ماضی کی دلدل میں پھنسی حکومت

ایک اور سال بیت گیا۔ نیا سال ہے، نئی امیدیں اور جواں جذبے۔ کاش! ہم نئے سال کو نئے ڈھنگ سے گزار نے کا ہنر سیکھ لیں۔ کاش! ہمیں ادراک ہو جائے کہ زندہ قومیں آگے کی طرف دیکھتی ہیں۔ مڑ کر پیچھے دیکھنے والے ہمیشہ راستہ بھٹک جاتے ہیں اور پھر مایوسی انسان کی بصارت اور سماعت کو مفلوج کر دیتی ہے۔ اسے دکھوں کے سوا کچھ دکھائی دیتا ہے نہ آہ و بکا کے سوا کچھ سنائی پڑتا ہے۔ پھر پچھتاوا بڑھتا ہے اور خلجان کے شعلے مزید بھڑکنے لگتے ہیں۔ کیا فائدہ ایسے ارادے کا جو آپ کے راستے کی دیوار بن جائے اور خوشیوں کو زمیں بوس کر دے‘ مگر افسوس! ہمارے حکمران اور سیاستدان ایسا کب سوچتے ہیں۔ انہیں تو الٹے قدموں کا سفر اچھا لگتا ہے۔ یہی ہماری ملکی تاریخ کے چوہتر سالوں کا سبق ہے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ''جس کا آج اس کے گزرے کل سے بہتر نہ ہو وہ ہلاک ہو گیا‘‘ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارا آج ہمارے گزشتہ کل سے بہتر ہے یا نہیں؟ کیا ہم نے کبھی اپنے آنے والے کل کی بہتری کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ماضی کی چوکھٹ پر براجمان رہتے ہیں اور کبھی اپنے آج اور آنے والے کل کی فکر نہیں کرتے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ آخر کب تک ہم سانپ گزرنے کے بعد لکیر کو پیٹتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہم ماضی کی برائیوں سے بغل گیر رہیں گے اور اپنی آئندہ نسلوں کامستقبل نظر انداز کیے رکھیں گے؟ نئے سال کا آغاز ہے ہماری اشرافیہ کو اپنی روش بدلنا ہو گی ورنہ وہی ہو گا جو چوہتر سالوں سے ہوتا آیا ہے۔ یہ سال بہت اہم ہے۔ حکومت کو جہاں بڑے بڑے امتحانوں سے گزرنا ہے‘ وہیں اپوزیشن کو بھی اپنے کہے کی لاج رکھنی ہے۔ قومی اسمبلی میں منی بجٹ کا ہنگامہ برپا ہے۔ اگر یہ بل اسمبلی سے پاس ہو جاتا ہے تو پھر اس کے اثرات عوامی سطح پر نظر آئیں گے۔ مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکلیں گی اور اپوزیشن کو سیاست کرنے کا موقع ملے گا۔ کے پی میں بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ درپیش ہے۔ پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں بھی بلدیاتی الیکشن کا میلہ سجنا ہے اور الیکٹرانک ووٹنگ کی دوڑ دھوپ الگ ہے۔ میاں نواز شریف کی واپسی کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے، مریم نواز کے کیس کا فیصلہ ہونا ہے اور اگر فیصلہ حکومت کی توقعات کے برعکس آیا تو ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ پھر سے زندہ ہو جائے گا۔ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کی تاریخ قریب ہے اور پیپلز پارٹی بھی مہنگائی کے خلاف تحریک کا اعلان کر چکی ہے۔ اگر حکومت ان مسائل میں الجھی رہی تو عوام کی مشکلات کون کم کرے گا؟ مہنگائی کا قلع قمع کیسے ہو گا؟ ملک بھر میں اعلان کردہ میگا پروجیکٹس کون شروع کرے گا؟ معیشت میں گروتھ کیسے آئے گی؟ بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟ قرضوں سے جان کیسے چھوٹے گی؟ بیرونی سرمایہ کاری کیسے آئے گی اور ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد کیسے بحال ہو گا؟ برآمدات اور فی کس آمدنی میں اضافہ کیسے ہو گا؟ تجارتی خسارہ کون کم کرے گا؟ روپے کی بے قدری کیسے رکے گی اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کا راستہ کون بند کرے گا؟ تھانے کچہری میں عام آدمی کو انصاف کیسے ملے گا؟
خدارا! سیاستدان ہوش کے ناخن لیں۔ سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کے بارے سوچیں۔ چین ہمارے بعد آزاد ہوا تھا، آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور چین کہاں پہنچ چکا ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا، آج بھارت کی معیشت تین ہزار ارب ڈالر کو چھو چکی ہے اور ہم 296 ارب ڈالر پر رینگ رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو مل کر تجزیہ کرنا ہو گا کہ ہم پیچھے کیوں رہ گئے اور بنگلہ دیش جیسا ملک ہم سے آگے کیسے نکل گیا۔ ملائیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا اور متحدہ عرب امارات کی ترقی کا راز کیا ہے؟ ہمارے ہنرمند افراد ملک چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں ؟ہماری زراعت اور صنعت ترقی کیوں نہیں کر سکی؟ ہم سائنس اور آئی ٹی کے میدان میں باقی دنیا سے پیچھے کیوں ہیں؟ گوگل، فیس بک، ٹویٹر اور باقی سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے اعلیٰ عہدے داران پاکستانی کیوں نہیں ہیں؟ اور تو اور ہماری فلموں اور ڈراموں کا معیار دھڑام سے کیوں گر گیا؟ ہماری نئی نسل ادب اور شاعری سے بیزار کیوں ہو گئی؟ ہمارے عوام شدت پسندی کی جانب کیسے مائل ہوئے اور ہماری سیاست میں دشنام طرازی کی دھند کیوں چھا گئی؟ گالی، جھوٹ اور منافقت ہمارے رویوں کا آئینہ کیسے بنی؟ اور لسانی تفریق نے ہماری قومی یکجہتی کی سانسیں کیوں بند کر دی ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات ڈھونڈے بنا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور اگر ہم نے ایسے ہی قدم آگے بڑھا دیا تو پھر ماضی کا ناگ ہمیشہ ڈستا رہے گا۔ ہم چاہ کر بھی گزرے سال کی کالی چادر کو تن سے جدا نہیں کر پائیں گے۔
گزشتہ سال پاکستانیوں کے لیے ہنگامہ خیز رہا۔ قوم پر ہر دم مایوسی کے بادل چھائے رہے۔ مہنگائی اور بدانتظامی نے عوام کی زندگیوں میں طوفان برپا کیے رکھا۔ غریب‘ غریب تر ہوا اور امیر‘ امیر ترین۔ معیشت کی بدحالی لوگوں کے روزگار اور کاروبار کی جڑیں کاٹتی رہی۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ ایک اور سال بحرانوں کی نذر ہو گیا۔ چینی کی لائنیں، گندم کی ذخیرہ اندوزی، ادویات کی کمی، یوریا کھاد کا بحران، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور سب سے بڑھ کر ڈالر کی سمگلنگ‘ سارا سال یہ چیزیں عوام کا مقدر بنی رہیں۔ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد کی بلند ترین سطح پر رہی۔ ایک سال میں پٹرول 41 فیصد، ڈیزل 37 فیصد، گھی 54 فیصد، کوکنگ آئل 51 فیصد، آٹا 21 فیصد، بچوں کاخشک دودھ 40 فیصد اور بیکری اشیا کی قیمتوں میں 10 سے 100 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بجلی، گیس اور ادویات کی قیمتوں نے بھی ظلم ہی ڈھائے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں عوام سے ''جگا ٹیکس‘‘ لیا گیا اور اوور بلنگ نے عوام کے خوب ہوش اڑائے رکھے۔ مافیاز کے خلاف کارروائی کے نعرے لگائے گئے مگر دوسری طرف انہیں کھلی چھٹی بھی دیے رکھی گئی۔ وہ من مانی کرتے رہے اور عوام کی جیبیں کاٹتے رہے۔ کوئی گرفتاری ہوئی نہ کسی کو سزا مل سکی۔ دوسری طرف سیاست کا غبارہ بھی بار بار پھولتا اور پھٹتا رہا۔ کبھی لانگ مارچ کی صدائیں بلند ہوئیں تو کبھی اسمبلیوں سے استعفوں کا راگ الاپا گیا۔ کبھی اِن ہاؤس تبدیلی کی بازگشت سنائی دی تو کبھی میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی نوید سنائی گئی۔ عوام حکومت سے ناراض دکھائی دیے تو اپوزیشن سے بیزار۔
سالِ نو کی ابتدا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے گزرے ساڑھے تین سالوں کی جمع تفریق مکمل کرے۔ اگر عوامی مفادات کا پلڑا بھاری ہو تو ٹھیک ورنہ اپنی ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دے۔ ہمارا ماضی سیاہ تھا یا روشن‘ یہ اب گزر چکا۔ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ قوم کے قیمتی ساڑھے تین سال لاحاصل مشق میں ضائع ہو چکے۔ اب ہم مزید نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ احتساب کریں مگر سب کا! اپنا دیکھیں نہ پرایا۔ لوٹی دولت ضرور نکلوائیں مگر اپنے دور کا محاسبہ بھی کریں۔ وقت آ گیا ہے کہ اب ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے آج کی فکر کریں اور آنے والے کل کو بہتر بنائیں۔ مت بھولیں! ماضی دلدل کی طرح ہوتا ہے جو ایک بار اس میں پھنس جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے پھنس جاتا ہے۔ خدا کرے ہماری حکومت اس گرداب سے نکل پائے ورنہ نیا سال بھی ماضی کی دھول میں لت پت ہی گزرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں