ملک کا سب سے بڑا مسئلہ

سقراط کے کارِ سیاست پر اعتراضات بڑے مدلل تھے۔ اس نے حکومت کو بہتر انداز میں چلانے کا جو فارمولا دیا تھا‘ وہ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔ سقراط نے سیاسی قیادت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا تھا ''جب اسمبلی کا اجلاس ہوتاہے اور اس میں تعمیر اور جہازرانی کے مسائل پر بات ہوتی ہے تو ان مسائل کے حل کے لیے انہیں طلب کیاجاتا ہے جوتعمیر اور جہاز رانی کے بارے میں علم رکھتے ہیں لیکن جب حکومت چلانے کا مرحلہ آتا ہے تو ہر اس شخص کو بلا لیا جاتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے نہ ریاستی امورکے بارے میں علم رکھتا ہے۔ یوں ریاست کا زوال شروع ہوجاتا ہے‘‘۔ سقراط نے ایسی ہی بات اسمبلی ممبران کے بارے میں بھی کہی تھی، ''اسمبلی، ترکھانوں، لوہاروں، دکانداروں، منافع خوروں اور ذہنی معذوروں پر مشتمل ہے جو ہروقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیسے سستی چیز مہنگے داموں بیچ کر زیادہ منافع کمایا جائے۔ ایسی سوچ رکھنے والے ممبرانِ اسمبلی عوامی مسائل کا حل کیسے نکال سکتے ہیں؟ جب تک اسمبلی اور انتظامیہ میں اہل، ماہرین، فلسفی اور صاحبِ علم لوگ آگے نہیں آئیں گے‘ ریاست بدحال ہی رہے گی‘‘۔
سقراط 469 قبل مسیح کا فلسفی تھا‘ سیاست اور حکومت کے بارے میں اس کے نظریات آج کے جدید دور سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔ غور کیا جائے تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ وہی ہے جو عہدِ سقراط میںدرپیش تھا۔ اُس وقت اسمبلی کا ممبر کوئی بھی شخص بن سکتا تھا اور آج بھی ہماری اسمبلیوں کے دروازے ہر اس شخص کے لیے کھلے ہیں جو الیکشن جیت کر آ جائے۔ اُس وقت بھی امورِ حکومت چلانے کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں تھا اورآج ہمارے ملک میں بھی وزیر، مشیر اورمعاو نِ خصوصی بننے کے لیے کوئی خاص پیمانہ مقرر نہیں ہے‘ جسے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ اسے عہد ہ مل جاتا ہے اور جس پر یہ عنایت نہیں ہوتی وہ بھلے کتنا ہی اہل اور قابل ہو‘ عہدہ حاصل نہیں کرپاتا۔ اس بات سے کون انکاری ہے کہ جمہوریت میں انتخابات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے مگر یہاں سوال یہ ہے کہ الیکشن لڑنے کا معیار کیا ہے ؟ باقی دنیا کو چھوڑیں‘یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینے کا معیار پیسہ ہے۔ جو بھی اس معیار پر پورا اترتا ہے‘ وہ کھل کر سیاست کرتا ہے اور جو انتخابی اخراجات کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا‘ وہ اس نظام کے پاس سے بھی نہیں گزرسکتا۔ میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ''رائٹ مین فار دی رائٹ جاب‘‘ ہے۔ باقی ماندہ سبھی مسائل اس کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ اگر کسی طرح یہ مسئلہ حل ہوجائے تو دیگر مسائل خودبخود ختم ہونے لگیں گے۔ پاکستان میں سب سے بڑا انتظامی عہدہ وزیراعظم کا ہے اور اس کرسی پر ہمیشہ وہی بیٹھتا ہے جو فاتح پارٹی کا سربراہ ہو۔ یہی نہیں‘ وزیراور مشیر بھی وہی افراد بنتے ہیں جو پارٹی سربراہ کے وفادار ہوں۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے اس نظام حکومت میں اہلیت، صلاحیت، قابلیت اور محنت کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ جب اسمبلیوں میں اصل نمائندگی سرمایہ داروں، صنعتکاروں، زمینداروں اور وڈیروںکی ہو گی تو عوام کے مسائل کا حل کیسے نکلے گا ؟اہل، فلسفی اور صاحبِ علم لوگ کیسے حکومتوں کا حصہ بنیں گے ؟ قومی اسمبلی ہویا صوبائی اسمبلیاں یا پھر سینیٹ، ان تمام ایوانوں کا کام قانون سازی ہے مگر ہماری اسمبلیوں میں بیشتر ممبران کو قانون سازی کی کچھ سمجھ ہی نہیں۔ وہ اسمبلیوں میں حاضری لگانے آتے ہیں اور پچھلی قطاروں میں بیٹھ کر گھر چلے جاتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں ایک اور مسئلہ بھی نہایت گمبھیر ہے۔ یہاں وزرا کے محکموں کا تعین ان کی اہلیت، صلاحیت اور تعلیمی پس منظر کو دیکھ کر نہیں بلکہ مبینہ طور پر‘ ان کے کاروبار کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ جو بہت بڑے صنعتکار کا بیٹا ہو‘ اسے انڈسٹری کا وزیربنا دیا جاتا ہے، جو زراعت کے پیشے سے منسلک ہو اسے زراعت کی وزارت دے دی جاتی ہے، جو ادویات کے شعبے سے وابستہ ہو اسے صحت کا وزیربنادیاجاتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ متعلقہ وزیر اپنے کاروباری مفادات کے خلاف کیسے فیصلے کرسکتے ہیں؟ نجانے کیوںہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ مسائل کا حل ماہرین کے پاس ہوتاہے‘ ان افراد کے پاس نہیں جو خود مسائل کا سبب ہوں۔
چند روز قبل جب وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل صاحب بجٹ تقریر کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک سوال نے انگڑائی لی۔ آخر اسحاق ڈار کے بعد مفتاح اسماعیل ہی کیوں ؟ مسلم لیگ (ن) سے کوئی اور وزیرخزانہ کیوں نہیں بنتا؟اس سوال کا جواب انتہائی تلخ تھا۔ مجھے جان کر حیرت ہوئی کہ پوری مسلم لیگ (ن) میں ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں جو معیشت دان ہو۔ مفتاح اسماعیل واحد سیاستدان ہیں جو الیکشن بھی لڑتے ہیں اور اکانومسٹ بھی ہیں۔ ویسے توڈاکٹر عائشہ غوث پاشابھی ہیں مگر وہ بنیادی طور پر ٹیکنوکریٹ ہیں‘ انتخابی سیاست سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ حیرتوں کا یہ سلسلہ یہیں پہ نہیں رکا بلکہ آپ بھی یہ جان کر ششدر رہ جائیں گے کہ مسلم لیگ (ن) ہی نہیں‘ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی میں بھی کوئی ایک اکانومسٹ سیاستدان نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ نام ابھر رہے ہوں مگر واضح رہے کہ اسد عمر کی ساری مہارت مینجمنٹ میں ہے اور شوکت ترین بینکر ہیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر اکانومسٹ ہیں نہ سلیم مانڈوی والا۔ یہ تمام لوگ ضرورتوں کے تحت آگے آئے اور وزارتِ خزانہ چلاتے رہے۔ اسحاق ڈارکو ماضی قریب کا سب سے کامیاب وزیرخزانہ مانا جاتا ہے مگر اکانومسٹ وہ بھی نہیں۔ وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے مگر میاں نواز شریف نے انہیں وزارتِ خزانہ کی چابیاں سونپ دی تھیں۔ جب ملک کے سیاستدانوں کا حال یہ ہو گا کہ ان کے پاس وزارتِ ِخزانہ چلانے کے لیے کوئی موزوں شخص ہی نہیں ہو گا تو پھر معیشت کا وہی حال ہوگا‘ جو آج ہے۔ ملک میںمہنگائی پندرہ فیصد سے زائد ہے۔ قرضے 45 ہزار ارب روپے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر سے نیچے آچکے ہیں جن میں زیادہ تر ادھار کے ڈالر ہیں۔ رواں مالی سال کا بجٹ خسارہ پانچ ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ سرکلر ڈیٹ 2500 ارب کے لگ بھگ ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 16 ارب ڈالر سے زائد ہونے کا خدشہ ہے جبکہ تجارتی خسارہ 45ارب ڈالر کے قریب ہے۔ روپیہ ڈالر کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہورہاہے جبکہ سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
چند روز قبل اگلے مالی سال کے لیے جو بجٹ پیش کیا گیا‘ وہ تضادات کا ایک مجموعہ معلوم ہوتا ہے۔ کہیں آئی ایم ایف کی بات مان کر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے توکہیں آئندہ الیکشن کا سوچ کر ریلیف دیا گیا ہے۔ حکومت نے پٹرولیم لیوی کا ہدف 750 ارب روپے رکھا ہے جو گزشتہ حکومت سے 140 ارب روپے زائد ہے۔ کیا حکومت کو معلوم نہیں کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں پہلے ہی قوتِ خرید سے باہر ہوچکی ہیں اور اگر اب پٹرولیم لیوی بھی بڑھا دیا گیا تو قیمت تین سو روپے فی لٹر ہو جائے گی جس کا بوجھ اٹھانا عوام کے لیے ناممکن ہو جائے گا۔ حکومت نے ایف بی آر کے ریونیو کا تخمینہ 7004ارب روپے، نان ٹیکس ریونیو 2000 ارب روپے، مہنگائی کی شرح گیارہ فیصد اور گروتھ ریٹ پانچ فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ میرے نزدیک یہ سبھی تخمینے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ حکومت بتانے سے گریزاں ہے کہ اتنا ریونیو کیسے اکٹھا ہوگا ؟گیارہ فیصد مہنگائی کے ساتھ پانچ فیصد ترقی کیسے ممکن ہو گی اور پھر حکومت ترقیاتی منصوبوں پر 800 ارب روپے کہاں سے خرچ کرے گی۔ بجٹ میں اور بہت سی چیزیں جن پر تنقید کی چھری چلائی جاسکتی ہے اور کچھ اقدامات تعریف کے قابل بھی ہیں مگر کیا کریں‘ وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں خود ہی یہ اعلان کر دیا ہے کہ آئی ایم ایف اس بجٹ سے خوش نہیں‘ اس لیے کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ اب کون جانے حکومت کیا تبدیلیاں کرے گی اور کیا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں