نواز شریف سے کچھ سیکھ لیتے

ضد کی کوئی دلیل ہوتی ہے نہ منطق ۔جو ضد کو استدلال پر ترجیح دیتے ہیں وہ زد میں آجاتے ہیں ۔ضد دو دھاری تلوار کی مانند ہوتی ہے ‘ کامیابی کا پہلا زینہ بھی اور ناکامی کی بنیاد بھی ۔ضد چٹان سے لگائی جائے تو سر پھوٹنا مقد ر بن جاتا ہے اور ضد اگر آئین و قانون سے ہوجائے تونقصان نسلوں کا ہوتا ہے ۔آگ ایک گھر کو لگتی ہے اور جلنا سارے شہر کو پڑتا ہے ۔مفاد ایک شخص ‘ جماعت یا گروہ کا ہوتاہے اورخمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جاوید اختر یاد آتے ہیں ۔
دھواں جو کچھ گھروںسے اٹھ رہاہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا
خواہشات کی چادر دراز کرنا کوئی بری بات نہیں مگر صلاحیت اور اہلیت کے بغیر بڑی بڑی خواہشات کو پالنا تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔کسی بڑے عہدے تک پہنچنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا اسے برقرار رکھنا اہم ہوتا ہے ۔عہدہ قسمت سے مل جاتا ہے مگرکرسی پر براجمان رہنا اہلیت کا تقاضا کرتا ہے ۔کھلے دماغ سے تجزیہ کیا جائے تو گزرے دو ہفتے ہماری تاریخ کے بدترین دنو ں میں سے تھے ۔ جمہوری حکومت نے آئین و قانون کو جس طرح پامال کیا اس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے ۔ صد شکر کہ سپریم کورٹ سے قابل ِ رشک فیصلہ آگیا اورجمہوریت کے چہرے پر کالک ملنے کی تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ پارلیمانی نظام میں اکثریت کی بادشاہی ہوتی ہے اور جب اکثریت اقلیت میں بدل جاتی ہے تو حق ِ حکمرانی بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اتنی سی بات تھی جو سابق حکمرانوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔
سب کو معلوم تھا کہ عمران خان کا جانا ٹھہر گیا ہے مگر وہ نجانے کس انتظار میں تھے ؟ کون سی ایسی بات
تھی جو انہیں مستعفی ہونے سے روک رہی تھی ۔ سابق وزیراعظم نے اپنے آخری روز تو تما م حدیں پار کردی تھیں اور ایک موقع پر یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ خلاف توقع ہونے والا ہے ۔ایسی ایسی خوفناک اطلاعات آ رہی تھیںکہ انہیں بیان کیا جاسکتا ہے نہ سوچ کے دریچوں سے نکالا جاسکتا ہے ۔سوچنے بیٹھوں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح جمہوری حکمران آئین شکنی کے مرتکب ہوسکتے ہیں ۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کچھ برا نہیں ہوا۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضا تھا جو پورا ہوا اور تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی ۔ اگر اس دن ووٹنگ نہ ہوتی تو توہین عدالت پر عمران خان کو سز اہوسکتی تھی اور وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہوسکتے تھے ۔ اگر عمران خان نااہل ہوجاتے تو تحریک انصاف کا کیا بننا تھا ؟ پوری جماعت میں ایک بھی ایسا سیاستدان نہیںجو عمران خا ن کا متبادل ہو۔ میرے نزدیک عمران خان نے ووٹنگ کے لیے ہامی بھر کر اپنی جماعت کو بچا لیا ورنہ تحریک انصاف کو تحریک استقلال بننے میں دیر نہیں لگنی تھی ۔
آئین کی سربلندی کی خوشی اپنی جگہ مگر دکھ تو یہ ہے کہ ایک اور وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا ۔عمران خان صرف تین سال سات ماہ اور بائیس دن مسندِ اقتدار پر براجمان رہے ۔میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کسی بھی جماعت کا وزیراعظم کبھی بھی اپنی مدت پوری کیوں نہیں کرپاتا۔
میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی کسی سے نہیں بنتی ‘ اسی لیے انہیں ہر بار وقت سے پہلے جانا پڑتا ہے ۔وہ کبھی اعلیٰ عدلیہ سے محاذ آرائی شروع کردیتے ہیں اورکبھی دیگر اداروں سے‘ مگر عمران خان کے تو سب کے ساتھ مثالی تعلقات تھے ۔وہ تو خود ببانگ ِ دہل کہا کرتے تھے کہ ادارے ان کے منشور کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم ہمیشہ سیم پیج پر رہیں گے ۔ پھر کیا ہوا؟کیا عمران خان نے میاں نواز شریف کے انجام سے کچھ نہیں سیکھا؟کیا اپوزیشن کے ساتھ لڑائی ختم ہوگئی تھی جو انہیں نئے محاذ کھولنا پڑے ؟پنجابی کا محاورہ ہے کہنا دھی نوں تے سنانا نو نہہ نوں۔واقفان ِ حا ل کہتے ہیں کہ امریکی خط تو بہانہ ہے اصل میں سابق وزیراعظم کا مخاطب تو کوئی اورہے ۔میاں نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر گھر بھیجا گیا تو وہ ہر جلسے جلوس میں سوال کیا کرتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا۔ اس وقت عمران خان اور ان کی جماعت نوا ز شریف کا مذاق اڑایا کرتی تھی مگر قسمت کا پھیر دیکھئے کہ آج وہ خود گلہ گزار ہیں کہ انہیں کیوں نکالا۔
سیاستدانوں کی بدقسمتی ہے کہ یہ اپنے سیاسی مخالف کے برے وقت سے کچھ سیکھتے ہیں نہ عبرت حاصل کرتے ہیں۔عمران خان اگر تصادم اور مخاصمت کو ہوا نہ دیتے تو ان کے پاس مثالی موقع تھا کہ وہ اپنی مدت پوری کرتے اور عوام سے کیے ہوئے وعدوں کی جانب بڑھتے۔ شومئی قسمت ایسا نہ ہوسکا ۔ وہ بھی میاں نواز شریف ‘ یوسف رضاگیلانی ‘ بے نظیر بھٹو ‘ محمد خان جونیجو اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح آدھی راہ سے لوٹ آئے ۔ میکاؤلی کا ماننا تھا کہ سیاستدانوں کی انا انہیں لے ڈوبتی ہے ۔اگر انا سیاستدانوں کے پیروں کی بیڑیاں نہ بنے تو انہیں لیڈر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ جو ہونا تھاوہ ہو چکا ۔اب وہ اقتدار کی چھاؤں سے نکل کر اپوزیشن کی دھوپ میں آ گئے ہیں اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی اقتدار میں واپسی ہوئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا کرنا ہے ؟ کیا میاں شہباز شریف بھی عمران خان کے نقش ِ قدم پر چلیں گے ؟ کیا تحریک انصاف کے اکابرین کوبھی جیلوں میں ڈالا جائے گا ؟کیا سیاسی انتقام کی بھٹی اب بھی شعلے اگلتی رہے گی ؟ کیا الزام تراشی اور جھوٹ کی دکانیں اب بھی کھلی رہیں گی ؟اگر میاں شہباز شریف بھی اس راہ پر چل پڑے تو پھر معیشت کو سنبھالا کون دے گا ؟ مہنگائی اور بے روزگاری کی آگ کون بجھائے گا ؟زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا کون دے گا ؟روپے کی بے قدری کون روکے گا ؟ملک کو قرضوں کی دلدل سے کون نکالے گا؟ داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا کون کرے گا ؟ملک بھر میں لگی نفرت کی آگ کو کون بجھائے گا ؟سیاسی بیانیے کے نام پر انتشار کو ہوا دینے والوں کا راستہ کون روکے گا؟ اس وقت پورا ملک دوبیانیوں میں تقسیم ہوچکا ہے ۔ہر کوئی پراپیگنڈاکرنے میں مگن ہے ۔ کوئی غداری کے فتوے بانٹ رہا ہے تو کوئی نااہلی کے طعنے دے رہاہے ۔ کسی کو آرٹیکل پانچ کا مرتکب ٹھہرایا جارہاہے تو کسی کو آرٹیکل
چھ کا ملزم بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔
سیاسی لڑائی نے عام آدمی کی اخلاقیات کو بھی بگاڑ دیا ہے۔اب گالی دینا‘ الزام تراشی کرنا‘ جھوٹ بولنااور دست وگریباں ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں رہی ۔سوشل میڈیا بیانیے کی اس جنگ کو ایندھن فراہم کررہاہے۔ حالات بہت دگرگوں ہیں اور اگر سیاستدانوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو سیاسی لڑائی ملک میں بدامنی کو فروغ دے گی ۔ سابق وزیراعظم عمران خا ن اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ ضد اور انا کی راہ کو ترک کردیں۔ تحمل ‘ برداشت اور بردباری کا دامن تھام لیں ۔ امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی تو نقصان جمہوریت کو ہوگا۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ پلٹ کر وار کرتی ہے۔تحریک انصا ف بھی ضرور انتقام لینے کی آرزومند ہوگی ۔صرف اتنا دھیان رہے کہ وقت انتقام کا ہے بھی یانہیں ۔ الیکشن بھی کچھ دور نہیں‘ اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو الیکشن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں