مہنگائی کا گلا گھونٹیے!

عجب بے قراری، اضطراب اور بے بسی کا عالم ہے۔ کبھی جی کرتا ہے کہ قہقہے لگاؤں اور کبھی زاروقطاررونے کی خواہش دل میں امڈتی ہے۔ خوشی کا موقع ہے‘ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بے ساختہ جھوم اٹھتامگربے یقینی کے سائے پاؤں کی بیٹریاں بنے ہوئے ہیں۔ پپوسائیں زندہ ہوتے تو ڈھول بجا کر حکومت کو داد دیتے‘ ملکۂ ترنم نور جہاں ہوتیں تو ملی نغمے گا کر حکومت کا حوصلہ بڑھاتیں اور اگرمنیر نیازی آج بھی شعر لکھتے تو ضرور کوئی ایسا شعر کہتے کہ ساری قوم واہ واہ کراٹھتی مگر میں کیا کروں‘ مجھ سے تو اتنی زیادہ خوشی کا بوجھ اٹھایا ہی نہیں جارہا۔
ڈبو کے سارے سفینے قریب ساحل کے
ہے ان کو پھر بھی یہ دعویٰ کہ ناخدا ہم ہیں
جب سے وفاقی وزیر اسد عمر کا معیشت کی بہتری کے حوالے سے ٹویٹ نظر سے گزراہے اور حماد اظہر کی پریس کانفرنس سنی ہے مجھے مذکورہ بالا شعر بار بار یاد آرہاہے۔ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے حوالے سے نئے اعدادو شمار جاری کیے ہیں۔ حکومت کے مطابق مالی سال 2020-21ء میں ترقی کی شرح 5.37 فیصد رہی۔ صنعتی میدان میں ترقی کی شرح 7.8 فیصد، زراعت میں 3.5 فیصد جبکہ خدمات کے شعبے میں 5.7 فیصد گروتھ دیکھنے میں آئی۔ معیشت کاحجم 298 ارب ڈالر سے تجاوز کرکے 346 ارب ڈالر ہوگیا اور سب سے بڑھ کر‘ فی کس آمدنی بھی 1543 ڈالر سے بڑھ کر 1666 ڈالر ہوگئی۔ میری طرح آپ بھی حیران ہورہے ہوں گے کہ یہ کرشمہ کب اور کیسے ہوا؟ اتنی ڈھیر ساری ترقی پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہوئی‘ لوگوں میں گھل مل گئی اور عوام کو پتا بھی نہ چلا۔ اتنے بے خبر عوام بھلا اور کس ملک کے ہوں گے؟گھر بیٹھے ان کی فی کس آمدنی بڑھ گئی اورانہیں کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ ہے نا تعجب کی بات؟
اگر عوام اپنے معاشی حالات کی خبرگیری رکھتے تو آج حکوت کو خود آکر بتانے کی زحمت نہ گوارا کرنا پڑتی۔ عوام کو اتنی توخبر ہونی چاہیے تھی کہ ملک پانچ فیصدسے زیادہ ترقی کر رہاہے‘ ضرور ملک بھر میں کاروباری حالات بہت موافق ہوں گے۔ کتنے ہی نئے کاروبار کھلے ہوں گے اور کتنے ہی بند کارخانے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے ہوں گے، لوگوں کو روزگار کے وافر مواقع ملے ہوں گے، بینکوں کے باہر قرضہ لینے والوں کی لائنیں ہوں گی مگر مجال ہے عوام کو کوئی اطلاع ہو۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ کسی نے بھی حکومت کا''شکریہ‘‘ تک ادا نہیں کیا۔ جن عوام کواتنا بھی پتا نہ چلے کہ زراعت کا شعبہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہاہے‘ چھ سے زائد فصلیں پیداوار کا ریکارڈتوڑ چکی ہیں‘ آپ خود بتائیے کہ ایسے عوام کو کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
گاہے سوچتا ہوں کہ ملک بھر میں گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہو اور عوام پھر بھی مہنگے آٹے کی دہائیاں دے رہے ہوں، گنے کی اتنی فصل ہوئی ہو کہ فیکٹریوں کے پاس سٹور کرنے کی جگہ نہ ہو اور چینی پھر بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو‘ یقینا اس میں قصور عوام کا ہی ہو گاورنہ حکومت نے تو چینی، گندم، آٹا، ادویات اور اب یوریا مافیاز کے خلاف جتنی تقریریں کردی ہیں اگر ان میں تھوڑی سی بھی غیرت ہوتی تو وہ خود سرنڈر کردیتے۔ اب ایک نہتی حکومت کیا کیا کرے۔ ایک وقت میں تو ایک کام ہی ہو سکتا ہے۔ حکومت تقریریں کرے یا گرفتاریاں؟ مافیاز کو نکیل ڈالے یا اپوزیشن کی کرپشن بے نقاب کرے؟ عوام کو ریلیف دے یا اعداد و شمار کے دلفریب گراف اور چارٹس تیار کرے؟
میں یہ نہیں کہتا ہے کہ حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمارسراسر غلط ہیں اور حکومت ہیرا پھیری سے کام لے رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت نے جو دعویٰ کیا ہے وہ درست ہو مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب معیشت حقیقی معنوں میں ترقی کرتی ہے تو وہ نظر بھی آتی ہے۔ ترقی وہ ہوتی ہے کہ عوام خوشی میں بے قابو ہوکر تالیاں بجاتے ہیں۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امیر اور غریب کی معیشت میں تمیز کرنے سے قاصر ہے۔ اس وقت حکومت کی ساری توجہ انتہائی امیر آدمی کی معیشت پر ہے یا انتہائی غریب افراد کی۔ حکومت بڑے لوگوں کو مراعات اور سبسڈیز دیتی ہے جبکہ انتہائی غریب افراد کو لنگر خانے اور قیام گاہیں مہیا کرتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ حکومت مڈل کلاس اور تنخواہ دار آدمی کے دکھ اور کرب کو محسوس ہی نہیں کر رہی۔ حکومت امیر کے گھر میں چراغاں کرکے چاہتی ہے کہ غریب کی جھونپڑی خود بخود روشن ہوجائے۔ وہ پالیسیاں بڑے کاروبار ی شخصیات کے لیے بناتی ہے اور چاہتی ہے داد مڈل کلاس طبقہ دے۔ بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ جس کے بچے بھوکے سوتے ہوں‘ وہ تو چلائے گا۔ جس کا بجلی اور گیس کا بل اس کی تنخواہ سے زائد ہو جائے‘ وہ تو روئے گا۔ جو راشن لینے کے لیے روز لائن میں لگتا ہو‘ وہ تو واویلا کرے گا۔ ہسپتالوں اور سرکاری دفاتر میں جس کی عزت ِ نفس کا خیال نہیں رکھا جائے گا‘ وہ تو آہ وبکاکرے گا۔
میکاؤلی کہتا تھا کہ حکمرانی عوام پر حکم چلانے کا نام ہے مگر خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ حکمرانی کو عوام کی خدمت قرار دیتے تھے۔ اگر حکومت میکاؤلی کے خیالات سے متفق ہے تو پھر بحث کس بات کی مگر ریاستِ مدینہ رول ماڈل ہے اور فاروقِ اعظمؓ کی حکمرانی پیشِ نظر ہے تو حکومتِ وقت کواعدادوشمار کی سراب گاہ سے نکل کر اپنی خدمت ثابت کرنا ہوں گی۔ اسے عوام کے چہروں پر آنسوؤں کے بجائے مسکا ن لانا پڑے گی۔ سرِدست عوام کے حالات مخدوش ہیں۔ ہر طرف مہنگائی اور بدانتظامی کا راج ہے۔ کرپشن اور اقرباپروی عروج پر ہے۔ ہر شعبے میں مافیاز دندناتے پھرتے ہیں اور ان کوکوئی روکنے والا نہیں۔ جس طرح چہرہ دیکھ کر انسان کی صحت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے‘ اسی طرح عوام کے حالات کی جانکاری لے کر ملکی معیشت کے بارے میں رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ مئی 2018ء میں مہنگائی کی شرح 4 فیصد تھی جبکہ آج 12.3 فیصد ہے۔ ڈالر 115 روپے کا تھا اور آج 176 روپے سے زائد کا ہے۔ پٹرول 88 روپے فی لیٹر تھا اور آج 148 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ سونا ساٹھ ہزار روپے فی تولہ سے تجاوز کرکے سوا لاکھ تک کا ہو چکا ہے۔ بجلی کا یونٹ گیارہ روپے سے بڑھ کر 19 روپے پر جا پہنچا ہے۔ چینی 54 روپے سے 110 روپے فی کلو پر چلی گئی ہے۔ گھی 150 روپے فی کلو سے بڑھ کر 350 روپے کا ہو گیا ہے۔ آٹا 35 روپے سے 70 روپے پر چلا گیا ہے جبکہ ادویات، چاول، دودھ، دہی اور دیگر روز مرہ اشیا کی قیمتیں بھی سو سے چار سو فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں شرح سود 6 فیصد سے 9.75 فیصد ہو چکی ہے۔ گردشی قرضہ گیارہ سو ارب سے چھلانگ لگا کر 2419 ارب روپے پر پہنچ چکا ہے جبکہ حکومتی قرضہ 24 ہزار ارب سے بڑھ کر 41 ہزار ارب سے بھی زائد ہو چکا ہے۔ یہ ہے عوام کی اصل معیشت! اسی معیشت سے عوام کو روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ اگر حکومت کو عوام سے داد وصول کرنی ہے تو پہلے مہنگائی کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ مہنگائی ختم تو سمجھیں عوام کے سارے دکھ کافور۔
حکومت یاد رکھے‘ بھلے معیشت کا حجم تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے، بھلے ترقی کی شرح چودہ سالوں کی دوسری بلند ترین سطح پر ہو اور بھلے فی کس آمدنی کتنی ہی بڑھ جائے‘ عام آدمی کبھی خوش نہیں ہوگا۔ وہ اسی صورت میں خوش ہو گا جب اس کے گھر کا نظام ٹھیک چلے گا اور گھر کا نظام تب ٹھیک چلتا ہے جب مہنگائی کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ یہ ایک ایسا قتل ہو گا جو اب حکومت پر فرض ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں