روپیہ کیوں گرا اور مہنگائی کیوں ہوئی؟

جیسے میدان جنگ میں لڑائی اپنے خوفناک اثرات چھوڑ کر جاتی ہے ویسے ہی کچھ حکمرانوں کے 'نشاط آفریں‘عہد بھی اپنے پیچھے تلخ یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے حکمران عوام کے دلوں میں نئی امنگوں کی قندیلیں روشن کرنے آتے ہیں اور اختتام پر پن چکی کے پتھروں کی طرح غم کے گہرے پانیوں میں پھینک جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا احساس بھی محض انہیں ہوتا ہے جو غیر جانبدار ہوں، اچھے برے اور سچ‘ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہوں۔ کسی کی اندھی تقلید کرتے ہوں نہ کسی سے بے جا نفرت۔ مصطفی خاں شیفتہ کا شعر ملاحظہ کریں:
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
عمران خان اقتدار میں آئے اور کوئی قابلِ رشک کام کیے بنا چلے گئے مگر دمِ ر خصت ا نہوں نے ایسا سیاسی بیانیہ اپنایا جس سے ان کے پیروکاروں کے دلوں میں محبت جوان ہوتی گئی اور آخر میں ایک کلٹ میں تبدیل ہو گئی۔ خان صاحب نے جو کہا‘ ان کے پیروکاروں نے من و عن مان لیا۔ انہوں نے جس کے خلاف نعرہ لگایا‘ لوگوں نے بھی اس پر الزامات کی بارش کر دی۔ عمران خان نے جس جانب ناگواری سے دیکھا‘ ان کے ورکرز نے پتھر اُٹھا لیے مگر کسی نے بھی عمران خان سے ان کی حکومت کی کارکردگی بارے سوال نہیں کیا۔ ساڑھے تین سال کی کہانی ایک طرف مگر آخری دو ماہ میں عمران حکومت نے معیشت کے ساتھ جو کیا‘ وہ کسی طور بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے جاتے جاتے معیشت کی چولیں ہلا دیں مگر دکھ یہ ہے کہ کسی کو کوئی احساس ہے نہ کوئی ملال۔ آئیے باری باری ان تین فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے باعث معاشی مشکلات دوچند ہوگئیں‘ ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگا اور مہنگائی کنٹرول سے باہر ہوگئی۔
(1) جنوری 2022ء میں عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور لگ بھگ ایک ارب ڈالر کی قسط وصول کی۔ اس معاہدے کے تحت حکومت نے آئی ایم ایف کی پانچ شرائط تسلیم کیں۔ ایک: پٹرولیم لیوی کوہر ماہ چار روپے بڑھا کر چھ مہینوںمیں تیس روپے تک کیا جائے گا۔ دو: جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کی جائے گی اور ہر شعبے میںمساوی طور پر 17 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ تین: بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں گے۔ چار: ترقیاتی بجٹ پر دو سو ارب روپے کا کٹ لگایا جائے گا۔پانچ: سٹیٹ بینک کو خودمختاری دی جائے گی۔ پی ٹی آئی حکومت نے فروری کے پہلے ہفتے میں ایک ارب ڈالر کی قسط تو لے لی مگر معاہدے پر جزوی طور پرعمل کیا۔ حکومت نے28 فروری کو پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں کم کردیں۔ حکومت کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟اگر آئی ایم ایف یا کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ آ پ کو بلیک لسٹ کردے تو دنیا کا کوئی بھی ملک آپ کو قرضہ نہیں دیتا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ حکومت نے سعودی عرب اور چین سے بھی قرض مانگا مگر انہوںنے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پہلے آئی ایم ایف سے معاملات درست کریں‘ پھر قرض ملے گا۔ اسی لیے یہ ساری بھاگ دوڑ کی جارہی ہے اور مہنگائی کے دروازے عوام پر کھولے جارہے ہیں تاکہ آئی ایم ایف کی ناراضی کم ہو اور قرضے کی اگلی قسط مل سکے۔ میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں اگر پی ٹی آئی حکومت معاہدے کی پاسداری کرتی تو آج ڈالر بے لگام ہوتا نہ عوام کو مہنگائی کے اتنے جھٹکے سہنے پڑتے۔
(2)سابقہ حکومت کو پٹرول، ڈیزل اور بجلی پر سبسڈی نہیں دینی چاہیے تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سبسڈی سے عام آدمی کا فائدہ ہوا مگر ہماری معیشت اتنی بڑی سبسڈی کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ کتنی عجیب بات ہے عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالوں میں عوام کو کسی بھی مد میں تھوڑا سا بھی ریلیف نہیں دیا۔ وہ پٹرول اور ڈیزل پر پچاس روپے تک ٹیکس وصول کرتے رہے۔ 15 فروری 2022ء کو عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت 89 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 91 ڈالر ہوئی تو حکومت نے پٹرول کی قیمت 150 روپے فی لٹر سے بڑھا کر 160 روپے کردی جس میں 18 روپے لیوی ٹیکس بھی شامل تھا مگر جب 28 فروری کو عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت مزید بڑھ کر سو ڈالر تک پہنچ گئی تو کمال فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قیمت 150 روپے فی لٹر کردی گئی۔ نہ صرف قیمت کم کی گئی بلکہ اسے بجٹ تک کے لیے فکس کر دیا گیا۔ اس وقت عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت 120 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرچکی ہے اور اگر اس پر سبسڈی جاری رہتی تو یہ ایک ہزار ارب روپے سالانہ بنتی تھی جسے ہماری معیشت کے لیے برداشت کرنا ناممکن تھا۔ یہی نہیں‘ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالوں میں بجلی کا یونٹ 11روپے سے بڑھ کر 22 روپے کاہو گیا مگرحکومت نے آخری دنوں میں فی یونٹ قیمت پانچ روپے کمی کردی۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی حکومت کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کرکی گئی یا وجہ کچھ اور تھی‘ ایک بات طے ہے کہ اگر اس کا فائدہ عوام کو ہوا تو نقصان ریاستِ پاکستان کو ہوا۔ جب 28 فروری کوبجلی، پٹرول اور ڈیزل پر چار ماہ کے لیے سبسڈی دی گئی تو ڈالر 177 روپے کاتھا جو اب 200 روپے سے متجاوز ہو چکا ہے۔ اس میں قصور شہباز حکومت کا بھی ہے کیونکہ انہوں نے سبسڈی ختم کرنے میں بہت دیر کردی۔ اگر آج پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو پٹرول شاید 250 روپے فی لٹر سے بھی مہنگا ہوتا کیونکہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے مطابق ہر لٹر تیل پر تیس روپے پٹرولیم لیوی اور جی ایس ٹی بھی وصول کرنا تھا۔
(3)رواں مالی سال میں ترقی کی شرح 5.97 فیصد بتائی گئی ہے۔ معیشت کی اس گروتھ پر خان صاحب پھولے نہیں سما رہے اور وہ اپنے فالوورز کو بتا رہے ہیں کہ ان کے عہد میں معاشی ترقی کی شرح بہت زیادہ تھی مگر افسوس ! وہ یہ نہیں بتارہے کہ یہ گروتھ کیسے حاصل کی گئی اور یہ معاشی ترقی پائیدار تھی یا وقتی۔ عمران حکومت کے آخری مالی سال کی گروتھ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کی ماہانہ آمدن ایک لاکھ روپے ہو مگر اس کا خرچ ایک لاکھ تیس ہزار روپے ہو اور وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تیس ہزار روپے ماہانہ قرض لیتا ہو۔ اس شخص کاگھر خستہ حال، فرنیچر بوسیدہ اور گاڑی ٹوٹ پھوٹ کاشکا رہو۔ ایک دن وہ شخص بینک سے پندرہ لاکھ روپے مزید قرض لے‘ تین لاکھ روپے سے گھر کی حالت ٹھیک کرے، تین لاکھ کا نیا فرنیچر خریدے اور باقی پیسوں سے اپنی گاڑی اَپ گریڈ کرا لے ۔ اس کے محلے دار، عزیزواقارب اور دوست احباب اس کی ترقی پر حیران رہ جاتے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ آخر چند دنوں میں اس شخص نے اتنی ترقی کیسے کر لی؟اس شخص پر کیا بیت رہی ہے‘ یہ تو وہی جانتا ہے۔ پہلے اسے اپنے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے تیس ہزار روپے ادھار لینا پڑتے تھے مگر اب اسے بینک کی قسطیں دینے کے لیے ہر مہینے مزید چالیس ہزار روپوں کا بندوبست بھی کرنا پڑے گا۔ دنیا کی نظر میں تو وہ شخص ترقی کی منازل طے کررہا ہے مگر آپ خود فیصلہ کریں اس شخص نے ترقی کی ہے یا خود کو مزید مصیبتوں میں الجھا لیا ہے؟معاشی حالات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہی حال پی ٹی آئی حکومت نے معیشت کے ساتھ کیا۔ وہ قرضے لے کر درآمدات بڑھاتے رہے جس سے معیشت میں وقتی ابال آیا اور ترقی کی شرح 5.97 فیصد پر چلی گئی۔ صرف مار چ کے مہینے میں پانچ ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کی گئیں، جس کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر 22 ارب ڈالر سے کم ہوکر یکم اپریل کو 17 ارب ڈالر رہ گئے‘ جس کا فوری نقصان یہ ہوا کہ تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پرچلا گیا، ملک میں ڈالر ز کم ہونے سے روپے کی قدر گر گئی تو حکومت کو شرحِ سود بڑھانا پڑی۔ اب شہباز حکومت نے بھی اپنے پیشرو کی پیروی کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں