سب کو متنازع نہ بنائیں

کون کہتا ہے کہ حکومت صلاحیتوں سے عاری ہے؟ کون کہتا ہے کہ حکومت ناکامی کی دلدل میں دھنس چکی ہے؟ آپ کو حکومت کی کامیابیوں کے حوالے سے معلومات درکار ہوں تو حکومتی ترجمانوں کو سنیں، لاعلمی کے سارے بادل چھٹ جائیں گے اور مایوسی کے ناگ ڈسنا چھوڑ دیں گے۔ حکومت کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ یہ دن کو رات اور رات کو دن دکھا سکتی ہے۔ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کا منتر بھی اسے خوب آتا ہے۔ انصاف کی تحریک کا علم اٹھانے والے جب سے مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں کسی بھی معاملے کو متنازع بنانا اب کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ کوئی ادارہ ہویا محکمہ‘ کوئی سرکاری افسر ہو یا سیاستدان‘ کسی کے رتبے کا لحاظ رکھا جاتا ہے نہ عہدے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ حکومتی اکابرین ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ اپوزیشن چور ہے اور بیورو کریسی ان کی ہمنوا۔ بڑی کاروباری شخصیات مافیاز کا روپ دھارے ہوئے ہیں اور پولیس ان کی سہولت کاری میں مگن ہے۔ جیسے جیسے حکومت اپنی مدت پوری کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے‘ ویسے ویسے بہانے، عذر اور الزام تراشیاں دوچند ہو رہی ہیں۔ ہرکوئی پروپیگنڈا کرنے میں مگن ہے، کوئی واقعہ ہو جائے یا کوئی حکومت مخالف خبر آ جائے‘ اس کا ایسا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے کہ اصل خبر کہیں گم ہو جاتی ہے اور عوام کے حصے میں صرف کنفیوژن آتی ہے۔ وہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ نااہلی کس بلا کا نام ہے اور چوری کا نقصان کیا ہے۔ ملک کے لیے نااہلی زیادہ خطرناک ہے یا قومی دولت کی چوری؟ معیشت کو برباد کرنے والے کون ہیں اور اکانومی کو سہارا دینے والے کون؟ مہنگائی کی وجہ سابق حکومتیں ہیں یا موجودہ حکومت؟ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار مسلم لیگ نون ہے یا تحریک انصاف؟ مہنگائی کا تعلق عالمی مارکیٹ سے ہے یا حکومتی بدانتظامی سے؟ ملک بھر کی رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو کیوں؟ وفاقی اور صوبائی وزرا قابل زیادہ ہیں یا فرمانبردار؟ وزیراعلیٰ پنجاب زیادہ 'باصلاحیت‘ ہیں یا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا؟ یوں گمان ہوتا ہے کہ ہر طرف کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے اور اس کا سہرا چند حکومتی ترجمانوں کو جاتا ہے۔ یقین مانیں کہ کنفیوژن اتنی بڑھ چکی ہے کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ اس صورتِ حال کا حکومت کوکریڈٹ دوں یا اسے موردِ الزام ٹھہرا کر اس پر فردِ جرم عائد کروں؟
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کیا ہوا اگر حکومت اپنے انتخابی منشور پر عمل نہیں کر سکی، کیا ہوا اگر بدانتظامی اور مہنگائی نے حکومت کے چہرے سے نقاب اتار دیا ہے، کیا ہوا اگر عوام کو دکھائے گئے خواب‘ خواب ہی ثابت ہوئے، اس دور میں اتنا تو ہوا کہ اب کوئی مقدس گائے نہیں رہا۔ سب قابلِ گرفت ہیں۔ کسی کو سرکار ہتھکڑیاں لگا دیتی ہے تو کوئی سوشل میڈیا پر بیٹھے جتھوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ کسی کے خلاف حکومت برسرِپیکار ہے تو کسی کے خلاف اپوزیشن۔
چلیں اپوزیشن کا تو کام ہی تنقید کرنا ہے مگر حکومت ایساکیوں کرتی ہے‘ کوئی نہیں جانتا۔ یہ ایسی پہیلی ہے جس کو بوجھنا تقریباً ناممکن ہے۔ یاددہانی کے طور پر چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں کہ کب‘ کب حکومت نے کس‘ کس کو اور کیوں متنازع بنایا۔
(1) گزرے چند ماہ سے حکومت نے نجانے کیوں عدلیہ کے خلاف محاذ گرم کر رکھا ہے۔ کبھی نواز شریف کی واپسی کو لے کر ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور کبھی سٹے آرڈرز پر زبانی فردِ جرم عائد کی جاتی ہے۔ وزیراعظم صاحب تقریباً ہر تقریر میں قانون کی حکمرانی اور امیر و غریب کے لیے انصاف کے دو پیمانوں کی بات کرتے ہیں۔ کچھ روز قبل بھی انہوں نے فرمایا تھا: بڑے بڑے مافیاز جاکر سٹے آرڈرز لے لیتے ہیں۔ اس وقت آٹھ سو سٹے آرڈرز کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔ صرف ایف بی آر کے ڈھائی ہزار ارب روپے کے کیسز عدالتوں میں پھنسے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سٹے آرڈرز لینے کا رواج اس دورِ حکومت میں پڑا ہے یا چوہتر سالوں سے یہ رِیت چلی آ رہی ہے؟ سٹے آرڈرز تو پہلے بھی ہوتے تھے مگر اب اتنا واویلا کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اگر انتظامیہ پرفارم نہیں کر رہی، اگر وزرا امیدوں پر پورا نہیں اتر رہے تو اس میں عدلیہ کا کیا قصور ہے؟ عدالتیں شواہد کی کمی کے باعث سٹے آرڈرز دیتی ہیں۔ انہیں حکومتی امور سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اگر حکومت کے پاس ثبوت ہیں تو سٹے آرڈرز ختم کرانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ دوسری طرف حکومت نے رہی سہی کسر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں پوری کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تو وزرا نے تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیے۔ وزیر قانون اور وزیر اطلاعات نے کہا کہ ججز اور ان کے خاندان سے جواب طلبی نہیں ہو سکتی تو حکومتی نمائندوں سے کیسے پوچھ گچھ ہوسکتی ہے؟ کیا اس قسم کی جملے بازی عدالت کے فیصلوں کو متنازع بنانے کے لیے کافی نہیں؟ اگر حکومت نے بھی عدلیہ کے فیصلوں پر سوالات اٹھانے ہیں تو پھر نواز شریف کو برا بھلا کیوں کہا جاتا ہے؟ وہ بھی تو لندن میں بیٹھ کر یہی کچھ کرتے رہے ہیں؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کو اپنے سر پر کیوں سوار کر لیا ہے۔ وہ فیصلے کو کھلے دل سے قبول کرکے آگے کیوں نہیں بڑھ جاتی؟
(2) جب سے ڈسکہ الیکشن ہوا ہے‘ حکومت تو جیسے الیکشن کمیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔ کبھی توپوں کا رخ چیف الیکشن کمشنر کی طرف کیا جاتا ہے تو کبھی پورے کمیشن کو ہی متنازع بنا دیا جاتا ہے۔ کبھی الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کا ترجمان کہا جاتا ہے تو کبھی سیاست جوائن کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ حکومت کو اتنا بھی احساس نہیں کہ الیکشن کمیشن ریاست کا ادارہ ہے۔ یہ حکومت کا حصہ ہے نہ اس کے تابع۔ اگر الیکشن کمیشن ہی متنازع ہو جائے گا تو الیکشن کی شفافیت کیسے قائم رہے گی؟ جیتنے والی پارٹی کو کون حکومت بنانے دے گا؟ اگر حکومت بن بھی گئی تو اسے چلانے کی آزادی کیسے میسر آئے گی؟ زیادہ دور مت جائیں‘ بھارت کے الیکشن کمیشن کے اختیارات اور مرتبے کو دیکھ لیں۔ شاید حکومت کو حقیقت کا ادراک ہو جائے اور شاید الیکشن کمیشن کو متنازع بنانے کا سلسلہ تھم جائے۔
(3) حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اداروں کو متنازع کرنے کا نقصان خود حکومت کو ہوتا ہے۔ حکومت نے جب بیورو کریسی کو متنازع بنانے کا آغاز کیا تھا تو افسروں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا‘ اب اس میں نقصان کس کا ہوا تھا؟ پولیس پر الزام تراشی کی تھی تو بھگتنا کس کو پڑا تھا؟ بڑے صنعتکاروں کو مافیاز کہا تھا اور انہوں نے معیشت کا پہیہ روک دیا تھا تو حکومت کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ تسلیم کہ اپوزیشن کا دامن بالکل صاف نہیں ہے، یقینا ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے ملکی دولت کو لوٹا ہو گا مگر یہ بھی تسلیم کریں کہ اب بھی کچھ عمائدین اس دھندے میں ملوث ہیں۔ خدارا! الزام تراشی کی کالک مت اچھالیں۔ اس کو اتنا مت پھیلائیں کہ سب ہی متنازع ہو جائیں اور عوام کا ہر کسی سے اعتبار اٹھ جائے۔ میرے منہ میں خاک‘ اگر ایسا ہوا تو ملک میں انارکی بڑھے گی اور جب انارکی بڑھتی ہے تو ایسے ممالک میں ریاست اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے اور پھر یہ مصر، شام اور افغانستان کہلانے لگتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں