بھٹکے ہوئے معاشروں کی نفسیات

اختلافات نظریاتی ہوں یا مذہبی، سیاسی ہوں یا شخصی، یہ جمہوریت کا حسن ہی نہیں، معاشرے میں توازن کی علامت بھی ہوتے ہیں۔ جہاں نظریاتی اختلافات نہ ہوں‘ وہاں زندگی کے رنگ پھیکے پڑجاتے ہیں۔ گھر‘ گھر نہیں لگتا، معاشرے میں گھٹن بڑھ جاتی ہے، شخصی صلاحیتوں کا دم گھٹ جاتا ہے اور ملک کی فضا سے پابندیوں کی بو آنے لگتی ہے، مگر کیا کریں! ان دنوں وطنِ عزیز میں سب سے بڑا جرم ہی نظریاتی اور سیاسی اختلاف بن چکا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حد عبور کرجاتے ہیں۔ اپنے پرائے میں تمیز کی جاتی ہے نہ دوست دشمن میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ منہ میں آئی ہر بات کہہ دی جاتی ہے۔ الفاظ کی تہہ میں چھپے زہر پر مٹھاس کی پرت چڑھائی جاتی ہے نہ لہجوں میں پائی جانے والی تلخی چھپانے کی سعی ہوتی ہے۔ بشیر بدر یاد آتے ہیں:
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
نجانے کیوں ہم قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات بھول گئے ہیں۔ نجانے کیوں ہمیں11اگست1947ء کی شہرہ آفاق تقریر یاد نہیں رہی۔ قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا ''آپ آزاد ہیں، ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو‘ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں‘‘۔ اگرآج ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اورپھر فیصلہ کریں کہ کیا ہم بانیٔ پاکستان کے قول کا ایک فیصد بھی بھرم رکھ رہے ہیں؟ قائداعظم کا ذہن وسیع و کشادہ تھا، جس میں مسلمانوں کے لیے تڑپ کے علاوہ غیر مسلموں کے لیے بھی بھرپور جگہ تھی۔ مگر افسوس! ہمارا دل و دماغ تو اپنے ہم وطنوں کو بھی برداشت نہیں کرتا۔ قائداعظم اپنی تمام تقریروں میں بھائی چارے اور بُردباری کا درس دیتے تھے مگر ہم ہیں کہ عدم برداشت کے پیروکار بن چکے ہیں۔ یوں تو سیاسی اور نظریاتی اختلافات گزشتہ ایک دہائی سے اپنے جوبن پر تھے مگر جب سے عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ہے‘ یہ اختلافات دشمنی میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ گلی‘ محلوں میں تھڑوں پر بیٹھے لوگوں سے لے کر بڑے بڑے کاروباری دفاتر تک شدت پسندی کی رسم پروان چڑھ چکی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دوست‘ دوست کی بات سننے کو تیار ہے نہ باپ بیٹے میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ کہیں استاد شاگرد کا احترام ختم ہو رہا ہے تو کہیں عقیدت کے رشتے سیاست کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ تین دن پہلے ایک دوست سے ملنے گیا تو وہاں دو ڈاکٹر صاحبان بیٹھے آپس میں الجھ رہے تھے۔ سیاسی تکرار کرتے کرتے پہلے دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ میں حیران تھا کہ ڈاکٹرز کا سیاست سے کیا تعلق۔ اگر اتنے پڑھے لکھے اور باشعور افراد بھی یوں سیاسی نفرت اور عصبیت کا شکار ہوں گے تو ملک آگے کیسے بڑھے گا؟ زندگی کا کاروبار کیسے چلے گا؟ اختلافِ رائے اور مکالمے کو فروغ کیسے ملے گا؟ یقین مانیں‘ سیاسی طور پر منقسم معاشرے میں اخلاقی گراوٹ بھی عام ہو چکی ہے۔ گزرے چند ہفتوں میں ایسے افراد سے بھی ملا ہوں جو مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے خوش ہیں۔ وہ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر ٹھٹھے اڑاتے ہیںکہ شہباز شریف کی حکومت مہنگائی بڑھنے کا سبب بن رہی ہے۔ کوئی موڈیز کا حوالہ دے کر تالی بجاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی ریٹنگ منفی کر دی ہے اور کوئی واپڈا کی کریڈٹ ریٹنگ منفی ہونے کا تذکرہ کرتا ہے اور خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ ایک شخص کو یہ بھی کہتے سنا کہ اچھا ہوا پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 60 روپے مزید بڑھ گئیں‘ یہ عوام ہیں ہی اس قابل! میں نے اس کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو ششدر رہ گیا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ لوگ اپنے سیاسی نظریات کو عوام کی مشکلات پر ترجیح دیں گے۔
سیاسی شعور ہونا ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ سیاست کی آڑ لے کر نفرت، حقارت، بدتمیزی، جھوٹ اور انتشار کی آبیاری کریں۔ جب سے سوشل میڈیا کو بامِ عروج ملا ہے‘ ہر طرف جہالت، بدتہذیبی اور بدمزاجی کا راج ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے دنیا میں اب سب سے مشکل کام اپنی عزت بچانا ہے۔ آپ بہ آسانی معاشی اور معاشرتی الجھنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں مگر سوشل میڈیا کے باعث عزت نہیں بچا سکتے۔ وہاں ہر دوسرا شخص گالی دیتا اور ذاتی حملے کرتا ہے۔ کسی کا کوئی سکینڈل نہ بھی ہو‘ تو پاس سے گھڑ لیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا من گھڑت اور جھوٹی خبروں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور لوگوں کو بے آبرو کرنے کا ذریعہ بھی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے ساتھ کیا ہوا؟ آپ ان کی موت کو کوئی بھی رنگ دیں مگر میرے نزدیک وہ سوشل میڈیا کا شکار ہوئے ہیں۔
گزرے دو ماہ میں ان کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کی گئیں کہ خدا کی پناہ! ان کے ہر ذاتی فعل کو چوراہے کی زینت بنا دیا گیا‘ جوکسی طور بھی درست نہ تھا۔ کیا شادی کرنا کوئی جرم ہے؟ مگر ان کے اس عمل کو بھی جرم بنا کر پیش کیا گیا۔ ان کی شخصیت پر ایسے ایسے فقرے کسے گئے کہ بڑے دل گردے والا شخص بھی برداشت نہ کر سکے۔ وہ پاکستان چھوڑ کر اس لیے جانا چاہتے تھے کہ سوشل میڈیا نے ان کی ذاتی و نجی زندگی کو تماشا بنا دیا تھا۔ وہ دن رات زار و قطار روتے رہتے تھے مگر ستم یہ تھا کہ کوئی ان کے آنسو پونچھنے والا تھا اور نہ دلاسہ دینے والا۔ ڈاکٹر صاحب تنہا تھے اور دکھی بھی۔ وہ لوگوں کی نفرت برداشت نہ کر سکے اور بالآخر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لکھنؤ کے شاعر ملک زادہ منظور احمد کا ایک شعر ملاحظہ کریں‘ میرا احساس ہے کہ یہ شعر شاید سوشل میڈیا کے لیے لکھا گیا:
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
چند ماہ قبل امریکہ کے میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کی تحقیقات نے سوشل میڈیا کے استعمال اور ڈپریشن کے خطرے میں تعلق دریافت کیا تھا۔ اس تحقیق کے مطابق: اگر آپ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتے ہیں تو ڈپریشن کو اپنے جانب بڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ سوشل میڈیا‘ جو کبھی انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ تھا، جہاں لوگ ایک دوسرے سے نہ صرف سماجی تعلق بڑھاتے تھے بلکہ آپس کا دکھ درد بھی بانٹے تھے‘ اب یہ خود آتش کدہ بن چکا ہے اور اپنی تپش سے پورے سماج کو غیر محفوظ بنا رہا ہے۔ لوگ اس کے استعمال کے باعث ذہنی اور جسمانی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر ہمارے رویے منفی سے منفی تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر دوسرا شخص گالی گلوچ کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی غداری کے فتوے دیتا ہے تو کوئی توہین کا سرٹیفکیٹ بانٹتا ہے۔ کسی کو مغرب نواز کہا جاتا ہے تو کسی کو غیر ملکی ایجنٹ۔ کسی کو چوروں کا طرفدار بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کسی پر بے ایمانی کا لیبل چپکا دیا جاتا ہے۔ متشدد رجحانات سوشل میڈیا کا وتیرہ بن چکے ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی تقسیم کا آسیب گلی کوچوں میں آوارہ پھر رہا ہے اور جو بھی اس کی زد میں آتا ہے‘ وہ عقل و خرد اور معاملہ فہمی سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ شدت پسندی بذاتِ خود ایک عارضہ ہے جو دھیرے دھیرے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ورنہ نارمل شخص کسی کو بے جا گالی دیتا ہے نہ الزام تراشی کرتا ہے۔ جھوٹ کو پھیلاتا ہے نہ کسی منفی پروپیگنڈے کاحصہ بنتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس راستے پر گامزن ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم ملکی مفاد کو سیاسی مفادات پر کیوں قربان کر رہے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کہیں راہ سے بھٹک تو نہیں گئے کیونکہ بھٹکے ہوئے معاشروں میں ہی شدت پسندی عام ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں