عوام ٹیکس کیوں دیں؟

''ادھار لے کر ملک نہیں چلے گا۔ ٹیکس نادہندگان تک پہنچ چکے ہیں بس سوئچ آن کرنا باقی ہے۔ جلد ٹیکس چوری کرنے والوں کو بتائیں گے کہ ان کی آمدنی کتنی ہے، بینک میں کتنے پیسے ہیں، کہاں کہاں سفر کیا، ہمیں سب پتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہمارے پہنچنے سے پہلے خود ٹیکس جمع کرا دیں‘‘۔ یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے ہیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ عوام سے ٹیکس لیے بغیر کوئی بھی ملک نہیں چل سکتا۔ دنیا بھر میں جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے‘ اس میں ہمیں ایک بنیادی وجہ ٹیکس کا منظم نظام نظر آئے گی۔ عوام سے ٹیکس لے کر عوام پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ تعلیم ، صحت اور آمدورفت کی بہتر سہولتیں دی جاتی ہیں مگر پاکستان میں‘ باقی ہر شعبے کی طرح‘ یہاں بھی گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔ صرف تیس لاکھ پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں اور بائیس کروڑ عوام کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
کیا کبھی حکمرانوں نے سوچا ہے کہ عوام ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ پاکستانی سالانہ اربوں روپوں کی خیرات دیتے ہیں مگر ٹیکس دیتے ہوئے وہ ہاتھ کیوں کھینچ لیتے ہیں؟ اس کی اصل وجہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ عوام حکمرانوں پر بھروسہ نہیں کرتے‘ اس لیے ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ حکمران ٹیکس کے پیسے سے اپنے لیے عالیشان رہائش گاہیں بناتے ہیں ، نوکر چاکر رکھتے ہیں ، بڑی بڑی گاڑیاں خریدتے ہیں مگر عوام کو پینے کاصاف پانی بھی میسر نہیں ہو پاتا۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے61 فیصد علاقوں میں زیرزمین پانی جسم کے لیے خطرناک ہے جبکہ 80 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔ جب عوام بدبودار پانی پئیں گے تو ٹیکس کیسے دیں گے؟ جب سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو علاج کے بجائے دھکے ملیں گے تو پھر کون ٹیکس دے گا؟ جب سرکاری سکولوں میں معیارِ تعلیم ناقص ہوگا تو کون ٹیکس دے گا؟ جب کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر کوڑے کے ڈھیر بن جائیں گے تو کون ٹیکس دے گا؟جب ملک بھر کی رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوں گی تو کون ٹیکس دے گا؟ جب حکومت کے فور جیسا منصوبہ بیس سالوں میں بھی مکمل نہیں کر سکے گی تو کون ٹیکس دے گا؟ جب جان لیوا مہنگائی کے باعث عوام کی قوتِ خرید کم ہوتی جائے گی تو ٹیکس دینے کا خیال کیسے آئے گا؟ اگر حکومت کو عوام سے کوئی دلچسپی ہوتی تو کیاسانحۂ مری جیسے واقعات رونما ہوتے ؟ عوام پورادن مری کی برفباری میں پھنسے رہے مگر مجال ہے کہ حکومت خوابِ غفلت سے بیدار ہوئی ہو۔ محکمہ موسمیات کی طرف سے وارننگ ملنے کے بعد حکومت عوام کو مری جانے سے روک نہیں سکتی تھی تو انہیں طوفان آنے کے بعد وہاں سے نکال ہی لیتی۔ پھر خیال آتا ہے کہ نکالتی کیسے ؟ حکومت کے پاس نہ تو برف ہٹانے والی کرینیں ہیں اور نہ دیگر ضروری آلات۔ جب حکومتوں کی ترجیحات کا حال یہ ہو تو کون ان پر یقین کرے گا؟ کون انہیں ٹیکس دے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب صرف حکمران ہی دے سکتے ہیں۔
وزیرِ خزانہ کا بیان خوش آئند ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عوام حکمرانوں پر بھروسہ کرنے لگیں اور چند برسوں میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد تین سے چار گنا بڑھ جائے مگر ایک سوال تو وزیر خزانہ سے بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا انہوں نے کابینہ کے دیگر ارکان کو بھی ٹیکس دینے کے لیے قائل کیا ہے؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ کابینہ کے 90فیصد ارکان نہایت کم ٹیکس دیتے ہیں۔ کیا کسی نے ان کو گوش گزار کیا ہے کہ 2019ء میں وفاقی وزیر مراد سعید نے 86 ہزار جبکہ فہمیدہ مرزا‘ جو بدین میں ایکڑوں پر پھیلے گھر میں رہتی ہیں‘ نے صرف 98 ہزار روپے ٹیکس دیا ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے 62 ہزار روپے ، صاحبزادہ محبوب سلطان نے 67ہزار، حماد اظہر نے صرف 29ہزار اور علی امین گنڈاپور نے 67ہزار روپے انکم ٹیکس دیا ہے۔ کیا وزیرخزانہ کو حماد اظہر اور علی امین گنڈاپور کا لائف سٹائل دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا واجب الادا ٹیکس بس اتنا ہی بنتا ہے؟ اگرا نہیں اس سے بھی زیادہ جانکاری چاہیے تو لاہور کا چکر لگالیں یا ڈی آئی خان چلے جائیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ان کی شان و شوکت دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔ اور تو اور مخدوم خسرو بختیار نے ایک لاکھ 58ہزار روپے ٹیکس دے کر قومی خزانے کوبھرنے کی مقدور بھر جو سعی کی ہے‘ اس سے کون انکار کر سکتا ہے ؟
خسرو بختیار کا شمار ارب پتی سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ ان کا گھر ، گاڑیاں اور فیکٹریاں دیکھ لیں تو یقین کرنا محال ہو جاتا ہے کہ ایسا شخص اتنا کم ٹیکس دیتا ہو گا۔ کیا وزیر خزانہ نے کبھی وزیراعلیٰ پنجاب عثما ن بزدار سے پوچھا ہے کہ وہ صرف دو ہزار روپے ٹیکس کیوں دیتے ہیں ؟ اپنے قبیلے کے سردار ہیں ، اچھی خاصی جاگیر ہے اور آمدن بھی۔ مگر اتنا کم ٹیکس کیوں ؟ وزیراعظم صاحب نے 2015 ء میں 76ہزار ، 2016ء میں ایک لاکھ چون ہزار، 2017ء میں ایک لاکھ تین ہزار اور 2018 ء میں دو لاکھ بیاسی ہزار روپے کیوں ٹیکس دیا تھا ؟ 2019ء میں ایسا کیا ہوا کہ یکلخت انہوں نے 98لاکھ 54 ہزار روپے ٹیکس دے دیا ؟ سوال یہ ہے کہ کہیں پہلے ٹیکس کم تو نہیں دیا جا رہاتھا؟ وزیراعظم ہائوس کو اس کی بھی وضاحت کرنی چاہیے۔ بہر حال ایک بات تو طے ہے کہ اکیلے عوام نہیں‘ خواص بھی ٹیکس نہیں دیتے یا کم دیتے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں جب حکمران ہی ٹیکس نہیں دیں گے تو عام آدمی ٹیکس کیوں دے گا ؟ اگر حکمرانوں نے عوام سے ٹیکس لینا ہے تو پہلے انہیں خود ٹیکس دینا ہوگا۔ جب تک وہ عوام کے لیے مثال نہیں بنیں گے تب تک ٹیکس کلچر پروان نہیں چڑھ پائے گا۔ اگر حکمرانوں کو وطن کا مفاد عزیز ہے تو انہیں یہ کڑوا گھونٹ بھرنا ہوگا۔
چوہتر سالوں میں ایک بھی حکومت ایسی نہیں آئی جو ٹیکس کے نظام کو ٹھیک کرسکی ہو۔ جمہوری حکمران بھی اس بابت ناکام رہے اور آمرانہ حکومتیں بھی کچھ نہ کرسکیں۔ کیوں ؟ اس کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت بھی ہے۔ ووٹ مانگنے والے سیاستدان عوام سے زور زبردستی نہیں کرتے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں بھی مصلحت کا شکار ہوجاتی تھیں اور اب موجود ہ حکومت بھی اسی ڈگر پر ہے۔ ساڑھے تین سال بیت گئے حکومت تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لاسکی۔ ملک بھر کے بڑے بازاروں میں روزانہ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے مگر ٹیکس چیدہ چیدہ دکاندار ہی دیتے ہیں۔ اگر سارے تاجر ٹیکس دینے لگ جائیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ قوم پر قرضوں کا بوجھ کم ہوسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر معاشی ترقی کے لیے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
تحریک انصاف کی حکو مت آئی تھی تو یوں لگتا تھا تاجر ٹیکس دینا شروع ہو جائیں گے‘ ٹیکس سسٹم میں اصلاحات لائی جائیں گی مگر افسوس! تاحال ایسا نہیں ہوسکا۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی سیاسی مصلحت حاوی ہوگئی اور وقتی سیاسی مفاد سسٹم کی اصلاح کے جذبے پر غالب آ گیا۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ اس سے ذرا مختلف ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ عوام بالکل ٹیکس نہیں دیتے۔ بلاواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار ہے۔ بجلی، گیس، ڈیزل، پٹرول، ادویات ، گھر، گاڑی، کپڑے، جوتے اور کھانے پینے کی اشیا سمیت ہر شے پر عوام سے دن رات ٹیکس وصول کیا جاتا ہے مگر یوں گمان ہوتا ہے جیسے حکومت بلاواسطہ ٹیکسز کو ٹیکس ہی نہیں سمجھتی۔
حکومت نے عوام سے ٹیکس لینا ہے تو پہلے عام آدمی کی جان ، مال اور آبرو کی حفاظت کو یقینی بنانا ہو گا۔ مری جسے سانحات کی روک تھام کے لے ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ قدرتی آفات کو عذر بنا کر انتظامی غفلت کی عادت ترک کرنا ہو گی۔ اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو عوام کا اعتماد بحال ہو گا نہ کوئی ٹیکس دینے پر آمادہ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں