کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

یہ 1615ء کے بعد کا زمانہ تھا۔ جہانگیر ہندوستان کا بادشاہ تھا اور شاہ جہان ولی عہد۔ شاہ جہان اپنی بہادری، شجاعت اور جنگی حکمتِ عملی کا لوہا منوا چکا تھا۔ اس نے رانا سانگا کے پڑپوتے اور اودے سنگھ کے پوتے امر سنگھ کو مغلوں کی اطاعت پر مجبور کرکے چار نسلوں پر پھیلی دشمنی کو شکست دے دی تھی۔ اس کے بعد جب شاہ جہان نے دکن کی تین ریاستوں کو فتح کیا تو قندھار پر ایرانیوں نے قبضہ کر لیا۔ جہانگیر کو ایرانیوں کا یہ انداز پسند نہ آیا۔ اس نے قندھار واپس لینے کے لیے فوج تیار کی اور شاہ جہان کو اس کا سپہ سالار بنا دیا۔ اس موقع پر نجانے شاہ جہان کو کیا سوجھی کہ اس نے اپنے والد اور شہنشاہِ ہندوستان جہانگیر کے سامنے تین شرطیں رکھ دیں۔ شاہ جہان نے کہا: چونکہ میں نے امر سنگھ اور دکن کی تین ریاستوں کو شکست دی ہے‘ اس لیے مجھے پنجاب کی گورنری، ہندوستانی فوج کی سربراہی اور راجپوتوں کا ایک قلعہ دے دیا جائے تاکہ میرا خاندان وہاں حفاظت کے ساتھ رہ سکے۔ شہنشاہ کو شاہ جہان کی اس حرکت پر بہت تعجب ہوا اور وہ غصے سے آگ بگولا ہوگیا۔ جہانگیر نے شاہ جہان کو معزول کر دیا اور اس سے تمام مراعات اور جاگیریں واپس لے لیں۔ اس نے اپنے بیٹے شاہ جہان کو پیغام بھجوایا ''اگر تم نے فتوحات حاصل کی ہیں تو مغلیہ سلطنت اور ہندوستان کے عوام پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ اپنا فرض نبھایا ہے۔ فرض نبھانے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی؛ ہاں! البتہ فرض نہ نبھانے کی سزا ضرور ہوتی ہے جو تمہیں دی جائے گی‘‘۔ کاش! کوئی تو ہو جو جہانگیر کا یہ قول حکومت کو بھی سمجھا سکے۔ وہی حکومت جو عوام کو ریلیف پیکیج دے کر داد وصول کرنے کی آرزو مند ہے۔
چند روز قبل وفاقی حکومت نے حیرت انگیز فیصلے کیے۔ یہ محض فیصلے نہیں تھے بلکہ اپنے ماضی کے ''کارناموں‘‘ اور بیانیے سے یوٹرن تھا۔ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دس روپے اور بجلی کی قیمت میں فی یونٹ پانچ روپے کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ احساس پروگرام میں فی کس دو ہزار روپے کا اضافہ، طالب علموں کے لیے سکالر شپس، انٹرن شپ پروگرام اور آئی ٹی سیکٹر کے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ جیسے فیصلوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ یہ تمام فیصلے روٹین کا حصہ تھے مگر پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی نے ہر سوچنے سمجھنے والے شخص کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا کہ یہ وہی حکومت ہے جو چند روز پہلے تک انٹرنیشنل مارکیٹ میں مہنگائی کا رونا روتی تھی۔ وزیراعظم صاحب سے لے کر وزرا تک‘ سبھی حکومتی عمائدین پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو ناگزیر سمجھتے تھے مگر اب اچانک ایسا کیا ہوا کہ حکومت اپنے ہی بیانات سے پیچھے ہٹ گئی۔ یقینا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ وفاقی حکومت کے ایک فیصلے نے ساری قوم کو بے یقینی میں مبتلا کر دیا ہے اور ستم یہ ہے کہ حکومت کی خواہش ہے کہ اس کی داد و تحسین کی جائے‘ میڈیا زور زور سے تالیاں بجائے اور عوام گلیوں، بازاروں اور چوراہوں میں کھڑے ہوکر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالیں۔ اب بھلا کون حکومت کو مغل بادشاہ جہانگیر کا قول پڑھ کرسنائے کہ فرض نبھانے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی! مان لیتے ہیں کہ حکومت کا فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ عوام کی فلاح کے لیے ہے۔ تسلیم کر لیتے ہیں کہ حکومت کے اس اقدام کے پیچھے نیک نیتی ہے اور وہ جو کہہ رہی ہے‘ ٹھیک کہہ رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ عوام حکومت کو سراہیں تو کیونکر؟ میڈیا حکومت کے حق میں بولے تو کیسے؟ حکومت نے کیا انوکھا کیا ہے؟ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے عوام کو ایسے ہی ریلیف دیتی ہیں۔ کورونا کے دنوں میں برطانیہ اور یورپ میں گھروں میں بیٹھے لوگوں کو تنخواہیں اور مراعات دی گئیں مگر کسی نے اس کا واویلا نہیں کیا۔ اگر حکومتی اکابرین کو اپنا انتخابی منشور یاد ہو، وہ تو آئے ہی مہنگائی کا قلع قمع کرنے اور بدانتظامی کا راستہ روکنے کے لیے تھے۔ اب اگر روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث انٹرنیشنل مارکیٹ میں مہنگائی کا گراف اوپر کی جانب گامزن ہے اور پاکستانی حکومت نے عوام کو کچھ سہولت فراہم کر دی ہے تو اس میں داد وصول کرنے کی آرزو کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
نجانے حکومت کیوں چاہتی ہے کہ میڈیا اس کی آنکھ اور کا ن بن جائے۔ جو حکومت دکھانا چاہے‘ وہی میڈیا کو نظر آئے اور جو حکومت سنانا چاہے وہی میڈیا کو سنائی دے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی خواہش جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ ذہنوں کی عکاس ہوتی ہے۔ میڈیا سوال کرتا ہے کہ آپ اپنے بیانیے سے کیوں مکر گئے تو جواب ملتا ہے میڈیا حکومت کے خلاف ہے۔ اگر یہ پوچھا جاتا ہے کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 91 ڈالر فی بیرل تھی تو آپ نے پٹرول کی قیمت بارہ روپے فی لٹر بڑھا کر 160 روپے کا کر دیا اور اب اگر مشرقی یورپ میں جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں پٹرول کی فی بیرل قیمت 119 ڈالر تک پہنچ چکی ہے تو آپ نے دس روپے کم کیسے کر دیے؟ پہلے کہا جاتا تھا کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں گیس اور پٹرول مہنگا ہوگیا ہے‘ پاکستان میں پٹرول سے بجلی بنتی ہے اس لیے بجلی کی قیمت بڑھانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اب اگر سوال کیا جاتا ہے کہ قیمتیں بڑھانے کی مجبوری دور کیسے ہو گئی تو برا کیوں لگتا ہے؟ یہ سوالات منطق کے عین مطابق ہیں‘ مگر کیا کریں! حکومت جواب دینے کے بجائے الزام تراشی کرنے لگتی ہے۔ کیا دنیا بھر میں حکومتیں ایسے کرتی ہیں؟ کیا حکومتِ وقت سے سوال کرنا دیگر ممالک میں بھی جرم سمجھا جاتا ہے؟
انگریزی کا مشہور مقولہ ہے کہ دنیا میں مفت کچھ بھی نہیں ملتا‘ ہر چیز کی قیمت دینا پڑتی ہے۔ رہی بات حکومتوں کی‘ تو ان کا ہر فیصلہ سیاسی ہوتا ہے اور ہر بات کی تہہ میں ایک بات ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔ اب آتے ہیں حکومت نے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں اگلے بجٹ تک کم کرنے کا اعلان کیوں کیا؟ اس کی دو وجوہات سمجھ آتی ہیں اور دونوں کا تعلق حکومت کے سیاسی فائدے سے ہی ہے۔ پہلی وجہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں شکست ہے۔ جب حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست ہوئی تو تحریک انصاف نے اپنی پارٹی کی تنظیمِ نو کی اور وزرا کو عہدے دے کر عوام میں بھیج دیا۔ وزرا نے وفاقی حکومت کو رپورٹ دی کہ مہنگائی کے باعث عوام چیخ رہے ہیں اور اگر مہنگائی کم نہ کی گئی تو خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے اور مئی میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی الیکشنز میں‘ پارٹی کا نام و نشان بھی نہیں بچے گا۔ اگر بلدیاتی الیکشن میں شکست ہوئی تو سمجھیں 2023ء کا الیکشن بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ حکومت کچھ بھی کرے‘ مگر مہنگائی نہ ہونے دے۔ اس رپورٹ کے بعد حکومت کو پریشانی لاحق ہوئی اور اس نے عوام کوریلیف پیکیج دینے کا منصوبہ بنایا تاکہ بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔ اس ریلیف پیکیج پر کام جاری تھا کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ اپوزیشن کا حکومتی اتحادیوں کے ساتھ میل ملاپ شروع ہوا اور حکومتی ایم این ایز کی جانب سے بغاوت کا اندیشہ پختہ ہونے لگا لہٰذا حکومت نے جلد بازی میں ریلیف پیکیج کا اعلان کر دیا۔ حکومت نے شاید سوچا ہو گا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو وہ اس ریلیف پیکیج کے ذریعے عوام میں دوبارہ جائے گی اور انہیں بتائے گی کہ ہم نے مہنگائی کا راستہ روکنا شروع کر دیا تھا‘ ہماری پالیسیوں کے ثمرات آنا شروع ہو گئے تھے مگر اپوزیشن نے ہمارا راستہ بند کر دیا۔ دوسری جانب اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو حکومت مزید مضبوط ہو کر ابھرے گی اور اس ریلیف پیکیج کا فائدہ بلدیاتی الیکشن میں ہو گا۔ غور کیا جائے تو حکومت کا ریلیف پیکیج کسی سیاسی موو سے کم محسوس نہیں ہوتا۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ میڈیا‘ جو حقیقت کا عکاس ہے‘ ایک سیاسی چال کو عوام کی فلاح کا منصوبہ کیسے مان لے؟ کیا یہی کام باقی رہ گیا ہے؟ مرزا غالب یاد آتے ہیں:
بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں