دھرنے کافیصلہ کیوں کیا گیا ِ؟

مولانا روم کا قول ہے کہ شیطان کی سب سے بڑی میراث جہالت اور تکبر ہے۔ یہ ترکہ کسی شخص کے حصے میں آئے یا پوری قوم کے‘ تباہی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ کسی نے پوچھا: جہالت کیا ہوتی ہے؟ جواب دیا: اندھی تقلید۔ اندھی تقلید وہ کرتا ہے جو سوچنے‘ سمجھنے اور غور و فکر کرنے سے عاجز ہو یا ایسا کرنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتا ہو۔ دوسری طرف آدمیت کی سب سے بڑی پہچان غور و فکر ہے، غلط اور صحیح میں فرق ہے، اچھے اور برے میں تمیز ہے، سچ اور جھوٹ کو الگ کرنے کی اہلیت ہے۔ جو آدمیت کے راستے پر چلتا ہے وہ پار نکل جاتا ہے جبکہ جو جہالت اور تکبر کی راہ لیتا ہے‘ وہ بھٹک جاتا ہے اور بھٹکے ہوؤں کو منزل نہیں‘ راستوں کی گرد ملتی ہے۔ ہمارا قومی المیہ ملاحظہ کریں! پچھتر برس قبل ہم آگ اور خون کا دریا پار کرکے ایک قوم بنے تھے مگراب دوبارہ تقسیم ہو چکے ہیں۔ پہلے دوسروں سے گھتم گتھا ہوئے تھے‘ اب آپس میں دست وگریباں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے پہلے قیامِ پاکستان کی جستجو نے ہمیں یکجا کیا تھا مگر اب اندھی تقلید ہمیں منقسم کر رہی ہے۔
وہی ہوا‘ جس کا ڈر تھا۔ عمران خان نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دو مطالبات ہیں؛ ایک اسمبلیاں توڑیں اور دوسرا الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔ حکومت عمران خان کے مطالبات پر کان دھرے گی یا نہیں‘ یہ کہنا قبل از وقت ہے مگر ایک بات طے ہے کہ لانگ مارچ تمام چہروں سے نقاب اتار د ے گا۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن میں سے جس کو بھی ملکی مفاد عزیز ہوگا‘ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ جائے گا اور اگر دونوں کو اقتدار اور سیاسی مفادات سے لگاؤ ہوا تو یہ معاملہ شدت اختیار کر جائے گا۔ لانگ مارچ کا صرف حکومت پر ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں پر بھی پریشر ہوگا۔ انہیں بھی فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کی لہروں پر ہچکولے لیتی ناؤ کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ پہلے دن تو حکومت کنیٹنروں‘ لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے مظاہرین کو باہر نکلنے اور آگے بڑھنے سے روکنے میں کامیاب نظر آئی مگر سوال یہ ہے کہ کتنی دیر تک ان کو روکا جا سکتا اور روک کر رکھا جا سکتا ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مظاہرین ریڈ زون کی جانب بڑھے تو کیا حکمت عملی ہو گی اور اگر امن و امان کی صورت حال مخدوش ہوئی تو ذمہ داری کیسے نبھائی جائے گی؟ ایک بات طے ہے جو منظرنامہ نظر آ رہا ہے وہ ریاستِ پاکستان کے لیے بالکل اچھا نہیں۔ ہماری معیشت پاتال سے جا لگی ہے، ڈالر بے لگام ہے اور مہنگائی کنٹرول سے باہر۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں اور ملک پر قرضوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نیا قرضہ دینے کے لیے بھاری شرائط عائد کر رہا ہے مگر ہماری حکومت کوئی بھی فیصلہ لینے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔ وہ قرضہ لینا بھی چاہتی ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کا بوجھ اٹھانے سے بھی منکر ہے۔ سب جانتے ہیں کہ معیشت کے دگرگوں حالات عدم استحکام کے متحمل نہیں ہو سکتے مگر افسوس! کوئی بھی اپنے سیاسی مفادات کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ حکمران حقِ حکمرانی کے خمار میں ہیں اور عمران خان مسندِ اقتدار پر دوبارہ بیٹھنا چاہتے ہیں۔
اس میں کیا شبہ ہے کہ موجودہ حالات کی زیادہ ذمہ داری حکومتی اتحاد کے کندھوں پر آتی ہے کیونکہ انہوں نے مسائل کا بوجھ اٹھانے کے لیے خود اپنی کمر پیش کی تھی۔ انہیں ایسا کرنے کے لیے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔ اس وقت حکومت کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مسلم لیگ (ن) آخر کیوں اقتدار چھوڑنے پر تیار نہیں۔ کوئی حکومت سے پوچھے کہ حکومتی رٹ ہے کہاں؟ ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد بھی پنجاب میں کابینہ تشکیل دی جا سکی ہے نہ نئے گورنر کی تعیناتی عمل میں آ سکی ہے۔ صدر مملکت وزیراعظم صاحب کی ایڈوائس پر کام کرنے سے انکاری ہیں اور سپیکر پنجاب اسمبلی اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے خلاف کیس عدالت میں ہے اور دوبارہ الیکشن بھی خارج از امکان نہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈی سیٹ ہو چکے ہیں۔ وفاق اور صوبے میں آئین کی عملداری نظر آ رہی ہے نہ قانون کی رٹ۔ ہر طرف سیاست ہی سیاست ہو رہی ہے۔ کوئی کسی کا حکم ماننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ دکھ تو یہ ہے کہ ملکی مفاد کے فیصلے بھی سیاست کی نذر ہو رہے ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیںکہ ''وزیراعظم کو ہر طرف سے سپورٹ کیا جائے تو ملک کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ پتا نہیں تھا کہ عمران خان کو نکالنے کے بعد ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں گے‘‘۔غور کیا جائے تو یہ بیان انتہائی تشویش ناک ہے۔ اگر حکومت کو کچھ کرنے نہیں دیا جا رہا ہے تو وہ اقتدار کی رسی کو دراز کیوں کر رہی ہے؟ وہ نئے الیکشن کا اعلان کیوں نہیں کر دیتی؟ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جس میں اختیار ہی نہ ہو؟ کیا وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو اندازہ نہیں کہ ملکی معیشت میں ہر دن اہم ہوتا ہے۔ فیصلوں میں ذرا سی تاخیر زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر سیاسی حالات میں بہتری نہ آئی تو معیشت مزید گہرائیوں میں گر جائے گی‘ پھر حکومت کس منہ سے عوام کا سامنا کرے گی۔ سابقہ حکومت کی معاشی غلطیاں کا حساب بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو دینا پڑے گا۔ کیا وہ یہ بوجھ اٹھا پائیں گی؟ اگر جواب نفی میں ہے تو حکومت کو چاہیے الیکشن کا اعلان کر دے یا اگر مدت پوری کرنے کا فیصلہ کرے تو پھر پوری دلجمعی سے اس پر قائم رہے اور اسی مطابق فیصلے کرے۔ پھر پی ٹی آئی کے دھرنے کو بھی حکمت کے ساتھ ڈیل کرے۔ ملک آدھا تیتر آدھا بٹیر کی کیفیت میں زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
دوسری طرف عمران خان کے لانگ مارچ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ انہوں نے اپنے ماضی کے دھرنوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ وہ آج بھی حقیقت کی دنیا سے کوسوں دور خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ کیا وہ 2014ء کا ناکام تجربہ بھول گئے ہیں؟ جب وہ 126دن کے تلخ ایام گزارنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں کر پائے تھے بلکہ الٹا معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ حکومتی تخمینے کے مطابق 2014ء کے دھرنوں کے باعث ملکی معیشت کو مجموعی طور پر 547 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جبکہ پبلک پراپرٹی کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ الگ ہے۔ میرے نزدیک انہیں لانگ مارچ اور دھرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے ملکی معیشت کا ضرور سوچنا چاہیے تھا۔ وہ ملک کے وزیراعظم رہے ہیں، انہیں بخوبی معلوم ہے کہ دھرنے ملکی معیشت کے لیے کتنے مہلک ہوتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار گھبرا جاتے ہیں اور سٹاک مارکیٹ کریش کر جاتی ہے۔ ہر طرف بے یقینی کا ماحول ہوتا ہے اور چلتے کاروبار بند ہونے لگتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس بار دھرنے کا نتیجہ پہلے دھرنے سے مختلف ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں پہلے کی طرح نامراد ہی لوٹنا پڑے مگر ایک بات طے ہے کہ دھرنوں سے ملکی معیشت کو پہلے بھی نقصان پہنچا تھا اور اب بھی یہی ہو گا۔ البتہ پہلے دھرنے اور حالیہ دھرنے میں ایک نمایاں فرق ہے۔ 2014ء میں دھرنے کے وقت موسم خوشگوار تھا‘ اب شدید گرمی ہے۔ اتنے سخت موسم میں عمران خان نے دھرنے کی کال دے کر بہت بڑا رسک لیا ہے۔ میرے خیال میں اتنی شدید گرمی میں اگر دھرنا دیا جاتا ہے تو وہ ایک ہفتے سے زیادہ ممکن نہیں ہو گا۔ اگر تحریک انصاف نے ضد نہ چھوڑی تو عوام کی دھرنے میں دلچسپی کم ہو جائے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان ٹھنڈے دل سے سوچیں اور کوئی مناسب فیصلہ کریں۔ دھرنوں اور احتجاجی سیاست کا فیصلہ تحریک انصاف اور ملکی معیشت‘ دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں