اگر صدارتی نظام آگیا …

اگر کوئی شخص اپنے گھرکی دوسری منزل سے کود جائے اور اس کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں تو دوشی کون ہے؟اگر میٹھے کے بکثرت استعمال سے کسی شخص کو شوگر ہوجائے تو قصور کس کا ہوا؟اگر کوئی سر پھرا چلتی ٹرین کے نیچے آکر اپنی جان دے تو قتل کی ایف آئی آر کس خلاف کٹے گی؟ کیا کوئی اتنا ''عقل مند‘‘ ہوسکتا ہے جو ٹانگ‘ شوگر یا ٹرین کو موردِ الزام ٹھہرائے؟ اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں آپ کیا رائے قائم کریں گے؟ آج کل عوام ایک لایعنی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ پارلیمانی نظام میں ہے نہ صدارتی نظام میں‘ دونوں نظام دنیا بھر میں رائج ہیں اور دونوں نظام کامیاب ہیں اور قانونی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اصل مسئلہ نظامِ حکومت کا نہیں بلکہ مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کی اہلیت، صلاحیت اور قابلیت کا ہے۔ اگر کوئی بدلاؤ لانا ہے تو اس میں لائیں‘ باقی سارے جھگڑے خودبخود تمام ہو جائیں گے۔
گزرے تین سالوں میں بارہا صدارتی نظام کا ڈھول پیٹا گیامگر اس بار جو صدائیں بلند ہورہی ہیں‘ ان کی نوعیت قدرے مختلف ہے اور وجوہات ناقابلِ فہم۔ نجانے کیوں کچھ دل جلوں نے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم شروع کردی ہے۔ٹویٹر پر ٹرینڈزچل رہے ہیں اور فیس بک صارفین بھی کسی سے کم نہیں۔ یوٹیوب کے دانشوربھی اپنا چورن بیچنے میں مگن ہیں اور وٹس ایپ گروپس میں بھی خوب بحث و مباحثہ جاری ہے۔ خدا جانے کس کی خوشنودی کے لیے یہ لوگ متحرک ہیں اور کیوں چاہتے ہیں کہ پالیمانی نظام کو تالا لگا کر صدارتی نظام کی دکان سجا لی جائے۔ پارلیمانی نظام میں بھانت بھانت کے کیڑے نکالے جارہے ہیں جبکہ صدارتی نظام کو دلفریب اور رنگارنگ انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ میں یہ سمجھنے نے قاصر ہوں کہ اب ایسا کیا ہوا ہے کہ یکایک کچھ لوگوں کے دلوں میں پارلیمانی نظام کولپیٹنے کی خواہش انگڑائی لینے لگی ہے؟سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے طے کر لیا ہے کہ پارلیمانی نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے؟اگر جواب ہاں میں ہے تو اس ناکامی کا سہرا کس کے سر ہے؟جو لوگ پارلیمانی نظام میں ناکام رہے‘ وہ صدارتی نظام میں کیسے کام کریں گے؟کیا نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش تبدیلی سرکار کی ہے یا ایسے نعرے بلند کرنے والوں کی اپوزیشن ہمنوا ہے؟
واقفا نِ حال کہتے ہیں کہ اس بار نظام میں تبدیلی کی خواہش غیر سیاسی عناصر کے ساتھ ساتھ مسندِ اقتدار پر براجمان لوگوں کی بھی ہے۔ حکومت کے اکابریں بڑی بڑی محفلوں میں کہتے پائے گئے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں‘ قابل بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔ بڑے فیصلوں کا حوصلہ رکھتے ہیں اور اچھی ٹیم بنانے کی جرأت بھی‘ مگر کیا کریں؟ کہاں سے ٹیم لائیں؟ پارلیمانی پارٹی میں باصلاحیت لوگوں کی کمی ہے اور یہی کمی ہمارا عیب بن چکی ہے۔اب ان کی خواہش ہے کہ کسی طریقے سے ملک میں صدارتی نظام رائج ہو جائے۔ بقول ان کے‘ پھر دیکھیں کہ ہم کیسے تبدیلی لاتے ہیں‘ پھر نیا پاکستان بھی بنے گا اور قومی دولت لوٹنے والے جیلوں میں بھی ہوں گے۔ پچاس لاکھ گھر بھی دیں گے اور ایک کروڑ نوکریاں بھی ملیں گی۔ مافیاز کی گرفتاریاں بھی ہوں گی اور مہنگائی کا خاتمہ بھی۔ کراچی کو پانی ملے گا اور لاہور کی فضائی آلودگی بھی رفوچکر ہو جائے گی۔ غربت کو تو ایسے ٹھکانے لگائیں گے کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا بھی نہیں بچے گا۔ تھانہ کلچر تبدیل ہوگا اور پٹوار کا نظام بھی۔ سٹرکیں بنیں گی اور پل بھی۔ شہروں سے کوڑا اٹھائیں گے اور دیہاتوں کو پیرس بھی بنا ئیں گے۔ چینی کے لیے لائنیں لگیں گی نہ آٹا، گندم اور کھاد کی قلت پیدا ہو گی۔ غرض ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی۔ صدارتی نظام آنے کے بعد ماہرین کو وزارتیں دی جائیں گی اور ملکی معیشت کو پَر لگ جائیں گے۔سارے کاروبار پھلیں پھولیں گے اور روزگار کی فراوانی ہوگی۔کوئی جائے اور حکومت سے پوچھے کہ قوم اِن وعدوں پر یقین کیونکر کرے؟یہ وعدے تو پرانے ہیں، ساڑھے تین سالوں میں پورے نہیں ہوئے تو اب کیسے ہوں گے؟
پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ''جیہڑے لہور نکمے اوہ پشور وی نکمے‘‘ (جو لاہور میں ناکام رہے‘ وہ پشاور میں بھی ناکام ہی رہیں گے)۔ جو پارلیمانی نظام میں وعدے پورے نہیں کرسکے‘ وہ صدارتی نظام میں کیسے پرفارم کر سکیں گے؟پارلیمانی نظام کی خوبی یہ ہے کہ یہا ں ہر طرح کا شخص کام کر سکتا ہے مگر صدارتی نظام میں صرف قابل‘ باصلاحیت اور کامیاب افراد ہی امورِ حکومت چلا سکتے ہیں۔ سوچتا ہو ں کہ اگرواقعی صدارتی نظام آگیا تو پچانوے فیصد سے زائد حکومتی اکابرین کا کیا بنے گا؟
کون کہتا ہے کہ صدارتی نظام پاکستان کے لیے نیا ہے؟ کون کہتا ہے کہ ہماری قوم اس نظام کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف نہیں؟ 1947ء سے لے کر 1958 ء تک‘ ملک میں نیم صدارتی نظام رائج رہا۔ سارے اختیارات گورنر جنرل کے پاس تھے۔ وزیر اعظم تو محض دکھاوے کا عہدہ تھا۔ جسے چاہا لگا دیا‘ جب چاہا ہٹا دیا۔ اس کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے دس سال تک صدارتی نظام کی طرز پر حکومت کی۔ جنرل یحییٰ خان نے بھی اسی نظام کو اپنائے رکھا۔ جنرل ضیاء الحق بھی گیارہ سال تک نیم صدارتی نظام کے ذریعے ملک کی چولیں ہلاتے رہے۔ یہی نہیں! سویلین صدور اسحاق خان اور فاروق لغاری بھی نیم صدارتی نظام کی بہتی گنگا سے نو سال تک لطف اندوز ہوتے رہے۔ ان دونوں صدور نے دو بار محترمہ بے نظیر بھٹو اور ایک بار میاں نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا۔ پھر اقتدار کا ہما جنرل پرویز مشرف کے سر پر بیٹھا تو نو سال تک وہ بھی صدارتی نظام کی اندھی طاقت کا استعمال کرتے رہے۔
2010ء میں جمہوری قوتوں نے ہمت دکھائی اور آئین میں اٹھارہویں ترمیم کر کے پارلیمانی نظام کو بحال کیا۔ جمع تفریق کی جائے تو ملک میں نصف صدی تک غیر اعلانیہ طور پر نیم صدارتی نظام رائج رہا۔ سوال یہ ہے کہ اس نظام نے عوام کو دیا کیا ہے‘ جو اب اسے اعلانیہ طور پر قبول کر لیا جائے؟ بھارت کے ساتھ دو جنگیں انہی ادوار میں ہوئیں‘ ملک دولخت ہو گیا، اسّی کی دہائی میں امریکی خوشنودی کے لیے سوویت یونین کو ناراض کیا، افغانستان سے اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ کا آغاز ہوا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن کر اسّی ہزار سے زائد پاکستانیوں کو شہید کرایا اور ملکی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان الگ برداشت کرنا پڑا۔ انہی ادوار میں آئین سرعام پامال ہوتا رہا اور قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ ججز کو نظربند کیا گیا اور ہراساں بھی۔ منتخب وزرائے اعظم سلاخوں کے پیچھے گئے اور پھانسی گھاٹ بھی۔ تمام طاقتور صدور جو چاہتے تھے‘ وہ کر گزرتے تھے۔ عوام کی منشا کا خیال رکھا جاتا تھا اور نہ ہی ووٹ کی حرمت کا۔ میرے نزدیک صدارتی نظا م کی بحث بے وقت کی راگنی ہے۔ جو حکومتی اکابرین اس تکرار کو ہوا دے رہے ہیں انہیں ادارک ہی نہیں کہ وہ اصل میں اپنی صلاحیتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ پارلیمانی نظام کی ناکامی کا مطلب ہے کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے اور حکومت صرف وزیراعظم آفس کو نہیں کہتے بلکہ کابینہ کو کہتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ عوامی مسائل پر توجہ دے۔
پاکستان شماریات بیورو کے مطابق‘ موجودہ حکومت میں بے روزگاری کی شرح 5.8 فیصد سے بڑھ کر 6.9 فیصد ہو چکی ہے۔ مہنگائی 13 فیصد سے زائد ہے جس کے باعث ذہنی امراض میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 23 لاکھ لوگ ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں اور ایک کروڑ سے زائد منشیات کے عادی۔ یہ تعداد خوفناک شرح سے بڑھ رہی ہے۔ نجانے حکومت صدارتی نظام کی بحث سے نکل کر حقیقی مسائل پر توجہ کب دے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں