عمران خان چین سے نہیں بیٹھیں گے!

اہلیت، صلاحیت اور قابلیت فیصلہ کرتی ہے کہ کون کس کا متبادل بن سکتا ہے۔پھول کا نعم البدل کانٹا ہوسکتا ہے نہ کانٹے کا پھول۔سایے کا مقابلہ دھوپ سے کیا جاسکتا ہے نہ دھوپ سایے سے کوئی مطابقت رکھتی ہے۔شہد کا بدل زہر ہوسکتا ہے نہ زہر کا شہد۔سب کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں اور اپنے اپنے نقصانات۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انسانوں سے ان کی صلاحیت، اہلیت اورقابلیت کے مطابق کام لیا گیا تو نتیجہ حیران کن حد تک مثبت رہا۔ارسطو کو فلسفے کا جنون تھا، اکبر کو حکمرانی‘ آئن سٹائن کو سائنس اور غالبؔ کوشاعری کا جبکہ امیرتیمور کو جنگوں میںمہارت حاصل تھی۔ اگر یہ شخصیات اپنے جنون سے آنکھیں پھیر لیتیں تو کیا اپنے فن میں یکتا ہوسکتی تھیں؟ ڈاکٹر کا کام ڈاکٹر کر سکتا ہے اور وکیل کا وکیل۔ قضاہ کے منصب کے ساتھ جج ہی انصاف کرسکتا ہے اور عالم کے مربتے کی عالم ہی عزت بڑھا سکتا ہے۔یہ فرائض کوئی اور انجام دے گا تو پھر وہی حال ہوگا جو سیاست کے میدان میں ہوتاہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے سیاستدان بننے کے لیے کوئی اہلیت، کوئی صلاحیت یا کسی تعلیم کی ضرورت نہیں سمجھتی جاتی۔ کچھ سیاستدان باپ‘ دادا کی سیاسی گدی پر براجمان ہوتے ہیں اور کچھ پیسے اور تعلقات کے زور پر اوپر آجاتے ہیں۔ہمارے ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرحضرات کا پروفائل دیکھاجائے تو حیرتوں کے نئے جہاںکھل جاتے ہیں۔ کوئی تیس سال تک یورپ میں پیسہ کما تا رہا اور وطن واپس لوٹتے ہی سیاستدان بن گیا۔ کوئی ساٹھ سال تک سرکاری ملازمت کرتا ہے اور ریٹائر ہوتے ہی ایم این اے بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ کوئی تین‘ چار دہائیوں تک کھیلوں سے وابستہ رہا اورپھر یکایک سیاست کی غلام گردشوں میں داخل ہوگیا۔کوئی پچاس سال تک کاروبار ی دنیا میں مگن رہا اور پھر پیسے کے بل بوتے پر وفاقی وزیر بن گیا۔ کوئی خاتون پچیس سال گھرداری کرتی رہی اور پھر ایک دن کھانا پکانا چھوڑ کر مخصوص نشستوں پر ایم این اے بن گئی۔جب حالات یہ ہوں گے تو قائداعظم کے نقش قدم پر چلنے والے سیاستدان کہاں سے جنم لیں گے۔
یہ سیاست کی کہانی کا ایک رخ ہے‘ دوسرارخ اس سے قدرے مختلف ہے اور خوفناک بھی۔نجانے ہمارے عوام کو کیا ہوگیا ہے جو انہوں نے سیاستدانوں کو کام کی بنیاد پرکھنا چھوڑ کر ذاتی پسند اور ناپسندکو پیمانہ بنالیا ہے۔ دنیامیں کوئی جمہوری ملک ایسانہیں جہاں حکمرانوں کو ظاہری خوبصورتی اور شہرت کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہو۔قدیم زمانوں میں جب کوئی حکومت قائم ہوتی تھی تو اس کے دواولین مقاصد سمجھے جاتے تھے۔ اول: معاشرے میں پائی جانے والی حق تلفی کو روکنا۔ دوم: عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کرنا۔ اب وقت کروٹ لے چکا مگر حکومت کے مقاصد کل بھی وہی تھے اور آج بھی وہی ہیں۔ کل بھی حکمران قابلیت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور آج بھی حقِ حکمرانی کا پیمانہ یہی ہے۔ جو باصلاحیت ہے‘ وہ حکمران بنے اور جو اس کام کے لیے نااہل ہے وہ گھر چلا جائے۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے عوام گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے عجب مخمصے کا شکار ہے۔
ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہیں قابلیت اور صلاحیت کی کسوٹی پر پرکھا جاتامگر ایسانہ ہوسکا۔ انہوں نے امریکا مخالف ایسا بیانیہ بنایا کہ بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ آج نہ تو کوئی عمران خان کے دورِ اقتدار کی معیشت کی بات کررہا ہے اور نہ مہنگائی کی۔ ان کی انتظامی صلاحیت کے چرچے ہورہے ہیں نہ چینی، گندم، آٹا اور ادویات سکینڈلز کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔عثمان بزدار کی سیاسی اہلیت زیرِ بحث ہے نہ محمود خان کی۔ہم نجانے کیوں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے کہ عوام نے عمران خان کو ووٹ کس بنیاد پردیا تھا؟ ان کا الیکشن منشور کتنا پُر کشش تھا او ر دعوے کتنے بڑے۔ انہوں نے ملک سے نوے دن کے اندر کرپشن کا خاتمہ کرنا تھا‘ کیا پونے چارسالوں میں بھی ایسا ہوسکا؟پولیس اور پٹوار کے نظام میں اصلاحات لانا تھیں، لوٹی دولت واپس قومی خزانے میں واپس جمع کرانا تھی، ایک کروڑ نوکریاں دینی اور پچاس لاکھ گھر بنانے تھے، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو مثالی بناناتھا، کراچی کی تقدیر بدلناتھی، جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا تھا، پاکستان کی آئی ایم ایف سے جان چھڑانا تھی، ملک سے قرضوں کا بوجھ کم کرنا تھا، آٹھ ہزار ارب روپے سالانہ ٹیکس اکٹھا کرنا تھا،سائنس اور آئی ٹی کے شعبوں کو بامِ عروج تک پہنچانا تھا،مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنا تھا اور معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرناتھا۔آپ خود فیصلہ کریں کہ عمران خان کی پونے چار سالہ حکومت نے کون سا وعدہ وفا کیا اور کون سانہیں۔
کھلے ذہن کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو معیشت کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔گزشتہ حکومت معیشت کو پاتال میں دھکیل گئی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ موجود ہ حکومت اس معیشت کو کیسے سنبھالے گی جس کے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میںبجٹ خسارہ 25 کھرب 60 ارب سے زیادہ ہو، جہاں تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالر، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 ارب ڈالر سے زائد، مہنگائی کی شرح 13 فیصد،ڈالر 190 روپے سے تجاوز کرچکا ہو،زر مبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر، شرحِ سود سوا بارہ فیصد،قرضے 45ہزار ارب کے قریب ہوں،گردشی قرضہ 2500 ارب اور حکومت پٹرول اور ڈیزل پر ماہانہ سو ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہو۔میرے نزدیک ایسی معیشت کو چلانا چھ ماہ‘ ایک سال کے مینڈیٹ کے ساتھ آنے والی کسی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ اگر یہ حکومت عارضی طور پر آئی ہے تو پھر معیشت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ حکومت بھی عمران خان کی طرح پاپولر فیصلے کرے گی جبکہ معیشت کو مشکل اور دیرپا فیصلوںکی ضرورت ہے۔ کاش! عوام سیاسی بیانیوں میں جا ن ڈالنے کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق چلنا سیکھ جائیں‘ اس سے بہت سی مشکلات کا راستہ خود بخود رک جائے گا۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کوئی بھی راستہ بدلنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ کوئی بھی ہماری رائے کو منقسم کرسکتا ہے۔ ہمارے ہاں حکمران جب بھی ناکام ہوتے ہیں تو وہ مغرب مخالف ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ لے کر چلتے ہیں۔ مذہبی جذبات کو ابھارتے ہیں یا قومی غیرت کا نعرہ لگاتے ہیں۔ آج سے نہیں‘ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوہوں یا ضیاء الحق، میاں نواز شریف ہوں یا محترمہ بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف ہوں یا عمران خان‘کوئی بھی ایسا حکمران نہیں آیا جس نے یہ کھیل نہ کھیلا ہو۔ کاش !عوام کو یہ ادراک ہوجائے کہ حکمرانوںکو جانچنے کا ایک ہی پیمانہ ہے اوروہ ہے طرزِ حکمرانی۔ جتنی جلدی عوام اس روش کو اپنا لیں‘ ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
اس وقت سری لنکا کے جو حالات ہیں‘ وہ ایک دن میں نہیں بنے۔ سری لنکا کے معاشی اور سیاسی بحران کی وجوہات بھی وہی ہیں جو ہمارے معاشی اور سیاسی مسائل کے اسباب ہیں۔ سری لنکا میں بھی زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوچکے ہیں‘ بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہے، کرنسی کی تیس فیصد سے زائد بے قدری اور سب سے بڑھ کر خاندانی سیاست اور اقربا پروری۔ وزیراعظم شہباز شریف کو بھی چاہیے کہ ملکی حالات کو جذبات سے بالاتر ہو کر دیکھیں۔ ملک اس وقت معاشی، سیاسی، آئینی اور انتظامی بحران کا شکار ہے۔ جیسے جیسے آئینی او ر سیاسی بحران کا دورانیہ طویل ہورہاہے‘ ویسے ویسے معاشی اور انتظامی بحران شد ت پکڑرہاہے۔ مت بھولیں کہ معیشت کی بہتری کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ناگزیر ہے اور سیاسی استحکام کے لیے نئے انتخابات۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ عمران خان الیکشن کے اعلان تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور جب تک وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گے‘سیاسی استحکا م کا خواب پورا نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں