تحریک عدم اعتماد اور میگنا کارٹا

نپولین کا قول ہے'' میرے وہ ساتھی جو میر ی ہر بات مانتے ہیں ‘مجھ سے اختلاف کرتے ہیں نہ میرے غلط فیصلوں کی مخالفت‘ وہ میرے سب سے بڑے دشمن ہیں کیونکہ مجھے ہروہ کام کرنے دیتے ہیں جو میں کرنا چاہتا ہوں ۔ ایسے ساتھیو ں کا مشورہ مان کر میں باہر سے جتنا مضبوط نظر آتا ہوں اندر سے اتنا ہی کمزور محسوس کرتا ہوں ۔‘‘کاش نپولین کا یہ قول ہمارے حکومتی اکابرین بھی پڑھ لیں ۔کاش ! انہیں بھی ادراک ہو جائے کہ حکمران کے غلط فیصلے کی مخالفت جمہوریت کا حسن ہوتا ہے‘ عیب نہیں ۔ کوئی تو ہوجو حالات کی نزاکت کو بھانپ کر تصادم اور انارکی کی فضا کا رخ موڑدے ۔
دنیا میں جمہوریت کی ابتدا حکمرانو ںکے خلاف عدم اعتماد سے ہوئی تھی ۔پانچویں سے بارہویں صدی کے درمیان برطانیہ کئی حصوں میں تقسیم تھا ۔بادشاہ کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے حکمران بھی تھے۔لڑائیاں ‘ جھگڑے اور وفاداریاں تبدیل کرنا عام سی بات تھی ۔ہرطرف جہالت کا راج تھا اور انسانی حقوق کی پامالی صبح و شام ہوتی تھی ۔انسانوں اور جانوروں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا ۔بادشاہ بااثر افراد اور رعایا سے ٹیکس لیتا اور جنگوں کی نظر کردیتا تھا ۔ عوام اور خواص دونوں ہی بادشاہ کی طرزِحکمرانی سے ناخوش تھے ۔
بارہویں صدی کی ابتدا میںقرون ِ وسطیٰ کے امرانے بادشاہ کے خلاف بغاوت کردی اور کہا کہ بادشاہ اپنے کچھ اختیارات عوام میں بانٹ دے ۔حقوق اوراختیارات کے لیے کی گئی بغاوت نے زور پکڑاتو 15 جون 1215ء کو بادشاہ جان آف انگلینڈاور باغیوں کے درمیان معاہدہ ہوگیا جسے میگنا کارٹا یعنی عظیم چارٹر کا نام دیا گیا ۔مشہور برطانوی جج لارڈ ڈینسنگ نے کہا تھا کہ میگنا کارٹا انسانی تاریخ کی سب سے اہم اور عظیم دستاویز ہے ۔ یہ چارٹر شخصی آزادی کی بنیاد ہے اور مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف اٹھنے والا پہلا پتھربھی ۔میرے نزدیک جدید دنیا میں بھی عدم اعتماد حکمرانوں کی کارکردگی سے زیادہ شخصیت اور طرزِ حکمرانی کے خلاف ہوتا ہے ۔ بسا اوقات حکمران کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے مگر ان کا اپنے رفقا اور عوام کے ساتھ برتاؤ ٹھیک نہیں ہوتا ۔ لوگ ایسے حکمرانوں سے جلد عاجز آجاتے ہیں اور ان کے من میں تبدیلی کی خواہش انگڑائی لینے لگتی ہے ۔
کون کہتاہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد معیوب چیز ہے؟ ہمارے آئین اور قانون کے تحت کسی بھی عہدے ‘ محکمے یا ادارے کا محاسبہ کیا جاسکتا ہے ۔وزیراعظم ہو یا وزیراعلیٰ ‘صدرہو یا گورنر ‘ معزز ججز ہوں یا کسی دوسرے ریاستی ادارے کا سربراہ ‘ کوئی بھی قانون سے مبرا نہیں ۔ وزیراعظم کو بھی وقت سے پہلے گھر بھیجنے کا طریقہ آئین میں موجود ہے اور اپوزیشن تحریک عدم اعتما د کے ذریعے ایسا کرنا چاہتی ہے تو نجانے کیوں اتنا واویلا کیا جارہاہے۔میں ذاتی طورپر وزیراعظم کو پانچ سال سے پہلے ہٹانے کا قائل نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جیسے ممالک میں ایسا کرنے سے بہت سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اورریاستی اداروں کے بیچ غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو کسی طور بھی جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں ہوتیں۔جب سے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع ہوئی ہے حکومت مفلوج ہوکر رہ گئی ہے ۔ وزیراعظم اور وزرا ایک کے بعد ایک جلسہ کررہے ہیں اور نجانے نظام حکومت کون چلا رہا ہے ۔ وزیراعظم کی توجہ عوامی مسائل پر ہے نہ وزرا کی ۔ اس بدترین سیاسی صورتحال کے باعث سب سے زیادہ نقصان ریاست کا ہورہاہے یا عوام کا ۔ معاشی مسائل دوچندہورہے ہیںمگر اہلِ سیاست کو اس کی ذرا بھی فکر نہیں ۔ کوئی بادشاہ کو گرانے میں لگا ہے اور کوئی اپنی کرسی بچانے کی تگ ودو میں ہے ۔
جیسے جیسے وقت گزر رہاہے حالات تیزی کے ساتھ خراب ہورہے ہیں۔ ستم در ستم یہ ہے کہ حکومتِ وقت جلتی پر تیل چھڑک رہی ہے ۔ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ قومی اسمبلی میں کرنے کے بجائے حکومت سٹرکوں کا رخ کررہی ہے‘ جوکسی بھی طرح نیک شگون نہیں ہے ۔پی ڈی ایم 24مارچ سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کاارادہ رکھتی ہے اور کہا جارہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وہیں دھرنا دے گی ۔ دوسر ی طرف حکومت نے بھی 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں دس لاکھ لوگ لانے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کو ادراک ہی نہیں کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں ۔ ایک ہی دن لاکھوں لوگ اسلام آباد میں آمنے سامنے ہوگئے تو کیا ہوگا ؟ اگر تصادم اورجانی نقصان ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا َ؟اگر تصادم اور انارکی کے ماحول میں جمہوریت کا وجود خطرے میں پڑگیا تو پی ڈی ایم کے ہاتھ کیا آئے گا اور حکومتِ وقت کا کیا بنے گا ؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت جلسے جلوس کرکے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے ؟ حکومت مت بھولے کہ دس لاکھ لوگوں کا جلسہ کرنا آسان نہیں ہوتا ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ حکومت اپنے وسائل استعمال کرکے لاکھوں لوگ اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر کیا ہوگا ؟ کیا دودرجن کے قریب منحرف ایم این ایز واپس آجائیں گے ؟ کیا اتحاد ی کھل کر حکومت کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے ؟ کیا قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی ؟ کیا عوام مہنگائی ‘ بدانتظامی اور لاقانونیت کے خلا ف بولنا چھوڑ دیں گے؟ کیا کرپشن اور اقرباپروری کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا؟ کیا امریکہ اور یورپ پاکستان کے ساتھ بھارت جیسا برتاؤ کرنے لگیں گے ؟ کیا خارجہ پالیسی نیوٹرل ہونے سے ہماری برآمدات کو پَر لگ جائیں گے ؟ اور سب سے بڑھ کر‘ کیا اپوزیشن حکومت پر وار کرنا چھوڑ دے گی ؟ اگر حکومت صرف اپنی سٹریٹ پاور ثابت کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے تو یقین مانیں یہ بے وقت کی راگنی ہے اور اگر اپنے ایم این ایز اور مختلف غیر سیاسی حلقوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہ کلیہ آزمایا جارہا ہے تو یہ حکومتوں کو زیب نہیں دیتا۔ اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے کھیل میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے لیے جلسے جلوس کرنے کے لیے بہت وقت ہوگا۔یہ گھوڑا اور یہ گھوڑے کا میدان ۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی پی ٹی آئی کی وہ سٹریٹ پاور ہے جو حکومت آنے سے پہلے ہوا کرتی تھی ؟اس سوا ل کا جواب آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں آجائے گا‘ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ جو پارٹیاں حکومت میں آنے کے بعد عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کرپاتیں‘ بعدازاں ان کے جلسے جلسوں میں عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔
مشہور کہاوت ہے کہ بندرکے پاؤں جلتے ہیںتو وہ اپنے ہی بچے پاؤں تلے لے لیتاہے ۔ حکومت نے بھی منحرف ارکان کے خلاف سپریم کورٹ جاکر ایسا ہی کیا ہے ۔ آئین کا آرٹیکل 63 اے واضح ہے اور سپریم کورٹ عائشہ گلالئی کیس میں بھی فیصلہ دے چکی ہے کہ زبانی طور پر پارٹی پالیسی کے خلاف جانے سے نااہلی نہیں ہوتی ۔ چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی وہی تشریح کرتی ہے جو حکومتی قانونی ٹیم کررہے ہیں ۔ پھر کیا ہوگا ؟ منحرف ارکان نااہل ہونے سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد تو ناکام ہوجائے گی مگر حکومتی اکثریت کا کیا بنے گا ؟ دو ماہ بعد بجٹ آنے والاہے بجٹ کیسے پاس ہوگا؟ اور اگر بجٹ پاس نہ ہوا تو وزیراعظم اعتماد کا ووٹ کیسے لیں گے ؟کوئی جائے اور محترم وزیراعظم کو بتائے کہ تصادم کا خطرہ بڑھ رہاہے ۔ اگر تصادم ہوا تو زیادہ نقصان حکومت کا ہوگا ۔ اپوزیشن کے پاس تو کھونے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں