جدت پسندی، سعودی عرب اور پاکستان

ہرن زخمی ہو جائے تو زخم بھرنے تک غار میں دبکا رہتا ہے، اسے کسی کی رفاقت بھاتی ہے نہ کوئی آواز بھلی لگتی ہے۔ کاش! ہم ہرن سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ سیالکوٹ واقعے نے ہماری روحوں کو چھلنی کر دیا مگر ہم اگلے ہی لمحے اٹھ کھڑے ہوئے۔ زخم بھرنے کا انتظار کیا نہ ندامت کم ہونے کی ضرورت محسوس کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم پر کرب و اذیت کے بادل سایہ فگن رہتے اور درد و رنج کے ناگ ہمیں ڈستے رہتے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ہم نے چند آنسو بہائے اور زندگی کی گاڑی میں بیٹھ کر دوبارہ سفرشروع کر دیا۔ یہ ہمارا عمومی رویہ ہے، کوئی آفت آئے یا مشکل، ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ حالات کا تجزیہ کرنے کی عادت ہے نہ کسی سانحے سے سبق حاصل کرنے کی جستجو۔ مولانا رومی کا قول ہے: جو قومیں سانحات سے نہیں سیکھتیں وہ اگلے سانحہ کو وقوع پذیر ہونے کی دعوت دیتی ہیں۔
سیاستدان ہوں یا عوام، حکمران ہوں یا دانشور، اتنے سہل پسند ہو چکے ہیں کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہنے میں عافیت سمجھتے ہیں، ایسے لگتا ہے جیسے مخالف سمت میں تیراکی کسی کے بس میں ہے ہی نہیں۔ مستقبل میں جھانکنے کی عادت ہے نہ خطرات کو بھانپنے کا ہنر آتا ہے۔ جس روز ملکی سیاست میں لاٹھی ڈنڈے کا رواج عام ہو ا تھا ‘اسی وقت اس طرزِ عمل کا مناسب سدِباب کیا ہوتا تو آج سیالکوٹ میں انتہاپسندی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جب درسگاہوں میں طلبہ تنظیمیں زور زبردستی کرنے کی جانب مائل ہو رہی تھیں اسی لمحے ہجوم گردی کے خطرے کو بھانپ لیا ہوتا تو آج سری لنکن شہری ناحق مارا نہ جاتا۔ جب اسی کی دہائی میں کراچی کے گلی کوچوں میں موت کا رقص شروع ہوا تھا‘ سیاست سے بالاتر ہوکر فیصلے کیے جاتے تو آج سانحہ سیالکوٹ کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ شدت پسندی کے یہ بیج جانتے بوجھتے بوئے گئے ہیں اور انتہا پسندی کے یہ مینار اپنے ہاتھوں سے تعمیر کردہ ہیں۔کاش! ایسا نہ کیا گیا ہوتا۔ کا ش! اپنی آئندہ نسلوں کا خیال رکھا جاتا۔ کا ش! ہمارے اکابرین دیوارکے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے۔ کا ش! ہم عدم برداشت کی بیماری کا علاج ڈھونڈ سکتے۔
چوہتر سال کی ملکی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی معاشی، سماجی یا سیاسی قدم خود سے نہیں اٹھایا گیا۔ دوستوں کو دیکھ کر خیال آیا یا دشمن نے ہمیں چوکنا کیا۔ بھارت میں صنعتی ترقی بام عروج پر پہنچی تو ہم نے بھی انڈسٹری کے فروغ کے لیے اقدامات کیے۔ بھارت نے ایٹم بم کا تجربہ کیا تو ہم بھی ایٹمی طاقت کے حصول کے لیے کوشاں ہو گئے۔ انڈیا میں آئی ٹی کے شعبے نے دنیا بھر میں اپنے جھنڈے گاڑے تو ہمارے ہاں بھی ٹیکنالوجی کو دوام ملا۔ تقریباً ایسی ہی صورت حال دوسرے ہر شعبے کی ہے۔ ہم دوسروں کو دیکھ کر حرکت میں آتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم متشدد رویوں کا بوجھ بھی ایسے ہی اتار پھینکیں اور تحمل، برداشت اور بردباری کو اپنا لیں۔ ہم بھی سعودی عرب کی طرح اپنے سیاسی اکابرین کی سوچ کو بھول کر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔
کل تک سعودی عرب میں سینما تھے نہ کوئی انٹرٹینمنٹ،کلچرل فیسٹیول ہوتے تھے نہ خواتین گاڑی چلا سکتی تھیں۔ سعودی عوام چھٹیاں منانے دبئی جاتے تھے یا یورپ مگر جب سے محمد بن سلمان طاقت کے ایوان میں مسند نشین ہوئے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جدت اور متوازن سوچ نے سعودی عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب پورے ملک میں تفریحی سرگرمیوں پر بھی بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔ خواتین سے مختلف اقسام کی پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ اب وہ ڈرائیو کر سکتی ہیں۔ مردوں کے شانہ بشانہ نوکریاں اور کاروبار کر سکتی ہیں۔ اعتدال پسندی نے پورے معاشرے کو متاثر کیا ہے اور انتہا پسند طبقہ دھیرے دھیرے معدوم ہو رہا ہے۔یہ سب کچھ سعودی عرب کے ''وژن 2030ء‘‘ کے تحت ہو رہا ہے جس میں 80 بڑے منصوبے ہیں، نئے شہروں کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے سیاحت کو فروغ دیا جائے گا۔ اس سب کا مقصد مملکت کی معیشت کی نئی سمت متعین کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو سعودی قوم کی جغرافیائی اہمیت، ثقافتی ورثے، مہمان نوازی، معاشی عزائم اور ماحولیاتی تحفظ کے پہلوؤں سے روشناس کرانا ہے۔ ''ریڈ سی‘‘؛ 90 سے زائد جزیروں پر مشتمل اس علاقے میں غیر فعال آتش فشاں، صحرا اور جنگلی حیات اور پہاڑی مناظر دیکھنے کو ملیں گے جہاں ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ ''قدیہ‘‘ شہر تفریح، فنون اور کھیلوں کا مرکز بنے گا۔ ''عسیر‘‘ کی پہاڑی چوٹیوں کو سیاحتی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جائے گا جبکہ نئے رہائشی اور کمرشل منصوبے بھی تعمیر کیے جائیں گے۔
سعودی عرب میں گزشتہ ایک ماہ سے ''ریاض سیزن‘‘ کے نام سے ایک فیسٹیول جاری ہے۔ دنیا بھر سے فنکار آکر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا فیسٹیول ہے۔ یہ مارچ 2022ء تک جاری رہے گا۔ ریاض سیزن میں 7500 کے لگ بھگ پروگرام ہوں گے۔ ان میں 70 عرب کنسرٹس، 6 انٹرنیشنل شوز اور 350 تھیٹر پرفارمنسز ہوں گی۔ اس میلے میں کھیلوں سے لے کر نمائشوں تک سب کچھ عوام کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ اب تک سعودی عرب اور باقی ممالک سے پچاس لاکھ کے قریب لوگ اس میلے کو دیکھ چکے ہیں اور یہ تعداد 2 کروڑ تک بڑھنے کی توقع ہے۔ اس فیسٹیول میں میوزک اور ڈانس کا بھی خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ بالی وُڈ کے سپر سٹار سلمان خان نے بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ یہاں پرفارم کیا ہے۔ شلپا سیٹھی، پرابو دیوا اور گلوکار گرو رندھاوا نے بھی اپنی پرفامنس کے جلوے دکھائے ہیں۔ سلمان خان نے بھارتی گانوں پر ڈانس پرفارمنس سے خوب داد وصول کی۔ ان کے شوکو دیکھنے کے لیے اسی ہزار کے قریب لوگ آئے جو سعودی عرب کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے قبل 2019ء میں نامور پاکستانی گلوکاروں راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم نے بھی ''ریاض سیزن ‘‘ میں اپنی پرفامنس کا جادو جگایا تھا۔
یوں گمان ہوتا ہے جیسے سعودی عرب اپنا تشخص بدلنے جا رہا ہے۔ وہ بھی یو اے ای کی طرح ایک جدید ریاست بننے کا خواہاں ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سعودی عرب کو یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ میرا احساس ہے کہ اس تبدیلی کی بڑی وجہ سماجی سے زیادہ معاشی ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ اس کی معیشت کا انحصار تیل سے کم سے کم ہو جائے۔ دنیا بھر میں الیکٹرانک گاڑیاں عام ہو رہی ہیں جس کے باعث ممکن ہے پیڑول کی مانگ کم ہو جائے۔یہی نہیں‘ سعودی عرب پانچ سو ارب ڈالر کی لاگت سے ایک نیا شہر ''نیوم‘‘ بھی بسا رہا ہے جو اس کا معاشی دارالحکومت قرار پائے گا۔ نیوم سٹی تین براعظموں کو ایک دوسرے سے جوڑے گا۔ اس شہر کا پہلا حصہ 2025ء تک مکمل ہو جائے گا جبکہ مستقبل میں سعودی عرب کی دس فیصد تجارت نیوم کے راستے ہی ہو گی۔ معاشی ماہرین کا مانناہے کہ 2030ء تک سعودی عرب کی قومی پیداوار میں نیوم کا حصہ سو ارب ڈالر تک ہو جائے گا۔ یہ شہر عالمی سیاحت کو مدنظر رکھ کر بنا جا رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ سیاح دبئی، لندن اور پیرس کو چھوڑ کر اس شہر کا رخ کریں کیونکہ یہ شہر ہر حوالے سے جدید ہو گا۔
پاکستان کو بھی سعودی عرب سے سیکھنا چاہیے اور اپنی معاشی ضرورتوں کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر ہمیں اپنی معیشت کو بہتر کرنا ہے تو آنے والے کل کے لیے آج ہی پلاننگ کرنا ہوگی۔ ہمیں سردست دو کام کرنا ہیں؛ اول، انتہا پسندی کو شکست دینی ہے اور دوم، اپنے ملک کو عالمی سیاحوں کے لیے پُرکشش بنانا ہے۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے سوائے ارادے کی پختگی کے۔ ہمیں اپنے اندر معتدل مزاجی، توازن اور میانہ روی کو فروغ دینا ہے۔ اگر خوانخواستہ ہم یہ نہ کر سکے تو دنیا ہمارے راستے کی دیوار بن جائے گی۔ مت بھولیں! دنیا غریب ملکوں پر نظر کرم ڈال دیتی ہے مگر شدت پسندوں کی جانب دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں