چنگیز اور ہلاکو کی روحیں

آج پانچ فروری ہے یومِ یکجہتیٔ کشمیر۔ ہم یہ دن گزشتہ 33 سالوں سے منا رہے ہیں۔ ملک بھر میں سرکاری سطح پر چھٹی ہوتی ہے اور پوری قوم تھکن دور کرتی‘ رشتہ داری اور یاری دوستی نبھاتی ہے۔ ہاں البتہ! چند سر پھر ے نوجوان یا درجن بھر نظریاتی لوگ کشمیری بھائیوں سے یکجہتی اور ہمدردی کے لیے گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔ چند بڑے شہروں کی بڑی شاہراہوں پر ریلیاں نکالتے ہیں، بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہیں، کشمیری بھائیوں کی قربانیوں کو سراہتے ہیں اورگھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی تقریبات منعقد ہوتی ہیں مگر برائے نام۔ صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور گورنرز اپنے اپنے بیانات جاری کرتے ہیں اور پھر دن بھر سرکاری چھٹی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کشمیر ڈے کی ابتدا سے اختتام تک یہی کہانی ہے اور اتنے ہی کردار۔
کشمیر کے مقدمے کے مدعی کشمیری عوام ہیں اور ہم وکیل‘ مگر کتنے دکھ کی بات ہے کہ دنیا ہماری بات پر توجہ ہی نہیں دے رہی اور ستم یہ کہ ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں۔ ہم جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں اس کا ہمیں پتا ہی نہیں کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ کون جانے اس کی اور ہماری منزل ایک ہے بھی یا نہیں؟ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان میں ایک خوبی ہے کہ وہ کبھی بھی مسئلہ کشمیرسے صرفِ نظر نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کا اجلاس ہو یا غیر ملکی میڈیا کو دیا گیا انٹرویو‘ وزیراعظم صاحب کشمیر کی بات ضرورکرتے ہیں، ہندوتوا نظریے کو بے نقاب کرتے ہیں اور مودی سرکار کی مسلم اور انسان دشمنی کا پردہ چاک کرتے ہیں مگر کیا اتنا کافی ہے؟ کیا اس ڈگر پر چل کر ہم مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرا سکتے ہیں؟ کیا لاکھوں معصوم کشمیریوں کی شہادت اور ہزاروں خواتین کی عصمت دری کا دکھ ہم ایسے بھلا سکتے ہیں؟ کیا صرف تقریروں سے ہم کشمیر کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑ سکتے ہیں؟ کیا دہائیوں پہلے اقوامِ متحدہ میں جیتی ہوئی جنگ کو ہم دوبارہ اپنے نام کر سکتے ہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو کرتے کیوں نہیں؟ ہم اپنے ضمیر کی عدالت میں سوال کیوں نہیں اٹھاتے کہ آخر کب تک مسلم اُمہ اور اقوام عالم خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہیں گے؟ دنیا بھر کا ضمیرجگانے کے لیے اور کتنی شہادتیں چاہئیں اور کتنی بیٹیوں کی حرمت پامال ہو گی؟ کیا کوئی ہے جو بتا سکے؟ کیا کوئی ہے جو بھارت کے مظالم کا چرچا دنیا بھر میں کر سکے؟ پوری دنیا ایک طر ف‘ ہم تو مسلم اُمہ کو بھی اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے۔ کیوں؟ اس وقت چند ایک ممالک کے سوا کون ہے جو کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ کھڑا ہو۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور اپنی اپنی مجبوریاں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ بھارت مسلم اُمہ کے لیے اتنا اہم کیسے ہوگیا؟ اقوام متحدہ نے انڈیا کے سامنے گھٹنے کیوں ٹیکے ہیں؟ امریکا، روس، فرانس اور برطانیہ جیسی بڑی طاقتیں بھارت کے اتنے نخرے کیوں اٹھاتی ہیں؟ اس کی وجہ بھارت کی معیشت اور تجارت ہے۔ عالمی طاقتوں کے انڈیا کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں اور مسلم ممالک کے بھی۔ وہ انڈیا کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اس لیے کشمیر کے معاملے پر ہمیشہ ہمیں ہری جھنڈی دکھاتے ہیں۔ کیسا بے حسی کا عالم ہے کہ انسانی حقوق کو معاشی گٹھ جوڑ کے ساتھ تولا جاتا ہے۔ کسی کا ضمیر جاگتا ہے نہ بھارتی لاقانونیت کا واویلا ہوتا ہے۔ پوری دنیا نے بھارت کے سامنے نظریں جھکا رکھی ہیں۔ بے قصور لوگ مرتے ہیں تو مریں‘ کرفیو اور لاک ڈائون سے بیماروں کی سانسیں رکتی ہیں تو رکیں‘ ہر روز ریپ ہوتے ہیں تو ہوں‘ ماؤں کی گودیں اجڑتی ہیں تو اجڑیں اور پھولو ں جیسے بچے یتیمی کے آتش دان میں جلتے ہیں تو جلیں۔ کسی ملک کو بھی اس بدترین صورتحال کا احسا س ہے نہ غم۔ساری دنیا بے حسی کی چادر تانے سو رہی ہے اور افسوس یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے پر جاگنا بھی نہیں چاہتی۔ دنیا کا یہ روپ چنگیز خان اور ہلاکو خان سے بھی بدتر ہے۔ کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے اور لاشوں کے ڈھیر پر رقص کرنے والے بھی کشمیر سے لاتعلقی برتنے والوں کے سامنے ہیچ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم بھارت کے مقابلے میں پیچھے کیوں ہیں؟ دونوں ممالک اکٹھے آزاد ہوئے تو پھر وہ آگے کیسے نکل گیا؟ بھارت کی معیشت تین ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے اور ہم347 ارب ڈالر پر ہی رینگ رہے ہیں‘ آخر کیوں؟ سارا کھیل معیشت کا ہے اور ہم اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ دنیا ہمارے بیانیے کو اس لیے عزت نہیں دیتی کہ ہم معاشی طور پر کمزور ہیں۔ ہم بڑی تجارتی منڈی ہیں نہ دنیا ہمیں اپنی کمزوری سمجھتی ہے۔ ہم معیشت کے ایسے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں کہ اس مصیبت سے نکلنے کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ہر تین‘ چار سال بعد ہمیں آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر جاکر بیٹھنا پڑ جاتا ہے، جی 20 ممالک کے سامنے اپنی معاشی بے بسی کا رونا رونا پڑتا ہے اور سب سے زیادہ دوست ممالک کو دکھڑا سنانا پڑتا ہے‘ تب جا کر قرض ملتا ہے اور ہمارا بجٹ خسارہ پورا ہوتا ہے، بیرونی ادائیگیاں ہو پاتی ہیں اور قرض کی اقساط اتاری جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے ہماری معیشت قرضوں کے سہارے کھڑی ہے اور اب یہ بوجھ ہماری سکت سے بڑھ چکا ہے‘ مگر کیاکریں حکومتوں کو اس کا ادراک ہی نہیں۔ وہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے قرضوں کا بوجھ بڑھائے چلے جا رہی ہیں۔ ہمارا قرضہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ دنیا اب ہمارا احترام کرنے کو تیار نہیں۔ آ پ خود فیصلہ کریں‘ چند ماہ قبل سعودی عرب نے جن کڑی شرائط پر قرضہ دیا تھا کیا وہ شرائط دونوں ممالک کی دوستی کو روندنے کے لیے کافی نہیں تھیں؟ آئی ایم ایف نے قرض کی ایک ارب ڈالر کی قسط کے لیے جو شرائط رکھی تھیں‘ کیا وہ ہمارے شایانِ شان تھیں؟ جس طرح ہم نے آئی ایم ایف کے سامنے سر نگوں کیا‘ کیا کوئی اور ملک ہوتا وہ بھی ایسا ہی کرتا؟ عالمی ادارے کے اصرار پر ہم نے ریاستی بینک کو حکومت سے الگ کر دیا، عوام پر 350 ارب سے زائد کے ٹیکسز لگا دیے، ترقیاتی بجٹ میں دو سو ارب کی کٹوتی کر دی، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا دیں۔دنیا بھر نے دیکھا کہ ہمارے رہنما ہونے کے دعویدار اخلاقی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام میں ہمیں جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا‘ اس سے پہلے شاید ہی ایسا ہوا ہو۔ ہمارا قومی وقار جو مجروح ہوا وہ ایک طرف‘ قرضوں کے بوجھ نے ہمیں لاچار بھی کر دیا ہے۔
اگر ہم مسئلہ کشمیر کے ساتھ سنجیدہ ہیں توہمیں دن رات ایک کرکے اپنی معیشت کو دوام دینا ہو گا۔ ہم معاشی طور پر مضبوط ہوں گے تو ہی دنیا ہماری پکار سنے گی اور اس پر آنسو بھی بہائے گی۔ میرا احساس ہے کہ اگلے پچیس سال بہت اہم ہیں‘ اگر ہم نے کشمیر کا مسئلہ اس عرصے میں حل کرا لیا تو ٹھیک‘ ورنہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر جائے گا۔ چوہتر سالوں میں دو نسلیں گزر گئیں‘ مزید ایک نسل کشمیر کو آزاد نہ کرا سکی تو پھر جو صورتِ حا ل بنے گی‘ اس کا اندازہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا تیز ی سے ترقی کر رہی ہے‘ نئی نسل کے مسائل بھی نئے ہوں گے۔ کیا وہ دہائیوں پرانے مسائل کے حل کے لیے اپنی کوششیں اور توانائیاں صرف کرے گی؟ کیا وہ پچھلے وقتوں کے مسائل کو وقت دے پائے گی؟ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے ہم نظریں بھی نہیں چرا سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں