کب تماشا ختم ہو گا

مولانا روم نے کہا تھا ''خود شناسی دنیا کا سب سے پیچیدہ علم ہے۔ جو اپنی صلاحیتوں کا ادراک نہ کر سکے وہ زندہ ہوکر بھی کہاں زندہ ہوتا ہے‘‘۔ انسانی تاریخ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی شخص ہر فن مولا نہیں ہوتا۔ غالبؔ اور میرؔ بڑے شاعر تھے‘ اگر جنگ میں وہ تلوار اٹھاتے تو کیا جنگجو بن سکتے تھے؟ آئن سٹائن سائنس کی دنیا کو خیرباد کہہ کر کھیل کے میدان میں اتر جاتا تو کیا حیرتوں کے نئے جہاں دریافت کر سکتا تھا؟ راجہ بیربل کا شمار شہنشاہِ ہند جلال الدین محمد اکبر کے ذہین ترین نو رتنوں میں ہوتا تھا۔ اکبر کو جب بھی فیصلہ کرنے میں مشکل آتی تو بیربل راستہ دکھانے میں پہل کرتا تھا۔ اسے شاعری او ر گلوکاری پر بھی عبور حاصل تھا۔ 1586ء میں اکبر کے بڑے بھائی حکیم مرزا نے بغاوت کی تو اس کی سرکوبی کے لیے اکبر نے فوج کو تیا ری کا حکم دیا۔ بیربل اور ابوالفضل‘ دونوں نے بادشاہ کی خوشنودی کے لیے خود کو اس کی قیادت کے لیے پیش کر دیا۔ بادشاہ کو یہ دونوں افراد ہی بہت عزیز تھے‘ ٹاس کیا گیا تو قرعہ بیربل کے نام نکل آیا۔ راجہ بیربل کی قیادت میں فوج نے لڑائی کی‘ ناکام تو ٹھہری ہی‘ بیربل بھی جان سے گیا۔
ایسا ہی کچھ ابوالفضل (ابن مبارک) کے ساتھ ہوا۔ اکبر کے بیٹے جہانگیر نے الہ آباد میں بغاوت کی تو بادشاہ نے ابوالفضل کو بھیجا کہ وہ ناراض شہزادے کو منا کر لائے۔ ابوالفضل کو خطابت اور گفتگو پر ملکہ حاصل تھا مگر وہاں تو دوبدو لڑائی ہو گئی۔ ابوالفضل کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ راجہ بیربل اور ابوالفضل قلم اور علم کے شہسوار تھے‘ میدانِ حرب میں اترے تو جان دے کر ہی خلاصی ملی۔ ضروری نہیں ایک شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والا شخص دوسرے شعبے میں بھی کامیاب و کامران ٹھہرے۔ اس بات کا ادراک جتنی جلدی ہو جائے‘ انسان اتنی ہی مشکلوں اور تکلیفوں سے بچ جاتا ہے مگر الجھن یہ ہے کہ اس کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے‘ حکمران طبقے کو تو بالکل بھی نہیں!
استدلال کرنے والوں کی دنیا الگ ہوتی ہے اور تنقید کی لٹھ چلانے والوں کا جہاں الگ۔ جن کا کوا سفید ہو‘ وہ دلیل کی بادشاہت کو بھلا کب مانتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے‘ آپ جو بھی بیچنا چاہیں‘ خریدار ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ کسی کو ملک دشمن ثابت کرنا مشکل ہے نہ چور‘ ڈاکو۔ اب کسی کو اہل ثابت کرنا مشکل ہے نہ ہی نااہل ثابت کرنا۔ پہلے جو کام مہینوں اور سالوں میں ہوتا تھا‘ اب گھنٹوں اور منٹوں میں بہ آسانی ہو جاتا ہے۔ آپ موجودہ حکومت کی کارکردگی پرانگلی اٹھا سکتے ہیں، معاشی پالیسیوں پر ناکامی کا لیبل لگا سکتے ہیں، انتظامی صلاحیتوں کو ہدفِ تنقید بنا سکتے ہیں، خارجہ پالیسی پر لاکھوں سوالات کھڑے کر سکتے ہیں مگر ایک بات ماننا پڑے گی‘ یہ حکومت ماضی کی تمام حکومتوں سے زیادہ ہوشیار ہے۔ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کا ہنر اسے بخوبی آتا ہے۔ یہ جو بیانیہ بنانا چاہتی ہے‘ بنا لیتی ہے اور جو پروپیگنڈا کرنا مقصود ہوتا ہے‘ کر گزرتی ہے۔ حکومت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے پاس دلائل کے انبار ہیں۔ ایک کام کو اپنے لیے خیر اور عافیت کا معاملہ قراردیتی ہے تو اسی کام کو دوسرے کا عیب بنا دیتی ہے۔ آپ بھلے اسے جو مرضی نام دیں‘ میں تو اسے خوبی ہی کہوں گا۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں درجنوں بار حکومت نے اپوزیشن کے ایم این ایز اور سینیٹرز کو اپنے ساتھ ملایا اور ووٹ حاصل کیے۔ 2018ء میں چودھری سرور مسلم لیگ نون کے چودہ ووٹوں سے سینٹر منتخب ہوئے تھے۔ صادق سنجرانی اقلیت میں ہونے کے باوجود‘ نہ صرف چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے بلکہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ نجانے کتنی ہی بار اپوزیشن کے ایم این ایز اور سینیٹرز نے حکومتی بل پاس کرانے میں مدد فراہم کی۔ حکومت کی پالیسی ہے کہ ''میٹھا میٹھا ہپ‘ کڑوا کڑوا تھو‘‘۔ جب حکومت اپوزیشن کے ووٹ لے رہی تھی تو سب ٹھیک تھا‘ اب جب اپوزیشن حکومت کے ممبران کو توڑ رہی ہے تو وہ ''بکاؤ مال‘‘ بن گئے ہیں۔ حکومت نے اپنے اس بیانیے کو اتنا پھیلایا ہے کہ ہر کسی کو یقین آنے لگا ہے کہ حکومت سچ کہہ رہی ہے۔ اسے کہتے ہیں پروپیگنڈاکی طاقت۔ دورِ جدید میں پروپیگنڈا کی طاقت دنیا کی ہر طاقت سے زیادہ خطرناک ہے۔
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیا جمع ہوئی‘ حکومتی زعما نے اسے حق اور باطل، نیکی اور بدی، سچ اور جھوٹ، کرپشن اور دیانتداری کی جنگ بنا دیا ہے۔ 27 مارچ کا جلسہ اس بیانیے کی انتہا تھا۔ حکومت دوہفتوں سے بار بار کہہ رہی تھی کہ اسلام آباد کے جلسے میں بڑا سرپرائز دیا جائے گا۔ پوری قوم مضطرب تھی کہ آخر یہ سرپرائز ہے کیا؟ جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی تھیں۔ کسی نے کہا کہ حکومت مستعفی ہونے جا رہی ہیں تو کوئی بولا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کی سمریاں تیار کر لی گئی ہیں۔ کہیں سے آواز آئی کہ مائنس وزیراعظم ہونے جا رہا ہے تو کوئی بولا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی قربانی دے کر وفاقی حکومت بچائی جائے گی۔ اسلام آباد میں جلسہ ہوا اور ختم بھی ہو گیا‘ مگر خلقِ خدا منتظر ہی رہی۔ کوئی سرپرائز آیا نہ کوئی بڑا اعلان کیا گیا۔ وہی پرانی باتیں جو وزیراعظم صاحب‘ حکومتی مشیران اور ترجمان کتنی ہی بار کر چکے ہیں‘ اس بار بھی دہرائی گئیں۔ وہی بیرونی مداخلت کا رونا اور حکومت گرانے کی دھمکی کا ذکر‘ وہی اپوزیشن پر الزامات کی بوچھاڑ اور منحرف اراکین پر غم و غصہ۔
حیدر علی آتش یاد آتے ہیں:
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
وزیراعظم صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ''حکومت گرانے کے لیے بیرونِ ملک سازش ہو رہی ہے۔ پیسہ دیگر ملکوں کا ہے اور لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں۔ حکومت گرانے کے لیے خط لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ لندن میں بیٹھا شخص کس کس سے ملتا ہے؟ پاکستان میں بیٹھے کردار کس کے کہنے پر چل رہے ہیں؟‘‘۔ وزیراعظم صاحب نے ایک خط تو لہرا دیا مگر بات ادھوری چھوڑ دی۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات بہت نازک ہوتے ہیں‘ قدم قدم پر سوچنا پڑتا ہے مگر اربابِ حکومت گزرے ایک ماہ سے ایسا کچھ بھی نہیں کر رہے۔ امریکا پر کھل کر تنقید کی جا رہی ہے‘ یورپی یونین کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ اگر کسی ملک کی طرف سے دھمکی ملی ہے تو حکومت اسے کیوں چھپانا چاہتی ہے؟ کیا اس ملک سے ہمارے دیرینہ سیاسی اور معاشی تعلقات ہیں؟ میرا تاثر یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کو پوری کہانی سنانا چاہیے تھی۔ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک دشمنی کون اور کیوں کر رہا ہے؟ اگر اس فہرست میں پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں تو سارے عقدے ایک ہی بار کھل جانے چاہئیں تھے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ گریز سے کام کیوں لیا گیا؟ یہ ادھوری تقریر اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہے۔ کہیں یہ الزامات‘ محض الزامات تو نہیں؟ کہیںاپوزیشن کو بدنام کرنے کے لیے کوئی نیا کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا؟ بعض افراد اسے بجھتے چراغ کی پھڑپھڑاہت بھی قرار دے رہے ہیں مگر یہ میدانِ سیاست ہے‘ بازی پلٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ موجودہ حکومت پہلے بھی کئی بار یہ منظر دکھا چکی ہے ؛تاہم اس بار اپوزیشن کی باڈی لینگوئج بھی منفرد خبر سنا رہی ہے اور پوری قوم دم سادھے منتظر ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں