معاشی پالیسیوں کے خلاف ریفرنڈم ؟

اٹلی کے معروف سیاسی مفکر نیکولو میکاؤلی اپنی کتاب ''دی پرنس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ کسی حکمران کی ذہانت کو جانچنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس کے ارد گرد موجود لوگوں کو دیکھیں ‘ وہ کیسے ہیں ۔ ذہین حکمرانوں کے ساتھ ذہین لوگ ہوں گے جبکہ اوسط درجے کے حکمرانوں کی سنگت میں اوسط درجے کے رفقا نظر آئیں گے ۔ آپ میکاؤلی کے سیاسی نظریات سے لاکھ اختلافات کر سکتے ہیں مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ جلال الدین اکبر کو برصغیر کا کامیاب ترین حکمران مانا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ اکبر کی بے پناہ ذہانت کے ساتھ اس کے نورتنو ں کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی بھی تھی ۔ ابوالفضل ‘ فیضی ‘ عبدالرحیم خان خاناں ‘ عرفی‘ راجہ ٹوڈرمل ‘ تان سین اوربیربل جیسی شخصیات کی قربت نے جلال الدین کو صحیح معنوں میں اکبر بنایا تھا۔ یہی نہیں ‘ اکبر کے والد ہمایوں کو بیرم خان اور اکبر کے بیٹے جہانگیر کو مہابت خان جیسے جرنیلوں نے لازوال بنائے رکھا ۔ پھر محمد شاہ رنگیلا جیسے لوگ حکمران بنے اور مغلیہ سلطنت کا سورج ڈوب گیا ۔ اس کی وجہ بہت سادہ تھی‘ محمد شاہ رنگیلا کے ساتھی بھی ''رنگیلے‘‘ تھے۔ حکمرانی ہیر رانجھا کی داستان نہیں ہوتی جو دو لوگوں کو سحر میں جکڑے رکھے ۔حکمرانی تودرجنوں قابل افراد کا مجموعہ ہوتی ہے ۔کسی ایک شخص کی قابلیت ‘ نیک نامی ‘ دیانت اور ذہانت تو حکمرانوںکی بستی میں سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوتی ہے ۔
یہ دنیا تغیرات کا کارخانہ ہے ۔ اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔انسانی فطرت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ اس کو آپ ایک ہی نہج پر نہیں رکھ سکتے۔بھوکا شخص توپیٹ کی آگ بجھانے کے لیے آتش دان میں چھلانگ لگا دیتا ہے اس کے لیے سیاسی نظریات بدلنا کون سی بڑی بات ہے ۔ جس شخص کے بچے گیس نہ ہونے کے باعث بھوکے سکول جاتے ہوں‘ جوبجلی کے بل پر فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر''جگا ٹیکس‘‘ دیتا ہو‘ جس کے اردگرد جرائم جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہے ہوں ‘ جہاں مافیازدن رات پھل پھول رہے ہوں اور مہنگائی ‘بے روزگاری ‘ بدانتظامی نے عام آدمی کی سانسیں بند کردی ہوں ۔جہاں حکمرانوں کے پاس ہر مسئلے کا حل عوام پر مزید ٹیکس لگانا ہو وہاں پھر لوگ ووٹ کی طاقت کا استعمال کیوں نہ کریں ؟عام آدمی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ حکمرانوں کے جبر کا مقابلہ کرسکے ۔ اس کے پاس آخری اور واحد حل صبر ہی ہوتا ہے مگر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔یہ حد جب بھی عبور ہوتی ہے تو پھر لوگ وہی کرتے ہیں جو خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں عوام نے کیا ہے ۔ حکومت نے پہلے مرحلے میں الیکشن کے لیے جن 17 اضلاع کا چناؤ کیاتھا وہاں 2018ء میں حکمران جماعت کی عوامی سپورٹ بہت زیادہ تھی ۔پشاور ویلی میں تو تقریباً کلین سویپ ہوا تھا۔حکومت کا خیال تھا کہ ایک بار پھر ان اضلاع سے بڑی کامیابی ملے گی اور اس کا نفسیاتی اثر پورے پاکستان پر پڑے گا مگر ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں ۔ عوام نے تین سال بعد ہی منہ پھیر لیا ۔ کیوں ؟اس کیوں کا جواب حاصل کیے بغیر حکمرانوں کو آگے نہیں بڑھنا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوسکا ۔
74 سالوں سے مسندِ اقتدار پر بیٹھے افراد کا المیہ رہا ہے کہ وہ حالات کا درست تجزیہ نہیں کرتے ۔حکمران پہلے بھی عوامی مفادات پر سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے تھے اور آج بھی گنگا الٹی بہہ رہی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران جماعت کے پی الیکشن میں شکست کا مناسب انداز میں تجزیہ کرتی مگر وہی جذباتی اور سیاسی عذر پیش کردیے گئے ۔ ساری جماعت ہی اس معاملے میں کنفیوز نظر آئی ۔ کسی نے کہا کہ مہنگائی ہمیں لے ڈوبی ‘ کوئی بولا‘ ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز دھوکا دے گئے ‘ کہیں سے آواز آئی کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات شکست کا باعث بنے ‘ کسی نے ٹویٹ کیا کہ موروثی سیاست کے باعث ٹکٹ ٹھیک نہیں دیے گئے۔ ہوسکتا ہے یہ ساری وجوہات ٹھیک ہوں مگر عوام کی نبض پر بھی ہاتھ رکھ لیا جاتا تو کیا برائی تھی ۔ عوام چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ تین سالوں میں مسائل تین گنا بڑھ چکے ‘ وفاقی حکومت کی کارکردگی مثالی رہی نہ صوبائی حکومتوں کی ۔ ہر طرف مہنگائی کی دوہائی ہے‘ مافیاز کا راج ہے اور بدانتظامی کا شور ۔ کاش ! حکمران یہ شور بھی سن سکتے ۔
گزرے تین سالوں میں ایک فقرہ سب سے زیادہ دہرایا گیاکہ وزیراعظم صاحب کی قابلیت ‘ لیاقت اور دیانت پر کسی کو شک نہیں مگر ان کوٹیم اچھی نہیں ملی ۔ یہ ٹیم پرفارم کرنا نہیں جانتی ۔ پہلی بار مسند ِ اقتدار پر براجمان ہوئی ہے‘ سیکھتے سیکھتے سیکھے گی۔ یہ عذر ہے یا حقیقت ‘ عوام کو اس سے کیا سروکار ؟کوئی جائے اور حکمرانوں سے پوچھے‘ اچھی ٹیم بنانا کس کا کام تھا؟ دو سوماہرین کی ٹیم کہاں گئی جو پاکستان کی تقدیر بدلنے والی تھی ؟حکومت مافیاز کے سامنے بند کیوں نہیں باندھ سکی ؟ غربت اور بے روزگاری کے سیلاب کوکیوں روک نہ سکی؟ حکومت کیوں عوام کو دکھائے گئے خوابوں کوپورا نہیں کرسکی ؟ اور سب سے بڑھ کرحکمران جماعت اپنے اندرونی اختلافا ت کیوں ختم نہ کرسکی ؟سیاسی اور معاشی امور کے ماہرین تین سالوں سے واویلا کررہے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ وہ کارکردگی نہیں دکھارہے جو انہیں دکھانی چاہیے ۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی رفتار بھی ضرورت سے کم ہے مگر مجال ہے کسی نے بھی اس جانب دھیان دیا ہو ۔ ٹیم لیڈر جتنا بھی قابل اورسمجھ دار ہو مگر اچھی ٹیم کے بغیر ناکارہ ہوتا ہے ۔ ٹیم لیڈر صرف اپنی ٹیم کا حوصلہ بلند کرسکتا ہے ‘ ان کو قابل نہیں بنا سکتا۔یاد رکھیں ! اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک شخص تبدیلی نہیںلاتا‘ ساری ٹیم کو یک جان ہوکر لڑنا پڑتا ہے ۔ یہ کیسی ٹیم ہے جوخیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں ٹھیک سے ٹکٹ بھی نہیں دے سکی ؟ یہ کیسی ٹیم ہے جو اپنے لیڈر کی سوچ کے برخلاف اقرباپروری کی متحمل ہوئی ؟ یہ کیسی ٹیم ہے جو گروپ بندی کا شکار ہوکراپنے ہی خلاف گول کرتی رہی ؟آپ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کا بغور جائزہ لے لیں ۔ سب سے زیادہ دھڑے بندی حکمران جماعت میں ملے گی ۔ صرف پارٹی ہی نہیں وفاق‘ پنجاب اور کے پی کابینہ کا بھی یہی حال ہے ۔ کے پی میں ایک گروپ وزیراعلیٰ اور مراد سعید کا ہے تو دوسرا گورنر کا ۔ تیسراگروپ عاطف خا ن اور شہرام ترکئی کا ہے تو چوتھاپرویز خٹک کا ۔ پانچواں دھڑا علی امین گنڈا پور کا ہے تو چھٹا ناراض ارکا ن کا ۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے کے پی میں ساری جماعت ہی ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہے ۔ جب پارٹی کا حال یہ ہو توجیت اس کا مقدر کیسے بنے گی ؟
میرے نزدیک بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں حکمران جماعت کی کارکردگی اتنی بری نہیں جتنا برا حال مہنگائی اور معیشت کا ہے ۔ یہ رزلٹ ابھی ابتدا ہے اگر حکمرانوں نے آنکھیں نہ کھولیں تو دوسرے مرحلے میں حالات اور بھی دگر گوں ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں ‘ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستا ن میں بلدیاتی الیکشن ابھی ہونا باقی ہیں ۔ اگر کے پی میں اتنی بری صورتحال ہے تو سوچیں پنجاب اور کراچی میں حکمران جماعت کا کیا حشر ہوگا ۔ اب بھی وقت ہے حکومت اپنی ترجیحات درست کرلے‘ عوامی مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرے اور مہنگائی کو کم کرنے کا نسخہ تیار کرے ۔ ورنہ ایسا نہ ہوپنجاب اور کراچی میں حکومتی معاشی پالیسیوں کے خلاف ریفرنڈم ہوجائے ۔ اگر ایسا ہوا تو اگلے عام انتخابات میں حکمران جماعت کا ٹکٹ کون لے گا ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں