عمران خان اور نواز شریف میں فرق

''آپ صبح کا دل نکال کر رات کے سینے میں دفن کر سکتے ہیں، دوپہر کی سانسیںچرا کر شام کو مزید سحر انگیز بنا سکتے ہیں۔ پہاڑوں کو صحرائوں میں تبدیل کر سکتے ہیں اورصحرائوں کو سمندر میں بدل سکتے ہیں مگر جو نہیں کر سکتے وہ سیاستدان کے دل سے اقتدار کی تمنا کا خاتمہ ہے۔ شباب سے بچھڑا ہوا ہر شخص اپنے شباب کی دنیا میں لوٹ جانے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ ان دنوں میاں نواز شریف کے من میں بھی ایسی ہی حسرتیں مچل رہی ہیں۔ ان پر لندن کی تمام تر رعنائیاں اور لطافتیں جلوہ گر ہیں مگر وہ ماضی میں سانسیں لے رہے ہیں۔ کیوں؟ حکمرانی کی لت واقعی سب سے بڑی لت ہے اور حکومت کرنے کا نشہ سب سے بڑا نشہ۔
آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
کیا بتائوں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا‘‘
مذکورہ بالا تحریر میں نے دو سال قبل میاں نواز شریف کی کیفیت بھانپ کر لکھی تھی۔ اس وقت عمران خان وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر براجمان تھے اور مجھے لگتا تھا مستقبل میں اگر عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو وہ مختلف رویہ اپنائیں گے۔ وہ میاں نواز شریف کی طرح ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کا بیانیہ لے کر عوام میں جائیں گے نہ اداروں پر الزام تراشی کریں گے۔ وہ آئین کوسر بلند رکھیں گے اور قانون کا حکم مانیں گے۔ وہ عوام کو تقسیم کریں گے نہ نفرت انگیز تقریریں سننے کو ملیں گی مگر افسوس! وقت آنے پر میری رائے محض خام خیالی ثابت ہوئی کیونکہ سیاستدان آخر سیاستدان ہی ہوتے ہیں اور اقتدار ان کی آخری منزل۔ اگر حالات کا جبر کسی سیاستدان کو اقتدار سے الگ کر دے تووہ پلٹ کر وار ضرور کرتا ہے اور اس کوشش میں ملکی مفادات پہ زد آئے یا عوامی ترجیحات کو ضرب لگے‘ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ماضی میں جینے لگتا ہے اور اپنے حال کو مشکل بنا لیتا ہے۔ اس وقت وطنِ عزیز کے جوحالا ت ہیں‘ انہیں دیکھ کرلگتا ہے کہ عمران خان تو میاں نواز شریف سے بھی دوہاتھ آگے ہیں۔ وہ یہ بات ماننے کے لیے تیارہی نہیں ہیں کہ مسندِ اقتدار پر ان کے بجائے میاں شہباز شریف بیٹھ چکے ہیں۔ انہیں یہ بات پریشان کر رہی ہے کہ ادارے نیوٹرل کیوں ہیں اور کوئی بھی ان کی مدد کو کیوں نہیں آرہا؟ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی امریکا کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور کبھی اداروں کو۔ کبھی حکمران اتحاد پر تنقید کرتے ہیں اورکبھی عوام کے جذبات کو اشتعال دلاتے ہیں۔ کبھی وہ عدلیہ کا رخ کرنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی الیکشن کمیشن کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔ کبھی شہر‘ شہر جلسے کرتے ہیں اور کبھی اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ۔ افسوس کہ پی ٹی آئی رہنمائوں کو یہ ادراک ہی نہیں کہ ان کی حکومت کو آئینی طریقے سے ختم کیا گیا تھا‘کسی غیر آئینی روش سے نہیں۔ وہ یہ احساس بھی نہیں کررہے کہ ان کی اقتدار میں لوٹنے کی خواہش کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے جو ملکی معیشت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوںکہ کوئی اپنے آشیانے کو اپنے ہاتھوں سے کیسے نذرِ آتش کرسکتا ہے؟ آنند بخشی کے گیت کا ایک شعر ملاحظہ کریں:
پت جھڑ جو باغ اجاڑے‘ وہ باغ بہار کھلائے
جو باغ بہار میں اجڑے اسے کون کھلائے
'آزادی مارچ‘ کی ناکامی کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور تحریک انصاف کا یقین متزلزل ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا آئینی حق ہے مگر اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ احتجاج کرنے والوں کے مطالبات آئینی ہیں یا نہیں۔ میرے نزدیک کسی کوبھی دھرنوں کے ذریعے حکومت گرانے کا حق حاصل نہیں۔ آپ کیسے ریاست کو بلیک میل کرکے نئے الیکشن کا اعلان کرا سکتے ہیں؟ ہر دو تین سال کے بعد الیکشن کرانا کوئی مذاق نہیں۔ انتخابات پر اربوں روپے کا خرچ آتا ہے جو عوام کی جیب سے جاتا ہے۔ آئین میں حکومت کو گھر بھیجنے کے دو ہی طریقے درج ہیں؛ ایک‘ وزیراعظم اسمبلیاں توڑ دیں اور دوسرا تحریک عدم اعتماد۔ اگر کہیں یہ لکھاہے کہ آپ دھرنا دے کر حکومت کوچلتا کرسکتے ہیں تو وہ شق عوام کو بھی بتا دیں تاکہ ابہام ختم ہوجائے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ جب کسی بھی جماعت یا گروہ کے مطالبات غیر آئینی ہوں گے تو انہیں عوام اور اداروں کی سپورٹ کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ خان صاحب کو سوچنا ہوگا کہ آزادی مارچ میں عوام کی عدم دلچسپی کی وجوہات کیا ہیں؟ پنجاب تو ایک طرف‘ خیبر پختونخوا سے بھی انہیں وہ سپورٹ نہیں مل سکی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ پنجاب اور اسلام آباد میں پولیس نے جو کیا‘ کچھ حلقے اسے ریاست کی رِٹ کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔ آج پی ٹی آئی اس پر شدید تنقید کر رہی ہے مگر پنجاب پولیس سے یہی کام ایک سال پہلے عمران خان حکومت نے بھی لیا تھا جب تحریک لبیک دھرنوں کی سیاست کر رہی تھی۔ اس وقت ان دھرنوں کو ریاست کو بلیک میل کرنے کے مترادف قرار دیا جا رہا تھا۔ اگر اس وقت حکومت کی پالیسی ٹھیک تھی تو اب غلط کیسے ہو گئی؟ جب مظاہرین ریاست کے سب سے اہم ستون یعنی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے لانگ مارچ کریں گے تو پولیس ریاست کا دفاع کرے گی یا مظاہرین کے ساتھ کھڑی ہوگی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر نادان و عاقل کو معلوم ہے‘ تشریح کی ضرورت نہیں۔
خان صاحب نے اچھا فیصلہ کیا جو دھرنا دینے کے بجائے واپس لوٹ گئے ورنہ حالات کی تلخی کا بوجھ وہ اٹھاسکتے تھے نہ حکومتِ وقت۔ اس سارے قضیے میں دکھ کی بات یہ ہے کہ جب پی ٹی آئی کے عام ورکرز سٹرکوں پر پولیس سے مار کھارہے تھے اور شیلنگ کا سامنا کررہے تھے‘ ٹھیک اسی وقت عمران خان کی ایما پر حکومت سے مذاکرات کیے جارہے تھے۔ اگر مذاکرات کے بعد جلسہ ہی کرنا تھا تو پہلے دھرنے کی کال کیوں دی گئی؟ اپنے ورکرز کی امتحان میں کیوں ڈالا گیا؟ سارا دن عام شہریوں کو اذیت میں مبتلا کیوں رکھا گیا؟ اگرآپ کی دھرنا دینے کی تیار ی نہیں تھی تو پہلے ہی جلسے کا اعلان کر دیتے اور باقی شہروں کی طرح کامیاب جلسہ کرکے واپس چلے جاتے۔ اپنے ورکرز کو اتنے امتحان میں ڈالنا کہاں کی دانشمندی تھی؟ اسلام آباد میں عمران خان نے اعلان کیا کہ ''اگر الیکشن کا اعلان نہ کیا گیا تو چھ دن بعد دوبارہ دھرنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے‘‘۔ ان کا کہنا تھا ''پہلے ہماری تیاری نہیں تھی‘ اب ہم پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے‘‘۔ انہیں کون بتائے کہ سیاست میں ''دوبارہ‘‘ کچھ نہیں ہوتا۔ انہیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ آزادی مارچ کی ناکامی سے ان کے بیانیے کو نقصان پہنچا ہے جبکہ حکومت کا حوصلہ دوچند ہوا ہے۔ اب وہ کسی صورت دوبارہ آزادی مارچ کرنے دیں گے نہ دھرنا دینے دیں گے۔ اگر دوبارہ اسلام آباد کارخ کیا گیا تو حکومت پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ روکے گی۔ شاید اس بات کا ادراک انہیں بھی ہے اور اسی خطرے کے پیشِ نظر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عدالت انہیں دھرنا دینے کی اجازت دے۔ اس بارے میں کیا فیصلہ آتا ہے‘ سب اس کے منتظر ہیں مگر پی ٹی آئی کا جو مطالبہ ہے‘ اس کے پیشِ نظر انہیں زیادہ امیدیں نہیں باندھنی چاہئیں۔
ہر پاکستانی کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ سیاسی حالات میں ٹھہراؤ آئے۔ تحریک انصاف احتجاجی سیاست ترک کرکے پارلیمانی سیاست کا حصہ بنے۔ پارلیمنٹ میں اہم قانون سازی ہورہی ہے‘ وہ اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ تحریک انصاف کی غیر موجودگی میں نیب ترمیمی بل اور الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پارلیمنٹ سے پاس ہوچکے ہیں، الیکشن کمیشن میں تعیناتیاں ہو رہی ہیں۔ چیئرمین نیب کی تعیناتی ہونے کے قریب ہے۔ تحریک انصاف اگر قومی اسمبلی میں‘ قانون سازی کے عمل میں فعال نہیں ہوگی تو پھراداروں کے سربراہان کی تعیناتی اور اگلے انتخابات غیر متنازع کیسے بنائے جائیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں