کرپشن،عوام اور حکمران

اکھاڑے میں لڑنے والے میدانِ جنگ میں کبھی سرخرو نہیں ہوتے۔ اکھاڑے میں کھلاڑی اترتے ہیں جبکہ میدانِ جنگ میں جنگجو۔ جنگجو اکھاڑے میں کارکردگی نہیں دکھا سکتے اور کھلاڑی میدانِ جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دونوں کے میدان بدل جائیں تو شکست نوشتۂ دیوار ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک جتنی جلدی ہوجائے‘ نقصان اتنا کم ہوتا ہے۔
دوسروں پر تنقید کرنا جتنا سہل ہے خوداحتسابی اتنا ہی مشکل امر۔ آپ ہر کٹھن اور جان لیوا کام کرسکتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہمت نہیں کرتے۔ اگر آپ حقیقت کا سامنا کرنے کی روش اپنا لیں تو پھر کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔ سادہ سا فارمولا ہے‘ اگر آپ کے دل میں امیر ہونے کی خواہش ہے توپہلے آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ غریب ہیں۔ اگر آپ زندگی بھر سچ بولنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو ادراک کرنا ہوگا کہ آپ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اگر آپ ایماندار ی کا تاج سر پر سجانے کے آرزو مند ہیں توپہلے آپ کو ماننا ہوگا کہ آپ بے ایمانی کرتے ہیں۔ چند روز قبل ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی۔اس کے مطابق‘ پاکستان میں بدعنوانی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ہمارا سکور سولہ درجے تنزلی کے بعد 124نمبر سے 140پر چلا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں کرپشن کا بڑھنا میرے لیے حیرت اوردکھ کا مقام ہے مگر اس سے زیادہ دکھ حکومتی رویے پر ہوا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو کھلے دل سے قبول کرتی اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا عزم ظاہر کرتی مگر افسوس! ایسا نہیں ہوا۔ حکومت نے بنا سوچے سمجھے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو متنازع بنانا شروع کر دیا۔ کسی نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا سر ہے نہ پاؤں‘ یہ رپورٹ منظم مافیا کا کارنامہ ہے۔کوئی بولا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میںمالیاتی کرپشن کا تذکرہ تک نہیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان میںقانون کی حکمرانی میں تنزلی ہوئی ہے‘ کسی کو نہیں پتا کہ وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں۔ کسی نے پریس کانفرنس کرکے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی شفافیت پر ہی سوالات کھڑے کردیے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے اُسے جھٹلا دیا گیا۔کیا 'میں نہ مانوں‘کی پالیسی اپنانے سے ملک میں کرپشن کا تاثر ختم ہوجائے گا؟ کیا رپورٹ کا انکار کرنے سے پاکستان 140 نمبر سے دوبارہ 117 نمبر پر چلا جائے گا؟حکومت کو چاہیے تھا کہ ان وجوہات‘ ان اسباب کا سد با ب کرتی جوملک میں کرپشن کو ہوادے رہے ہیں مگر وہ حکومت ہی کیا جو اپنی غلطیوں کو سدھار لے۔ وہ حکمران ہی کیا جو اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبا نے کی سعی نہ کریں۔
گزشتہ چند دنوں سے حکومت ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔حکومت کہتی ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں حکومتی کرپشن کی نہیں بلکہ State Capture اور قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی بات کی گئی ہے۔کیا ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہے کہ State Capture کس بلا کا نام ہے؟ State Capture کون کرتا ہے اور کیوں؟ورلڈ بینک نے State Capture کی تعریف کچھ ان الفاظ میں کی ہے ''ایسے حالات جن میں بدعنوان عناصر حکومتی اہلکاروں اور فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہوں اور مخصوص پروجیکٹس سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ ایسی صورتحال کو State Captureکہتے ہیں‘‘۔ کیا حکومت اس بات سے انکار کرسکتی ہے کہ گزرے ساڑھے تین سالوں میں مخصوص کرپٹ افراد حکومتی فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوئے؟اگر یادداشت ساتھ نہ دے تو چینی کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیں‘ سارے عقدے کھل جائیں گے۔ رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ چینی مافیاز نے کیسے حکومت سے سبسڈی لی، کیسے سٹہ کھیلا اور کیسے چینی کی قیمت 54روپے سے 120روپے تک لے گئے۔ہوسکے تو راولپنڈی کے رِنگ روڈ سکینڈل کی رپورٹ بھی پڑھ لیں۔ State Capture کیا ہوتا ہے‘ ساری سمجھ آجائے گی کہ مافیاز نے کیسے رِنگ روڈکاروٹ تبدیل کروایا، کیسے رہائشی سکیموں نے عام لوگوں کی جیبیں کاٹیں اور کیسے حکومتی شخصیات مافیاز کی آلہ کار بنیں۔ یہی نہیں‘ آٹا سیکنڈل ہو یاپٹرول سکینڈل‘ گندم کی سمگلنگ کا کیس ہو یا ایل این جی کی درآمد کا‘ ہر سکینڈل State Capture کی بدترین مثال ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کیسے دیدہ دلیری سے State Capture کی داغ اپنے دامن سے صاف کر سکتی ہے۔
حکومت دوسری بات قانون کی حکمرانی کی تنزلی کی کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا کوئی محکمہ یا ادارہ حکومت سے بالاتر ہوسکتا ہے؟حکومت کے پاس پارلیمنٹ کا فورم ہے‘ وہاں قوانین بنائے اور بدلے جاتے ہیں۔نجانے کیوں حکومت محتاجی کا مظاہرہ کر رہی ہے؟ حکومت چاہے تو ہر کا م ہوسکتا ہے مگر حکومت یہاں بھی اپنے حصے کی ذمہ داری عدلیہ پر ڈالنے کی کوشش میں لگی ہے۔ آج کل وزیراعظم صاحب اور ان کی کابینہ کبھی سٹے آرڈرز کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی ضمانتوں پر گلہ گزار ہوتے۔ اب مسند ِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو کون بتائے کہ عدالتیں ثبوت اور شواہد دیکھتی ہیں‘ خواہشیں نہیں۔ گواہ طلب کرتی ہیں‘ کاغذوں کے پلندے نہیں۔
حکومت کیوں بھول جاتی ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہ رپورٹ اپنے ڈیٹا سے نہیں بنائی بلکہ آٹھ بین الاقوامی اداروں کا ڈیٹا استعمال کرکے رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ آٹھ میں سے پانچ اداروں نے پاکستان کی ریٹنگ میں تبدیلی نہیں کی مگر تین اداروں کی رپورٹ میں تنزلی دیکھنے میں آئی۔ Economist Intelligence Unit Country Risk Service 2021 نے پاکستان کا سکور 37سے کم کرکے 20 کیا ہے۔ اس ادارے نے آٹھ سوالات اٹھائے تھے جن میں حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی (1)کیا پبلک فنڈز کی ایلوکیشن اور استعمال کا درست طریقہ اپنایا گیا؟ (2) کیا وزرا نے پبلک فنڈز کا ٹھیک استعمال کیا؟ کہیں فنڈز کو پارٹی یا پرائیویٹ مقاصد کے لیے استعمال تو نہیں کیا گیا؟ (3) کیا خصوصی فنڈز کا آڈٹ کیا گیا؟ (4) کہیں پبلک وسائل کا غلط طور پر استعمال تو نہیں کیا گیا؟ (5) کیا سول سروس میں پروفیشنل لوگ ہیں اور کیا انہیں حکومت نے تعینات کیا؟ (6) کیا پیسے کے استعمال کا آزادانہ طور پر آڈٹ کیا گیا؟ (7) کیا مختلف منصوبوں کے کنٹریکٹ لینے کے لیے رشوت تو نہیں دی گئی؟ (8) کیا عدلیہ نے وزرا اور دیگر حکومتی اہلکاروں کا احتساب کیا؟ آپ خود فیصلہ کریں کہ جس ادارے کو ان آٹھ سوالوں کے مثبت جواب نہ ملیں تو وہ ادارہ کیا رپورٹ لکھے گا؟ وہ ملک میں بڑھتی کرپشن کو کیسے نظر انداز کرے گا؟ کیا یہ آٹھ سوالات State Capture کے زمرے میں نہیں آتے؟ اگر آتے ہیں تو پھر حکومت اس کا ادراک کیوں نہیں کر رہی؟ یہی نہیں‘ دو اور ادارے ہیں جنہوں نے پاکستان کی ریٹنگ کو کم کیا ہے۔ ایک ''ورلڈ اکنامک فورم‘‘ اور دوسراVarieties of Democracy۔ پہلے ادارے نے پاکستان کی ریٹنگ 43 سے گھٹا کر 41 کی جبکہ دوسرے نے 22 سے گرا کر 20 کر دی۔ ان دونوں اداروں نے بھی کرپشن، رشوت، رقوم کی زائد ادائیگیوں، پبلک سروس کرپشن انڈیکس اور حکومتی کرپشن انڈیکس جیسے سوالات پیشِ نظر رکھے تھے۔ یہاں بھی حکومتی کارکردگی خاطر خواہ نہیں تھی‘ اس لیے کرپشن کاگراف بڑھا۔
تاریخ گواہ ہے جب بھی ملک میں کرپشن اوپر جاتی ہے تو حکومت کی مقبولیت پاتال میں گر جاتی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وزیراعظم صاحب کیوں کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت سے نکلے تو سٹرکوں پر آ جائیں گے‘ پھر وہ زیادہ خطرناک بھی ہوں گے اور متحرک بھی۔ کوئی تو حکومت سے پوچھے کہ عوام اس کا ساتھ کیوں دیں گے؟ کیا حکومت عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئی؟ اگر نہیں تو پھر عوام سے کوئی امید باندھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں