ؟ کیا آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کردینا باعثِ فخر ہے ؟کیا عام آدمی کا مہنگائی کی دلدل میں دھنس جانا مسند ِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو اطمینان بخشتا ہے ؟ کچھ لمحے یہیں رک کر اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا کمزور معیشتوں کے لیے کیونکر ناگزیر ہوتا ہے ؟ آئی ایم ایف کے ساتھ اور آئی ایم ایف کے بغیر عوام کو کتنا نقصان ہوتا ہے اور کتنا فائدہ ؟ اورحکومتوں کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے سہارا ملتا ہے یا دھکا ؟
حکومت کی معیشت کو سمجھنا ہو تو اس کے چار مراحل ہیں ۔سوا تین سال قبل تحریک انصاف کی حکومت آئی تواس وقت کے وزیرخزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت آئی سی یو میں ہے ۔سٹرکچرل ریفارمز کی جارہی ہیں ‘ عوام کے لیے مشکل وقت ہے جو جلد اختتام پذیر ہو گا ۔یہ وہ وقت تھا جب حکومت نے معیشت کا گلا دباناشروع کیا۔ کرنٹ اکاؤنٹ کو قابومیں رکھنے کے لیے درآمدات پر پاپندیاں لگا دیں ‘ ٹیکسز کی بھرمار کردی ‘ پٹرول ‘ ڈیزل‘ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا دیں‘ روپے کی قدر گرا دی اور کاروباری شخصیات کے پیچھے سرکاری اداروں کو لگا دیا جس کے بعد کاروبار بندہونے لگے ‘ مہنگائی اور بے روزگاری عام ہوگئی ۔ہر طرف چیخ وپکار ہوئی تو حکومت کو آئی ایم ایف کا خیال آیا ۔ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر کا پیکیج تو دے دیا مگر شرائط اتنی سخت تھیں کہ عوام کی اور چیخیں نکل گئیں ۔ آئی ایم ایف نے دوقسطوں میں لگ بھگ ڈیڑھ ارب ڈالر دیے تو حکومت کی سانسیں بحال ہوئیں ۔ روپیہ قدرے مستحکم ہوا‘ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے اورمارکیٹ کا اعتماد بحال ہونے لگامگرجب حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کیا تو مہنگائی نے سونامی کا روپ دھار لیا ‘شرح سود بڑھ کر سوا تیرہ فیصد پر چلی گئی جس کے بعد پرائیویٹ سیکٹر نے بینکوں سے قرض لینا کم کر دیا ‘ نئے کاروبار شروع ہونابند ہوگئے ‘ ایک بار پھر ٹیکسز بڑھا دیے گئے ‘ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں ‘ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگ گیا‘ گروتھ کم ہوتے ہوتے منفی میں چلی گئی ‘فیکٹریوں نے ملازمین کی تنخواہو ں میں کٹوتی کردی ‘ مہنگائی چودہ فیصد سے تجاوز کرگئی اور فوڈ انفلیشن 24 فیصدتک چلی گئی۔ اس کے بعد کورونا وائرس حملہ آور ہوگیا ۔ پاکستانی معیشت سست روی کا شکارہوگئی اور آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہوگیا ۔
کورونا وائرس نے جہاں باقی دنیا میں تباہی مچائی وہیں پاکستان کے وارے نیارے ہوگئے ۔ جی 20 ممالک اور آئی ایم ایف نے قرضوں کی قسطیں مؤخر کردیں بلکہ آئی ایم ایف نے تو ایک ارب اڑتیس کروڑ ڈالر کا ریلیف پیکیج بھی دیا ۔کورونا کے دوران دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہو گیا جس کے باعث پاکستان کو برآمدات کے آرڈر ملنے لگے ۔ حکومت نے موقع غنیمت جانا اور معاشی دباؤ سے آزاد ہونے کا فیصلہ کیا ۔ حکومت نے ڈیویلپمنٹ بجٹ بڑھا دیا ‘ شرح سود کم کرکے 6فیصد تک کردی ‘ پبلک فنانسنگ کو فروغ دیا ‘زراعت سمیت مختلف شعبوں میں ایمنسٹی سکیموں کا اجرا کیا ‘بڑی صنعتوں کو مراعات دیں ‘ خزانے کا منہ کھولنے سے حکومت کو گروتھ تو مل گئی مگر پورا ملک افراطِ زر کی زد میں آگیا ۔ ڈالر 175 روپے کا ہوگیا اور مہنگائی کو بھی پر لگ گئے جس کے بعد حکومت کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کی یاد آئی اور پہلے سے سخت شرائط پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے قرضے کی بحالی کے معاملات طے کرلیے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کو ایک ارب ڈالرکے قریب قسط ملتی نظر آرہی ہے مگر 17 جنوری سے پہلے حکومت کو پانچ شرائط ماننا ہوں گی۔ عوام کو دی گئی تین سو ارب کی ٹیکس چھوٹ مِنی بجٹ کے ذریعے ختم کرنا ہوگی‘ جس کے بعد ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5800 ارب روپے سے بڑھ کر 6100 ارب روپے ہوجائے گا ۔سٹیٹ بینک ایکٹ میں آئی ایم ایف کی منشاکے مطابق ترامیم کرنا ہوں گی ‘بجلی کی قیمت میں 45 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کرنا ہوگا‘ کورونا ریلیف پیکیج کی آڈٹ رپورٹ جاری کرنا ہوگی اورکورونا ویکسین اور دیگر طبی سامان کی خریداری پر کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلا ت بتانا ہوں گی۔ پھر جاکر کہیں قسط جاری ہو گی اور روپے پر پڑا بوجھ تھوڑا کم ہوگا ۔ آئی ایم ایف کی شرائط یہیں ختم نہیں ہوتیں ۔ قسط ملنے کے بعد پاکستان کووفاقی ترقیاتی بجٹ میں سے دوسو ارب روپے کا کٹ لگانا ہوگا ۔ ساتھ ہی ساتھ ہر ماہ پٹرولیم لیوی کی مد میں چار روپے بڑھانا ہوں گے ۔اس وقت پٹرول پر دس روپے اور ڈیزل پر آٹھ روپے لیوی لگی ہوئی ہے اور اسے اگلے چار ماہ میں 30 روپے تک لے جایا جائے گا۔ اگر انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتیں برقرار رہیں تو لگ بھگ چار ماہ بعد پٹرول کی قیمت 170 کے قریب پہنچ جائے گی ۔حکومت کو صرف لیوی ہی نہیں جنرل سیلز ٹیکس بڑھانے کا حکم بھی موصول ہوچکا ہے ۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ مختلف شعبوں میں جی ایس ٹی کی مد میں دی گئی چھوٹ ختم کردی جائے اور ہر جگہ ایک جتنا جی ایس ٹی لیا جائے ۔سولہ نومبر کوحکومت نے پٹرول اور ڈیزل پرجی ایس ٹی صفر کردیا تھا ۔ اگر اب پٹرول اور ڈیزل پر جی ایس ٹی بھی سترہ فیصد لیا گیا تو پٹرول چار ماہ بعد 180 سے 185 روپے تک ہوگا ۔یہی نہیں ملک بھر کے پٹرول پمپس ڈیلر مارجن 3روپے 90 پیسے سے بڑھا کر 6 روپے کرواناچاہتے تھے مگر حکومت 4 روپے 90 پیسے کرنے پر راضی ہے ۔ڈیلرز کے حکومت کے ساتھ مذاکرات جس قیمت پر بھی کامیاب ہوئے بوجھ تو عوام پر ہی پڑے گا۔
تین سال قبل معیشت کی گاڑی جس مقام سے چلی تھی وہیں واپس آچکی ہے ۔ حکومت نے عوام کی امیدوں کی لاج رکھی نہ آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کیے ۔ ادارہ جاتی ریفارمز ہوئیں نہ معیشت آئی سی یو سے نکل سکی۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پھر سے بڑھ گیااور تجارتی خسارہ بھی۔ روپے کی ٹکے کی حیثیت نہ رہی اور تین سالوں میں قوم پر اکیس ہزار ارب کا قرضہ بھی بڑھ گیا۔ اب حکومت کا آخری راؤنڈ شروع ہوچکا ‘ وہ ہرمعاملے میں سیاسی فیصلے کرے گی ۔ وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھا سو اب بھی ہے۔ بڑا اس دل کو سمجھایا نیتجہ کچھ نہیں نکلا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں