الیکشن کا سال ؟

جیسے شکستہ پر پرندہ آسمان کی وسعتوں میں پرواز نہیں کر سکتا بالکل ویسے ہی عام آدمی اتنا طاقت ور کہاں ہوتا ہے کہ اقتدار کی حلاوتوں اور مسرتوں سے لطف اندوز ہو سکے۔ وہ تو فنا کی پرچھائیوں کو اپنے روبرو پا کر بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ وہ اچھے دنوں کی آس میں چوروں اور لٹیروں کو بھی برداشت کرتا ہے اور نااہلوں کو بھی۔ وہ غموں اور دکھوں کے دہکتے ہوئے آتش فشاں میں پڑا رہتا ہے مگر اُف تک نہیں کرتا۔
یہ تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے یا حکمرانوں کا جبر؟ کون جانے یہ عوام پر کیوں مسلط کر دیا جاتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے؟ کیا کوئی تاحیات سسک سسک کر جی سکتا ہے؟ کیا مضطرب روحیں قفس کی میخیں توڑنے پر قدرت نہیں رکھتیں؟ اگر ایسا ہوتا تو دنیا بھر میں ٹھہراؤ ہوتا، حرکت نہیں۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو انسان میں تبدیلی کی جبلت ہی نہ ہوتی۔ تاریخ کا فتویٰ ہے کہ کوئی بھی شخص دوسرے شخص کو حیلے بہانوں سے زیادہ دیر قائل نہیں رکھ سکتا۔ انسان تو من و سلویٰ سے بھی اُکتا گیا تھا سیاست کس کھیت کی مولی ہے؟ انسان کو تو ایک مخصوص وقت کے بعد اپنی صورت بھی معیوب لگنے لگتی ہے‘ حکمران آخر ایسا کیا کرتے ہیں جو بھلائے نہ جا سکیں؟
گمانِ غالب ہے کہ ہماری سیاست میں جو ٹھہراؤ تھا‘ وہ تمام ہوا۔ تبدیلی کا بغل بج چکا۔ انتخابات قریب ہیں‘ اتنے قریب کہ کبھی بھی ہو سکتے ہیں۔ اپوزیشن کے درجن سے زائد ارکان ببانگِ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ جنرل الیکشن 2022ء میں ہوں گے جبکہ حکومتی ترجمان آئندہ سال انتخابات کی نوید سنا رہے ہیں۔ اب عوام کس کی سنیں اور کس کو نظر انداز کریں‘ یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل امر ہے مگر کچھ اشارے ہیں جو اندھیرے سے روشنی کی جانب بڑھنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ آئیے! ان اشاروں کا تعاقب کرکے مستقبل کی صورت گری کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
(1) رواں سال الیکشن کی پہلی وجہ میاں نواز شریف کی جانب سے وطن واپسی کا عندیہ دینا ہے۔ مسلم لیگ نون بضد ہے کہ میاں صاحب واپسی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ وہ فوری طور پر نہیں مگر چھ ماہ کے اندر اندر وطن واپس آ سکتے ہیں۔ یہ اعلان بہت معنی خیز ہے۔ جو شخص اپنی جان بچا کر ملک سے گیا ہو‘ وہ دوبارہ جیل جانے کے لیے تو کسی صورت واپس نہیں آئے گا۔ میاں صاحب کی واپسی اسی صور ت میں ہو گی جب انہیں لگے گا کہ حکومت اب مکمل طور پر لاوارث ہو چکی ہے۔ کوئی ان کے کیسز کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرے گا نہ جیل میں ان کے ساتھ ناروا سلوک ہو گا۔ اگر وہ چھ ماہ میں واپس آئے تو یقینا قبل از وقت الیکشن کی ضمانت کے ساتھ آئیں گے۔
(2) منی بجٹ بھی حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ حکومت اس بل پر ووٹنگ کروانے سے گھبرا رہی ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ مہنگائی کے پتلے میں جان ڈالنے والے اس بل پر اتحادی اور ناراض ارکان ووٹ نہیں دیں گے۔ اس لیے بار بار قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور ختم کیا جا رہا ہے۔ پہلے اس بل پر بحث ہونی ہے اور پھر ووٹنگ۔ اگر یہ بل پاس نہ ہوا تو لیڈر آف دی ہاؤس کو اعتمادکا ووٹ لینا پڑ سکتا ہے۔ اگر اس بار یہ نوبت آئی تو عین ممکن ہے بات اعتماد کے ووٹ سے نکل کر نئے الیکشن کی جانب بڑھ جائے۔
(3) 2022ء میں الیکشن کی تیسری وجہ پی ڈی ایم کی خود اعتمادی ہے۔ مولانا فضل الرحمن جلسے جلوسوں میں اعتراف کر رہے ہیں کہ اب حکومت کو غیبی مدد میسر نہیں رہی‘ اس لیے مارچ میں ہونے والا لانگ مارچ کامیاب ہوکر رہے گا۔ میاں شہباز شریف بھی مطمئن ہیں اور دیگر جماعتیں بھی بڑی بڑی باتیں کر رہی ہیں۔ ایسا یقین، اتنا وثوق اور امید واثق پہلے پی ڈی ایم میں نظر نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے کہ کے پی کے بلدیاتی الیکشن کے نتیجے نے انہیں قوت بخشی ہو۔ اگر حکومت نے اگلے تین ماہ میں پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کروا دیے اور نتیجہ وہی نکلا جو تجزیہ کیا جا رہا ہے تو پھر پی ڈی ایم کا مردہ گھوڑا بہر صورت زندہ ہو جائے گا۔ اپوزیشن شہر شہر‘ گلی گلی احتجاج کرے گی‘ حکومت ملک میں امن و امان کی صورت حال پر سوالیہ نشان قرار دے گی اور بات بڑھ بھی سکتی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ اسی ہنگام میں عام انتخابات کا اعلان ہو جائے۔
(4) سب جانتے ہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے حکومت انتظامی کرائسس سے گزر رہی ہے۔ مہنگائی بارہ فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے جبکہ بنیادی ضروریات کی چیزوں پر مہنگائی 22 فیصد تک ہے۔ دوسری طرف حکومت منی بجٹ کے ذریعے 360 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے جا رہی ہے۔ ہر طرف مافیاز کا راج ہے۔ کہیں آٹا مافیا تو کہیں چینی مافیا۔ کہیں ادویات مافیا تو کہیں پراپرٹی مافیا۔ اس دور میں مافیاز کی چاندی ہو چکی ہے۔ کروڑ پتی ارب پتی ہو چکے اور ارب پتی کھرب پتی بن گئے مگر حکومت تمام تر کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پائی۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ معیشت حکومت کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔ چار بار اکانومی کی ٹیم تبدیل کی‘ ساری ترکیبیں لگا لیں، تمام حربے استعمال کر لیے مگر معیشت کی گاڑی چلنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر آنے والا دن گزشتہ سے بدتر ہو رہا ہے۔ پہلے لوگ دہائیاں دیتے تھے‘ اب معاملہ بددعائوں پر پہنچ گیا ہے۔ حالات ایسے ہی رہے تو حکومت کے لیے اگلے چھ ماہ گزارنے مشکل ہو جائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سردیوں میں گیس کا بحران تو جیسے تیسے گزر جائے گا مگر بجلی کی قیمت جتنی بڑھائی جا چکی ہے‘ گرمیوں میں عوام بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر ہوں گے۔ مہنگائی عوام کو گھروں میں ٹکنے نہیں دے گی۔ وہ اپنی مدد آپ کے تحت احتجاج کرتے نظر آئیں گے اور اپوزیشن کے جلسوں کی رونق بھی بڑھائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو نئے الیکشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
(5) مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگ مستقبل کی صورت دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ آخر جنرل الیکشن پہلے کروائے جائیں یا پنجاب میں بلدیاتی الیکشن۔ حکومت کا اپنا تھنک ٹینک مشورہ دے رہا ہے کہ 2022 ء کے اختتام پر انتخابات کروا دیے جائیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگست‘ ستمبر تک عوامی فلاح کے کچھ ایسے کام کیے جائیں جو نظر بھی آئیں۔ سٹرکوں، پلوں اور انڈرپاسز کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی نامکمل منصوبوں کو مکمل کیا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر‘ ہیلتھ کارڈ کو ہر گھر تک پہنچا دیا جائے۔ پھر بھلے الیکشن کا اعلان ہو جائے۔ حکومتی اکابرین آپس میں دبے دبے لفظوں میں یہ بات کرتے ہیں کہ معیشت اور مہنگائی اب ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ اگر الیکشن مقررہ وقت پر کروائے گئے تو مہنگائی مزید بڑھ چکی ہو گی۔ پھر حکومت کے لیے باقی ماندہ مقبولیت بچانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے قبل از وقت الیکشن کروا کر ایک بار پھرعوام کو نئے وعدوں کی آس دلائی جائے۔ عوام کو بتایا جائے کہ اگر مدت پوری کرنے دی جاتی تو مہنگائی ختم کر دیتے اور بیروزگاری بھی۔ علاج کی طرح تعلیم بھی مفت ہوتی اور معیشت بھی پھل پھول رہی ہوتی۔ مشورہ دینے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میعاد سے قبل ختم کر دی جائے تو یہ دوبارہ ہمدردی سے جیت سکتی ہے‘ کارکردگی سے نہیں۔
(6) اس سال الیکشن کی آخری اور سب بڑی وجہ حکومت اور طاقت ور حلقوں کے مابین تعلقات میں سرد مہری ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اب وہ گرم جوشی نہیں ہے جو کسی وقت ہوا کرتی تھی۔ حکومت اپنے کام میں مگن ہے اور ادارے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروفِ عمل۔ بظاہر سب اچھا ہے مگر سب اچھا ہرگز نہیں ہے۔ نومبر سے پہلے پہلے سیاسی حالات پر چھائی دھند چھٹ جائے گی۔ اگر حکومت نومبر تک یونہی چلتی رہی تو پھر اگلی حکومت بھی تحریک انصاف کے ہونے کے امکانات روشن ہو جائیں گے لیکن اگر نومبر سے پہلے الیکشن ہوئے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ البتہ الیکشن ایسے ہوں گے کہ کوئی دھاندلی کا الزام لگا سکے گا اور نہ ہی احتجاجی تحریک کی کال دے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں