تحریکِ عدم اعتماد کے بعد ؟

مستقبل کے دامن کو ہٹا کرآنے والے وقتوں کو دیکھیں تو تحریکِ عدم اعتماد اور لانگ مارچ کا شور مچاتی اپوزیشن ایک پیج پردکھائی نہیں دیتی ۔ سب کا اپناا پنا منشور ہے اور اپنے اپنے عزائم ۔ سورج مشر ق کے بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے ‘ چاند‘ رات کو چھوڑ کر دن کی چوکھٹ سے نمودار ہوسکتا ہے ۔ پہاڑوں پہ ریت اُگ سکتی ہے اور صحرا میں پھول کھل سکتے ہیں مگر ہمارے سیاستدان اپنی فطرت نہیں بدل سکتے ۔ موذی مرض میں مبتلاشخص اپنے حصے کی دوائی دوسرے بیمار کو دے سکتا ہے ‘ جنگ میں نڈھال سپاہی اپنی پیاس بجھانے کے بجائے دوسرے سپاہی کو پانی پلا سکتا ہے مگر سیاستدان اپنے حصے کی روٹی کسی دوسرے کو نہیں کھلا سکتا ۔ اپنے سیاسی مخالف کو تو بالکل بھی نہیں ۔
ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان مسندِ اقتدار چھوڑکر گھر چلے جاتے ہیں اور پی ٹی آئی اپنے بوجھ تلے آکر دب جاتی ہے ۔توپھر آگے کیا ہوگا؟کیا اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اپنی اناؤں کا گلا گھونٹ سکیں گی ؟ کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے سیاسی مفادات کو قربان کرپائیں گی؟کیا ازل کے دشمن مل کر حکومتی امور چلانے کے قابل ہوں گے ؟یاد رکھیں! اپوزیشن کا اصل امتحان تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نہیں بلکہ اس کے بعد کی صورتحال ہے ‘ جو تحریک عدم اعتماد سے زیادہ گمبھیر اور مخالفین کے گھر جانے سے زیادہ مشکل ہے ۔منیر نیازی یاد آتے ہیں؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
جنگجوجنگ دنوں میں جیت لیتے ہیں مگر رعایا کے دل جیتتے میں برسوں لگ جاتے ہیں اسی طرح سیاستدان سازش کرکے حکومت توگرا دیتے ہیں مگر اس کے اثرات سے نہیں نکل پاتے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو کیا اپوزیشن اس قابل ہے کہ وہ آئندہ ڈیڑھ سال کے لیے حکومت کی باگ ڈور سنبھال سکے؟کیا انہیں حکومت میں آکر پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ؟ حکومتی امور توکجا ‘ کیا وہ آپس کے مسائل حل کرپائیں گے ؟ اس وقت حکومت گرانے کی سوچ پانچ مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ ایک سوچ مسلم لیگ( ن) کی ہے اور دوسری پیپلزپارٹی کی ۔ تیسری سوچ مولانا فضل الرحمن کی ہے ‘ چوتھی حکومت کے اتحادیوں کی اور پانچویں حکومت کے ناراض ارکان کی ۔ یہ صرف پانچ سوچیں نہیں بلکہ مفادات کے اندھے کنویں ہیں ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاستدان اپنے کنویں سے نکل کر دوسرے کے کنویں میں گرنا پسند نہیں کرے گا۔ باری باری پانچوں سٹیک ہولڈرز کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں‘ کہ اندازہ ہوسکے اپوزیشن کی میٹنگز میں کیا چل رہاہے ۔
1:مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ کسی بھی صورت حکومت کا بوریا بستر گول ہوجائے اور پھر تین سے چار ماہ کے لیے اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل حکومت بنے اور نئے الیکشن کروا دیے جائیں ۔ پھر عوام جس پارٹی پر اعتماد کریں وہ نئی حکومت سنبھال لے۔ مسلم لیگ (ن) کا ماننا ہے کہ معیشت اور مہنگائی کی صورتحال دگر گوں ہے اور کوئی بھی حکومت اتنے کم عرصے میں اسے سہارا نہیں دے سکتی ۔ اس لیے جتنی جلدی الیکشن ہوں گے اتنا ہی فائدہ عمران خان مخالف قوتوں کو ہوگا ۔ میاں نواز شریف کو تین ماہ کے لیے کسی کو بھی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنانے پر اعتراض نہیں ۔
2:اس قضیے میں دوسری سٹیک ہولڈر پیپلزپارٹی ہے جو اس وقت حکومت کے خلاف لانگ مارچ کررہی ہے ۔ آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت ختم ہوجائے مگر سندھ سرکا ر اپنی بقیہ مدت پوری کرے۔ اس لیے پیپلزپارٹی بضد ہے کہ وفاق اور پنجاب میں جوبھی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنے وہ ڈیڑھ سال کے لیے ہو۔ پیپلزپارٹی نے تجویز دی ہے کہ وفاق میں مسلم لیگ (ن) اقتدار سنبھالے اور پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بنیں مگر میاں نواز شریف اس تجویز کو قابل ِ عمل نہیں سمجھتے ۔ان کاموقف ہے کہ جو بھی ڈیڑھ سال کے لیے وفاق میں اقتدار سنبھالے گا وہ الیکشن تک غیر مقبول ہو جائے گا کیونکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں مہنگائی ہے اور ایک سال تک معاشی حالات کروٹ لیتے د کھائی نہیں دیتے ۔دوسری طرف مسلم لیگ( ن) تین ماہ کے لیے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کے حق میں ہے مگر ڈیڑھ سال کے لیے پنجاب ان کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ۔ انہیں معلوم ہے چودھری پرویز الٰہی جہاں دیدہ اور تجربہ کارسیاستدان ہیں وہ ڈیڑھ سال کے لیے اقتدار میں آگئے توپنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو سیاسی نقصان ہوسکتا ہے ‘یہی وجہ ہے کہ سرِدست آصف زرداری میاں نواز شریف کو قائل نہیں کرسکے ۔
3: اپوزیشن کے سب سے متحرک رہنما مولانا فضل الرحمن بھی فوری الیکشن کے حامی ہیں مگر آصف زرداری کی تجویز میں بھی انہیں کوئی قباحت نظر نہیں آتی ۔و ہ اس سیاسی بھونچال میں اپنے بیٹے کو وزیراعظم دیکھنے کے خواہش مند بھی ہیں ۔وہ دبے الفاظ میں اپنی دلی آرزوبیان کرچکے ہیں کہ اگر تین ماہ کے لیے حکومت بنتی ہے تو شہبا زشریف کی جگہ ان کے بیٹے کو وزیر اعظم بنادیا جائے ۔ اپوزیشن کی کسی بھی جماعت نے ان کی اس بات کو رد نہیں کیا کیونکہ اپوزیشن کو معلوم ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کی بیل منڈھے نہ چڑھی تو 23مارچ کو لانگ مارچ ہونا ہے ۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن اوران کی جماعت کی ضرورت سب سے زیادہ ہوگی ۔ اس لیے مولانا کی خواہش کسی کرشمے کے انتظارمیں ہے ۔
4:اپوزیشن کی صفوں سے نکلیں تو حکومت کے اتحادیوں کی باری آتی ہے۔ اپوزیشن کے لیے ق لیگ سب سے اہم ہے کیونکہ ان کے ووٹ مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی ہیں ۔ ان ساری ملاقاتوں سے ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ ق لیگ آصف زرداری کی ہمنوا ہے ۔ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا ارمان دل میں رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ تین ماہ کے بجائے ڈیڑھ سال اقتدار کے مزے لیں ۔ الیکشن اپنے مقررہ وقت پرہوں مگر ان کی اس خواہش کے بیچ میاں نواز شریف حائل ہیں۔ چودھری صاحبان نے اپوزیشن کو صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ سے کم پر نہیں مانیں گے ۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) نے اپنے دیرینہ موقف میں تھوڑی لچک دکھائی اور کہا کہ اگر ق لیگ چاہے توچودھری مونس الٰہی کو تین ماہ کے لیے وزیراعظم بنادیتے ہیں اور پنجاب میں حمزہ شہباز کرسی سنبھال لیں ۔ رہی بات ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کی تو وہ اپوزیشن کے پلان بی کا حصہ ہیں ۔ اگر ق لیگ کے ساتھ اپوزیشن کی بات نہیں بنتی تو ان کے دروازے پر دستک دی جائے گی۔
5:حکومت کے اپنے بہت سے ارکان نالاں ہیں ۔کچھ حکومت کے رویے سے خائف ہیں تو کچھ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ۔ اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو عوام مہنگائی کی دہائی دیتے ہیں اس لیے انہیں اگلے الیکشن کی بھی فکر ہے ۔ جہانگیر ترین گروپ بھی اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہے ۔ انہیں ادراک ہے کہ پی ٹی آئی انہیں آئندہ الیکشن میں ٹکٹ نہیں دے گی اس لیے وہ بھی سیاسی پناہ کی تلاش میں ہیں ۔ پنجاب کے ایم این ایز کی ترجیح ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان کے ساتھ اگلے الیکشن میں ٹکٹ کا وعدہ کرے تو وہ تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کو تیار ہیں ۔مسلم لیگ (ن) کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سب کے ساتھ وعدہ کرنے کوتیار نہیں کیونکہ بہت سے حلقوں میں ان کے پرانے ساتھی ہیں جو گزشتہ الیکشن میں چند ہزار سے ہار گئے تھے ۔
میرا احساس ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی آرزو نے اپوزیشن کی سیاست میں الجھنیں اتنی ڈال دی ہیں کہ انہیں کوئی مناسب حل نظر ہی نہیں آرہا ۔ایوب خاور کا شعر ملاحظہ کریں۔
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں