غیر آئینی مطالبہ

بادل برسنے سے پہلے چھٹ جائیں تو بارش کی امید رکھنا عبث ہے۔ پھول کھلنے سے قبل مرجھا جائیں تو بہار کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ منزل پر پہنچنے کی امید دم توڑ جائے تو لوٹ جانے ہی میں حکمت ہوتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اچھا کیا جو دوبارہ آزادی مارچ کرنے کی تاریخ نہیں دی۔ کوئی اسے یوٹرن کہے یا کچھ اور‘ مگر میں اس فیصلے کو دانائی، ہوش مندی اور سیاسی شعورکی پختگی سے تعبیر کروں گا کیونکہ لاحاصل مشق وہ کرتے ہیں جو اپنے تجربات سے نہیں سیکھتے۔ دھوپ میں وہ جلتے ہیں‘ جنہیں چھاؤں سے بیر ہوتا ہے اور چھاؤں سے دشمنی وہ رکھتے ہیں جنہیں سکون سے نفرت ہوتی ہے۔ عمران خان کی منطق عجیب ضرور ہے مگر اتنی حیران کن بھی نہیں کہ بے جا تنقید کی چھری چلائی جائے۔ بشیر بدر یاد آتے ہیں۔
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ آزادی مارچ کی ناکامی کے بعد عمران خان کی طبیعت میں ٹھہراؤ آیا ہے اوران کے لہجے کی تلخی کم ہوئی ہے۔ اب وہ جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے کے آرزومندہیں۔ وہ ایسی کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتے جس سے ان کی مقبولیت کا گراف نیچے آئے مگر افسوس وہ اپنے ارادوں کو جذبات کی قید سے آزاد نہیں کر سکے۔ وہ نجانے کیوں جان بوجھ کر ایک کے بعد ایک متنازع بیان دے رہے ہیں۔ ان کے حالیہ بیان پر تو جتنا افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔ کیا سابق وزیراعظم کو ملک ٹوٹنے اور سکیورٹی کے اداروں کے تباہ ہونے کا خدشہ ظاہر کرنا زیب دیتا ہے؟ کیا اتنی بڑی جماعت کے سربراہ کو ملک کے دیوالیہ ہونے اور ایٹمی پروگرام ختم ہونے کی بھپتی کسنے کی ضرورت تھی؟
میرے نزدیک یہ گفتگو ان کے منصب کے شایانِ شان نہیں تھی۔ انہیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ قومی نوعیت کے معاملات سیاسی بیانیے کا حصہ بن جائیں تو ملک دشمنوں کو سازش اور جگ ہنسائی کا موقع مل جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے خان صاحب کے اس نامناسب بیان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور جی بھر کر دشنام طرازی کی ہے۔ کاش! کوئی خان صاحب تک بھی وہ کلپس پہنچا دے۔ کاش! انہیں بھی ادراک ہو کہ اپنے ہی ملک کے اداروں پر الزام لگانے کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خان صاحب خود کو ملک کے لیے ناگزیر کیوں سمجھتے ہیں؟ حتیٰ کہ معیشت کا جتنا تنزل ان کے دور میں ہوا‘ شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو۔ ان کے دور میں لگ بھگ 20 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا، آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط تسلیم کی گئیں، پاکستانی کرنسی کی قدر میں 66 روپے تک کی کمی آئی، گردشی قرضوں کا حجم دو گنا ہوگیا، سی پیک سست روی کا شکار ہوا اور وہ تاریخ کا بلند ترین تجارتی اور بجٹ خسارہ چھوڑ کر گئے۔ اگر ملک اس وقت دیوالیہ نہیں ہوا تھا تو اب کیسے ہو گا؟
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خان صاحب اس حکومت کو چین سے کام کرنے دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جس طرح انہیں ناکام ثابت کیا گیا‘ ویسے ہی موجود وزیراعظم کے بارے میں بھی رائے بنے۔ جس طرح ان کی حکومت میں مہنگائی اور بدانتظامی کا راج تھا‘ ویسے ہی طعنے مسلم لیگ (ن) کے اکابرین کو بھی سہنا پڑیں۔ جس طرح انہیں سلیکٹڈ کہا جاتا رہا ویسے ہی ان کے مخالفین بھی امپورٹڈ کے الزام تلے دب جائیں۔ جس طرح بیچ بھنور میں انہیں تنہا کیا گیا‘ اسی طرح کے حالات میاں شہباز شریف بھی دیکھیں اور سب سے بڑھ کر‘ جس طرح ان کے عہد میں سیم پیج تار تار ہوا‘ ویسے ہی عہد رواں کے حکمرانوں کو بھی مایوسی نصیب ہو۔ عمران خان سیاسی درجہ حرارت کو جس نہج پر لے گئے ہیں‘ اس سے گمان ہوتا ہے کہ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ یہ حکومت کامیاب ہو، اس کی معاشی پالیسیوں کے ثمرات عوام تک پہنچیں، پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کے نرخ کم ہوں، مہنگائی اور بدانتظامی کا قلع قمع ہو، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو، ڈالر کے مقابلے میں روپیہ تگڑا ہو، سٹاک مارکیٹ اوپر جائے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو، صوبوں کے درمیان مثالی تعلقات ہوں اور ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی دہلیز پار کرے۔ ان خوہشات کی وجہ یہ نہیں کہ وہ پاکستانی عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت ان مسائل کو نکیل ڈالنے میں کامیاب ہوگئی تو عمران خان کا بیانیہ ختم ہو جائے گا۔ لوگ شہباز حکومت کے گُن گائیں گے اور عمران خان کو قصۂ ماضی سمجھ کر بھول جائیں گے۔ اس لیے وہ اس کوشش میں ہیں کہ حالات کی تلخی برقرار رہے اور حکومت کام کرنے کے بجائے الزامات کے جواب ڈھونڈتی رہے۔
چند روز قبل قتل ہونے والے بھارت کے مشہور پنجابی سنگر سدھو موسے والا کی ایک پرانی وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا، وہ ہزاروں لوگوں کے مجمع سے مخاطب تھا: ''یہ دنیا داری بہت گندی چیز ہے۔ جو ٹیلنٹ سے مقابلہ نہیں کرتے‘ وہ الزام تراشی کرتے ہیں۔ جو برابری نہیں کر سکتے وہ بدنامی شروع کر دیتے ہیں مگر یہ سب کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ بدنامی کرنے سے لوگ بدنام ہو سکتے ہیں‘ ناکام نہیں‘‘۔ میں جیسے جیسے سدھو موسے والا کے الفاظ سن رہا تھا‘ مجھے اپنی سیاست کا المیہ سمجھ آ رہا تھا۔ یہ محض ایک گلوکار کی صدا نہیں تھی بلکہ ایک سیاسی تھیوری تھی۔ ایسی تھیوری جس پر عمل کرکے دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک پیچھے رہ گئے۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ جب حکمران طبقہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتا ہو گا تو کون سا ملک ترقی کر سکتا ہے؟ جب حکومت کام کاج چھوڑ کر اپوزیشن کو دبائے گی اور اپوزیشن کا سارا زور حکومت کو ناکام ثابت کرنے پر ہو گا تو عوام کے دکھ درد کیسے دور ہوں گے۔ محروم طبقوں کا ازالہ کون کرے گا اور انصاف کا بول بالا کس طرح ہوگا؟ یہ ہماری سیاست کا ''طرۂ امتیاز‘‘ ہے کہ ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جائے۔ جب کارکردگی میں مقابلہ نہ ہو سکے تو پروپیگنڈے کی دکان سجا لی جائے۔ جب سچ بول کر مقاصد حاصل نہ ہوں تو جھوٹ کا سہارا لیا جائے۔ کوئی ایک جماعت ایسی نہیں جو اس راہ کی مسافر نہ ہو۔ کوئی ایک شخصیت ایسی نہیں جس کا سیاسی چلن دوسروںسے مختلف ہو۔ یہاںسب کی گنگا الٹی بہتی ہے۔ کوئی کسی کو طعنہ دیتا ہے تو کوئی گالی، کوئی الزام لگاتا ہے تو کوئی ذاتی حملے کرتا ہے۔ ہماری سیاست کا چہرہ دشنام طرازی کی کالک سے بھرا پڑا ہے اور ستم یہ ہے کہ کسی کو بھی فکر نہیں۔
عمران خان کو نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ آج بھی لاکھوں پاکستانیوں کی امید ہیں۔ لوگ ان پر جان چھڑکتے ہیں اور ان کا کہا معتبر جانتے ہیں۔ اگر وہ ایسے ہی اداروں کو بدنام، سیاستدانوں کی تضحیک اور پارلیمنٹ کو بے توقیرکرتے رہے تو ان کو کون سنجیدہ لے گا؟ وہ اقتدار کی سیڑھی پر دوبارہ کیسے قدم رنجہ کریں گے؟ میاں نواز شریف ہوں یا مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری ہوں یا سراج الحق‘ ساری سیاسی شخصیات مقتدرہ کے سیاسی رول کی ناقد ہیں اور ان کا مطالبہ رہا ہے کہ اداروں کو سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہیے مگر عمران خان کی خواہش مختلف ہے‘ وہ کہتے ہیں ادارے نیوٹرل کیوں ہیں؟ وہ سیاست میں مداخلت کیوں نہیں کرتے ؟ وہ اپنی آئینی حدود سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟ اب عمران خان کو کون سمجھائے کہ ان کا یہ مطالبہ ہی غیر آئینی ہے۔ وہ کسی ادارے یا محکمے کو کیسے غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرنے کا کہہ سکتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں