بھان متی کا کنبہ

بھان متی برصغیر کی ایک سیاسی، سماجی اور مذہبی کردار کی حامل خاتون تھی۔ وہ ریاست چتوڑ میں پیدا ہوئی‘ وہیں پلی بڑھی اور کام کاج شروع کیا۔ روایت ہے کہ پتلی تماشا کرنا اس کا پیشہ تھا۔ وہ شہر شہر‘ نگر نگر گھومتی، تماشا کرتی، کہیں سے داد وصول کرتی اور کہیں سے کوسنے اور گالیاں کھاتی۔ بھان متی میں جہاں بہت سی خوبیاں تھیں‘ وہیں ایک خامی بھی تھی۔ وہ ٹیم ورک پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ جہاں جاتی نئے لوگ اکٹھا کرتی اور پتلی تماشا شروع کر دیتی۔ پرانی کہانی میـں نئے کردار شامل کرنے کے بجائے وہ اداکار بدل دیتی تھی۔ ایک کے بعد ایک صبحیں آئیں‘ شامیں ڈھلیں‘ راتیں گزریں۔ اب بھان متی کی کہانی لوگوں کو بیزارکرنے لگی تھی۔ یہ بھان متی کا زوال کا آغاز تھا۔ لوگ کہنے لگے تھے کہ بھان متی کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اٹھا کر ہمارا وقت ضائع کرتی ہے۔ وہ لوگوں کے رویے سے تنگ آ کر مجذوب سی ہو گئی اور دنیا سے الگ تھلگ رہنے لگی۔ اس نے ایک ہندو لڑکی کی ایک مسلمان لڑکے سے شادی بھی کروائی تھی جس کی وجہ سے دنیا والے اس کے مزید مخالف ہو گئے تھے اور اس کا مذاق اڑانے لگے تھے۔ یہیں سے وہ شہرہ آفاق محاورہ وضع ہوا جو ایک پولیٹیکل تھیوری کی بنیاد بھی بنا۔ ''بھان متی نے کنبہ جوڑا‘ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘۔
میں جب بھی سیاست کی منڈیر پر مختلف نظریات کے لوگوں کو ایک ساتھ دیکھتا ہوں تو پریشان ہو جاتا ہوں اور مجھے بھان متی کا کنبہ ضرور یاد آتا ہے۔ یہ کنبہ جب بھی دوسروں کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتا ہے تو صرف اور صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جب تک اِس کے سیاسی اور معاشی مفادات پورے ہوتے رہتے ہیں‘ یہ ایک ٹہنی پر براجمان رہتا ہے مگر جیسے ہی مفادات کی پوٹلی میں چھید ہونے لگتا ہے‘ یہ ادھر اُدھر پھڑپھڑانے لگتے ہیں۔ اس وقت انہیں ہمیشہ ساتھ چلنے کے وعدے یاد رہتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں۔ سیاسی مفادات حکومتی حتیٰ کہ ریاستی مفادات پر بھی حاوی ہو جاتے ہیں۔ یوںجماعتیں ٹوٹ جاتی ہیں اور اتحاد بکھر جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جس کا تجربہ ہمیں ہر تین‘ چار سال بعد ہوتا ہے مگر ہم پھر بھی سبق نہیں سیکھتے۔ نجانے ہم کیسے لوگ ہیں کہ ایک سوراخ سے دو‘ دو تین‘ تین بار ڈسے جاتے ہیں اور پھر بھی باز نہیں آتے۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ پارٹیاں تبدیل کرنے والے سیاست دان اپنے پرانے لیڈر سے بے وفائی کر سکتے ہیں تو ہمارا ساتھ کیوں نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر یہ ایک پارٹی بدل سکتے ہیں تو ان کے دوسری‘ تیسری جماعت کو خیرباد کہنے میں کیا امر مانع ہو گا۔ ہم اپنے نمبر پورے کرنے کے لیے دوسرے کی لائن ہی کاٹ دیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ آزمائے ہوئے کو آزمانا کہاں کی سیاست ہے اور کون سی دانشمندی؟
ان دنوں وفاق ہی نہیں‘ پنجاب اور بلوچستان حکومتوں پر بھی آسیب کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ یہ سایہ کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ بھان متی کے کنبے کے باعث ہے۔ اگر تحریک انصاف اپنے نظریاتی لوگوں کے سہارے اقتدار میں آتی تو آج اسے تحریک عدم اعتماد کے بھونچال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ حکمران جماعت شاید بھول گئی تھی کہ انقلاب نظریے سے آتا ہے‘ مفاد پرست ٹولے سے نہیں۔ نظام میں تبدیلی نظریاتی لوگ لاتے ہیں‘ روایتی سیاست دان نہیں۔ کرپشن کے خلاف جنگ صاف ستھرے نوجوان کر سکتے ہیں‘ دہائیوں سے ملک اور اس کے سسٹم کی ناؤ میں سوراخ کرنے والے روایتی چہرے نہیں۔
میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر 2018ء میں حکومت بنانے کے لیے پارٹی کے دروازے ہر کسی کے لیے نہ کھولے جاتے تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ تحریک انصاف جدوجہد کے دنوں میں مڈل کلاس کی جماعت سمجھی جاتی تھی مگر اقتدار کی سیڑھی چڑھنے سے پہلے ہی یہ صنعت کاروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور روایتی سیاست دانوں کے گھیرے میں آ گئی تھی۔ پرویز مشرف کے ساتھی‘ آصف زرداری کے دوست اور میاں نوا ز شریف کے ہمنوا عمران خان کے ہم قدم ہوئے تو پارٹی کا نقشہ ہی بدل گیا۔ خان صاحب خوش تھے کہ ہم الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں مگر ہوا کیا؟ اقتدار تو مل گیا مگر اقدار ہاتھ سے پھسل گئیں۔ پرانے لوگ ماضی کا قصہ بن گئے اور نئے لوگوں نے پارٹی اور حکومت کی کمان سنبھال لی۔ میرے نزدیک بھان متی کا یہ کنبہ جہاں ایک طرف پارٹی کا بامِ عروج تھا وہیں اس کے زوال کی ابتدا بھی۔
حکومتی ایم این ایز اور ایم پی ایز ہی نہیں‘ اتحادی بھی گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ وہ حکومتی اتحاد سے نکلنا بھی چاہتے ہیں اور اپوزیشن کے ساتھ چلنے سے خوفزدہ بھی ہیں۔ یہ کیسے اتحاد ی ہیں جو ساڑھے تین سال سے حکومت کے ساتھ ہیں اور برا وقت آتے ہی آنکھیں پھیر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم سے زیادہ قاف لیگ کا رویہ ناقابلِ فہم ہے۔ یہ صرف حکومت کی اتحادی نہیں ہے بلکہ‘ الیکشن سے قبل ہی اس نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور دونوں جماعتوں نے کئی حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی تھی۔ قاف لیگ کی جیت میں تحریک انصاف کا ووٹرز کا نمایاں حصہ ہے مگر اب یوں گمان ہوتا ہے انہیں سب بھول گیا ہے۔ یاد ہوتا تو کم از کم ایک بار کھل کر بیان دے دیتے کہ ہم حکومت کے ساتھ آئے ہیں اور ساتھ ہی جائیں گے۔ پھر خیال آتا ہے کہ سیاست کا چلن اور ہی ہوتا ہے۔ طاقت کا اصول ہے کہ دیوار کے سائے میں بیٹھنے والے وقت آنے پر گرتی دیوار کو سہارا نہیں‘ دھکا دینے میں پہل کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی اتحادی بھی اسی ڈگر پر ہیں۔ اسی لیے تو حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے ساتھ بھاؤ تائو کیا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ''پانچ‘‘ سیٹوں والی جماعت پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے لیے بلیک میل کر رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ بیان کس کے لیے دیا ہے۔ اقتدار اور طاقت کا کھیل ازل سے ایسا ہی ہے اور ابد تک ایسے ہی رہے گا۔ سیاست دان اور حکمران طبقات اپنی طاقت کو دوام دینے کے لیے ہر حربہ آزماتے ہیں‘ ان کے لیے سیاسی بے وفائی کیاچیز ہے۔
ہلاکو خان نے صرف بغداد میں پندرہ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ امیر تیمور نے مزید طاقت کے حصول کے لیے دلّی میں انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنوائے تھے۔ یقین مانیں‘ سیاست ایسی ہی بے رحم چیز ہے۔ یہاں دوستیاں اور دشمنیاں وقتی ہوتی ہیں۔ مفادات بدلتے ہی دوست اور دشمن بھی بدل جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایم کیو ایم، قاف لیگ، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کبھی حکومت کی اتحادی نہ بن پاتیں۔ شہباز شریف کبھی چودھری صاحبان کے گھر نہ جاتے اور نہ ہی ایم کیو ایم کی میزبانی کی جاتی۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ شیر و شکر ہو سکتی تھیں؟ بلوچستان عوامی پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب کیا ہے؟ میرا احساس یہ ہے کہ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں‘ وزیراعظم صاحب ضرور سوچیں گے کہ مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے لیے ان سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ طاقت اور سیاست کے کھیل میں انہوں نے کتنے وفادار ساتھیوں کی قربانی دی اور کتنے بے وفا سیاست دانوں کو اپنے پہلو میں جگہ دی۔ یہی نہیں‘ تحریک عدم اعتماد سے انہیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ پارٹی کے ساتھ بے وفائی نظریاتی ایم این ایز نے کی یا الیکٹ ایبلز نے۔ اور تو اور یہ ادراک بھی ضرور ہو گا کہ اب ان کی جماعت ایک نظریاتی جماعت ہے یا بھان متی کا کنبہ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں