لانگ مارچ ہوگا یا عدم اعتماد؟

مشہور کہاوت ہے کہ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے‘ اُسے اپنے منہ پر مار ناچاہیے۔ ایسے وعدوں کا کون اعتبا ر کرے جو کبھی پورے ہی نہ ہوں اور ایسی کوشش کا کیا فائدہ جو وقت پر نہ کی جائے۔ سانپ گزر جائے تو بعد میں لکیر پیٹنے والے کو کیا کہا جاتا ہے؟ دکھ تمام ہو جائیں تو دوا دینے والے کو کون مسیحا پکارے گا؟ میاں نواز شریف نے جلد واپس آنے کا اعلان کیا تھا مگر تاحال کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ انہیں شاید اب کسی پر اعتبار ہی نہیں۔ جواد شیخ کا شعر ملاحظہ کریں:
میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں
ایک بات طے ہے کہ میاں نوا زشریف کے تما م رابطے بحال ہو چکے ہیں۔ اُن سے بھی جو میاں نواز شریف کو اچھا نہیں سمجھتے اور اُن سے بھی جنہیں میاں صاحب ناپسند کرتے ہیں۔ دونوں طرف سے پرانی رنجشیں بھلانے کی بات بھی ہوئی اور نئے وعدے وعید بھی کیے گئے۔ میاں صاحب نے عدم مداخلت کی بات منوائی اور دوسری طرف سے مستقبل میں انتقام کی آگ بجھائے رکھنے کا وعدہ لیا گیا۔ شنید ہے کہ تمام باتیں طے ہو چکی تھیں مگر پھر دو ماہ قبل‘ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا بل پاس کرانے کا موقع آ گیا۔ حکومت نے طاقتور حلقوں کو اپنے پرانے مراسم یاد دلائے اور مدد کی عرضی دے ڈالی۔ عرضی قبول ہو گئی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل پاس ہو گیا۔ مسلم لیگ نون کے عزائم کو جھٹکا لگا اور میاں صاحب کی واپسی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ یوں‘ ذرائع کے مطابق‘ بیس سے پچیس حکومتی ایم این ایز مسلم لیگ نون کی کشتی میں سوار ہوتے ہوتے رہ گئے۔ پھر بیٹھک ہوئی، گلے شکوے ہوئے اور دوبارہ ڈور وہیں سے جوڑی گئی جہاں سے ٹوٹی تھی۔ مسلم لیگ نون نے ایک بار پھر اعلانات شروع کر دیے کہ میاں صاحب واپس آنے والے ہیں۔ کبھی ایاز صادق نے لب کشائی کی تو کبھی میاں صاحب نے خود اشارے دیے۔ کبھی رانا ثناء اللہ گویا ہوئے تو کبھی میاں جاوید لطیف نے اندر کی کہانی بیان کی۔ اس بار میاں نواز شریف اور سیاست کے اصل کھلاڑیوں کے بیچ طے ہوا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لائیں گی اور کوئی بھی اس آئینی مرحلے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ میاں نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف اور کچھ پارٹی اکابرین کو اعتماد میں لیا اور عدم اعتماد کی راہ ہموار کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دے دی۔ اس کے بعد میاں شہباز شریف متحرک ہو گئے۔ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن پر اپنا اور اپنی جماعت کا ارادہ ظاہر کیا‘ سب حیران رہ گئے۔ بلاول بھٹو نے فوری ہامی بھر لی اور مولانا فضل الرحمن بھی قدرے تذبذب کے بعد ہم قدم ہو گئے۔ اب مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل پاس کرانے کا موقع آ گیا۔ حکومت نے اپنے اصل اتحادیوں کو بل کی نزاکت کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ اگر یہ دونوں بل پاس نہ ہوئے تو آئی ایم ایف ہمیں ڈیفالٹر قرار دے سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر مستقبل میں ہمیں قرض کون دے گا۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک بھی منہ پھیر لے گا اور جی 20 ممالک بھی۔ امریکہ ہمیں بھاؤ دے گا نہ کوئی اور ملک۔ اس لیے یہ دونوں بل پاس ہونا ناگزیر ہیں۔ حکومت کی استدعا کو ایک بار پھرشرفِ قبولیت ملا اور دونوں بل پاس ہو گئے۔ اپوزیشن نے خوب احتجاج کیا اور حکومت کی عددی برتری کو فون کالز کا کرشمہ قرار دیا مگر اسے بھرپور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پلوں کے نیچے سے پانی بہہ چکا تھا۔ اب سوائے پچھتاوے کے اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک بار پھر عدم اعتماد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ دوبارہ صف بندی کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ حکومت کے ناراض ایم این ایز سے منی بجٹ کو ووٹ کرنے کی وجوہات پوچھی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن کی صفوں میں مایوسی کے باد ل گھنے ہو رہے تھے کہ مسلم لیگ نون نے ایک بار پھر میاں نواز شریف کی واپسی کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی کے دعوے درست ہیں یا پھر ورکرز کو میٹھی گولی کھلائی جا رہی ہے؟ کیا ان دعووں کے پیچھے کوئی اندرونی ایجنڈا تو نہیں؟ کہیں ایسی باتیں کرکے تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ کے لیے اپنے ایم این ایز کا حوصلہ بڑھانا تو مقصود نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں مفروضے درست ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سوالات میری خام خیالی کا نتیجہ ہوں۔ کوئی تو مسلم لیگ نون سے پوچھے کہ میاں نواز شریف اب نہیں آئیں گے‘ تو کب آئیں گے؟ جب چڑیاں کھیت چُگ جائیں گی تو پھر ان کا آنا کس کام کا؟ اگر انہوں نے آنا ہے تو اب آئیں‘ سیاست میں ارتعاش لانا ہے تو اب لائیں، عوام کی بے فکری کا امتحان لینا ہے تو اب لیں۔ دیر کس بات کی ہے؟
وعدہ کرنا جتنا آسان ہے‘ اسے نبھانا اتنا ہی کٹھن اور جان لیوا ہوتا ہے۔ جو بھی میاں نواز شریف سے ملتا ہے واپسی پر ایک بات ضرور کرتا ہے کہ میاں صاحب پاکستان اور پاکستانی عوام کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ وہ مہنگائی سے ستائے ہوئے لوگوں کو فکروں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں مگر کیسے؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ کسی بڑی گارنٹی کے بغیر واپس آنا نہیں چاہتے اور حکومت انہیں واپس لانا نہیں چاہتی۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ دونوں ہی عوام کو سراب سے بہلا رہے ہیں۔ میرے نزدیک میاں نوا ز شریف کی واپسی کا اس سے بہتر موقع اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ مہنگائی عروج پر ہے‘ پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کی قیمتیں خوفناک حد تک بڑھ چکی ہیں‘ منی بجٹ پاس ہونے کے بعد ڈیڑھ سو سے زائد اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو پَر لگ چکے ہیں اور سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے بعد حکومت کا معیشت پر سے کنٹرول بھی کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں مہنگائی دوچند ہو گی تو عوام کی آہیں دور دور تک سنائی دیں گی اور ممکن ہے کہ لندن میں مقیم میاں نواز شریف تک بھی پہنچ جائیں۔
ایک اور ستم ملاحظہ کریں‘ حکومت نے نیا بیانیہ جاری کیا ہے۔ ایک وزیر موصوف فرما رہے تھے کہ ''سب سے زیادہ مشکل میں تنخوا ہ دار طبقہ ہے کیونکہ کمپنیاں ان کی تنخواہیں نہیں بڑھاتیں۔ آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو مہنگائی زیادہ لگتی ہے‘‘۔ ایسی منطق تو میکاؤلی بھی تراشنے سے گریز کرتا مگر موصوف نے ذرہ بھر بھی جھجک محسوس نہ کی۔ کتنی دیدہ دلیری سے کہہ دیا کہ عوام ہی مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اپنی آمدن سے زائد خرچے کرتے ہیں اسی لیے انہیں مہنگائی زیادہ لگتی ہے؛ یعنی عوام اخراجات کم کر لیں تو مہنگائی کم ہو جائے گی۔ واہ! کیا دلیل ہے۔ اس پر تو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
اگر مہنگائی بڑھانے کی ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے تو حکمرانوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھانے کے ذمہ دار بھی عوام ہی ہیں۔ ایسی باتیں کرنے سے قبل حکمرانوں نے کبھی سوچا کہ اگر عوام نے اپوزیشن کے لانگ مارچ کا رخ کر لیا تو حکومت کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ عوام سٹرکوں پر ہوں تو عدم اعتماد کا راستہ خود ہی کھل جاتا ہے۔ حکومت کے لیے اگلے تین ماہ بہت اہم ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لانگ مارچ پہلے ہوتا ہے یا عدم اعتماد۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں