عمران خا ن کا انقلاب

مشہور کہاوت ہے کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ سانپ گزر جائے تو لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ؟ جوانی بیت جائے تو لڑکپن کو یاد کر کے رونا کہاں کی دانشمندی ہے؟ خلیل جبران کا قول ہے: ''چوٹ کا تدارک وقت پر نہ کیا جائے تو زخم ناسور بن جاتا ہے‘‘۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت سے الگ ہونے کے بعد ہمارے سیاستدان انقلابی کیوں ہو جاتے ہیں؟ جب اقتدار جوبن پر ہو تو ان کی انقلابی سوچ کہاں ہوتی ہے؟ جب فیصلے کرنے کا وقت ہوتا ہے تو یہ مصلحتوں کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ سچ کو سچ کیوں نہیں کہتے اور جھوٹ کو جھوٹ کیوں نہیں سمجھتے؟ حقائق کو چھپاتے کیوں ہیں اور انتظامی مشکلات کی پردہ پوشی کیوں کرتے ہیں؟ حسن نعیم کا ایک شعر ملاحظہ کریں۔
کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے
ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے
دس ہفتے بیت چکے مگر عمران خان صاحب ہار تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا لہجہ تلخ ہو رہا ہے۔ وہ کبھی حکومتِ وقت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور کبھی امریکہ کو۔ کبھی عدلیہ سے گلہ گزار ہوتے ہیں تو کبھی مقتدرہ سے شکوے کرتے نظر آتے ہیں۔ تین روز قبل دنیا نیوز کے مقبول ترین پروگرام آ ن دی فرنٹ وِد کامران شاہد میں مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے واشگاف الفاظ میں کہا: ''عمران خان حکومت کے خلاف کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی۔ قومی سلامتی کے دونوں اجلاسوں میں شرکا کو واضح اور مفصل طور پر بتا دیا تھا کہ ہماری ایجنسیوں نے اس سارے معاملے کوبغور اور پیشہ ورانہ انداز میں دیکھا ہے اور اس میں سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے‘‘۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان نے اس بیان کو بھی سیاست کی نذرکردیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقتدر اداروں کی رائے ہو سکتی ہے‘ فیصلہ نہیں۔ اب خان صاحب کو کون بتائے کہ بیرونی سازش کا کھوج لگانا اور اسے ناکام بنانا ہی ہمارے اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ وہ چوبیس گھنٹے یہی کام کرتے ہیں‘ ان کے پاس دوسرا کوئی اور کام نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی دشمن ملک پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کرتا ہے تو اس کی اطلاع انہی اداروں کے پاس ہی آتی ہے اور وہی اس کا سدِ باب کرتے ہیں۔ کسی اور محکمے یا ادارے کے پاس بیرونی سازش کو پرکھنے کا کوئی انتظام ہوتا ہے نہ صلاحیت۔ عمران خان وزیراعظم تھے تو اداروں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے مگر جب سے ان کے لیے اقتدار کے دن پرائے ہوئے ہیں انہوںنے یوٹرن ہی لے لیا ہے۔ وہ ہمیشہ اشاروں کنایوں میں بات کرتے ہیں۔ وہ جو کہنا چاہتے ہیں کھل کر بیان کیوں نہیں کرتے؟ انہیں کس بات کا ڈر ہے؟ عمران خان کونہیں بھولنا چاہیے کہ اقتدار آنی جانی شے ہے اور اقدار ہمیشہ قائم رہتی ہیں۔ کبھی بھی سیاسی مفادات کے لیے ملکی مفادات کی قربانی نہیں دینی چاہیے۔
عمران خان کا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ عدالتی کمیشن بنائے اور اس کی اوپن سماعت کرے۔ اگر بند کمروں میں سماعت کی گئی تو وہ اس کا فیصلہ نہیں مانیں گے۔ عمران خان وزیراعظم رہے ہیں‘ انہیں ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات کتنے نازک ہوتے ہیں۔ اس میں زیر زبر کی غلطی بھی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ ایک ایسا کیس جس میں امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے‘ اس کیس کی اوپن سماعت کیسے ہو سکتی ہے؟ تھانے کی سطح پر ہونے والی تحقیقات بھی خفیہ رکھی جاتی ہیں یہ تو پھر بہت نازک معاملہ ہے۔ اب خان صاحب جوشِ خطابت میں امریکہ کو جتنا مرضی برا بھلا کہیں مگر جب وہ وزیراعظم کی کرسی پر براجمان تھے تو انہوں نے مراسلہ آنے کے بعد بھی امریکہ کا نام نہیں لیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ عوامی فورم پر امریکہ پر دشنام طرازی کی جائے۔
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ مراسلہ آنے کے بعد بھی عمران خان پورا ایک مہینہ وزیراعظم رہے‘ انہوں نے تحقیقات کیوں نہیں کروائیں؟ انہوں نے کیوں کسی ادارے کو یہ ٹاسک نہیں سونپا؟ اس وقت تو وہ وزیراعظم تھے‘ کسی کو بھی حکم صادر کرسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا‘ کیا عمران خان بتائیں گے کہ وہ اس وقت مصلحت کا شکار کیوں ہوئے؟ انہوں نے اس وقت دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب انتہائی سادہ ہے‘ اس وقت وہ خود وزیراعظم تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کے کسی جذباتی حکم سے ان کی حکومت کمزور ہو یا پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچے۔ اس لیے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے تھے مگر جیسے ہی حکومت گئی تو انہوں نے سارے تیر کمان سے نکال دیے۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کے اس عمل سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟ جو معیشت پہلے ہی پاتال میں گری پڑی ہے وہ مزید زبوں حالی کا شکار ہوجائے گی۔ کاش! وہ اقتدار سے دور ہو کر بھی مصلحت کا دامن نہ چھوڑتے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اتوار کے روز سازش کے حقائق قوم کے سامنے رکھیں گے کیونکہ سچ زیادہ دیر تک نہیں چھپایا جا سکتا۔ کوئی جائے اور عمران خان سے پوچھے کہ کون سے حقائق؟ حقائق تو ریاستی اداروں نے بیان کردیے ہیں؟ اگر مراسلے میں کچھ ہوتا تو سپریم کورٹ تحقیقات کا اعلان کیوں نہ کرتی؟ صدر پاکستان اور سپیکر اسد قیصر کی درخواست کے باوجود عدالت عظمیٰ نے کمیشن نہیں بنایا تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے سائیفر روٹین کا حصہ ہوتے ہیں۔ چلیں! ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیںکہ سپریم کورٹ عدالتی کمیشن بنا دیتی ہے تو پھر تحقیقات میں کون سا ادارہ مددکرے گا؟ وہ بھی انہی کی طرف ہی دیکھیں گے جن کا جواب پہلے ہی آچکا ہے۔ وہ مزید کیا نئی بات کریں گے۔ میرے نزدیک تو کچھ بھی نہیں۔ دوسرا‘ اگر خان صاحب بھی میاں نواز شریف کی طرح انقلابی ہوگئے ہیں تو انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بے وقت کی راگنی کانوں کو اذیت دینے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اگر انہیں انقلابی ہونا تھا تو اس وقت ہوتے جب ساری پارٹیوں سے سیاستدان توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کیے گئے۔ انہیں الیکشن میں اکثریت پھر بھی نہیں ملی اور حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم‘ ق لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کو اپنے ساتھ بٹھانا پڑا تھا۔ اگر انہوں نے انقلابی بننا تھا تو اس وقت بنتے جب وہ بطور وزیراعظم سعودی عرب‘ یو اے ای اور چین سے قرض لینے گئے تھے یا اس وقت بنتے جب میاں نواز شریف کوٹ لکھپت جیل سے نکل کر لندن جارہے تھے۔ ویسے تو گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں درجنوں ایسے مواقع آئے تھے جب انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا مگر کاش! خان صاحب آئی ایم ایف سے معاہدہ کرتے ہوئے بھی انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا دیتے تو آج پاکستانی عوام کو روپے کی بے قدری کے باعث مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آئی ایم ایف کو بجٹ پر کوئی اعتراض ہوتا نہ تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس کی مد میں ملنے والا ریلیف واپس ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا۔ دو روز قبل پٹرول اور ڈیزل کی قیمت تیسری بار بڑھائی گئی ہے جبکہ حکومت لیوی لے رہی ہے نہ سیلز ٹیکس۔ آپ خود فیصلہ کریں جب آئی ایم ایف اور عمران خان حکومت کے درمیان جنوری میں ہونے والے معاہدے کے مطابق تیس روپے لیوی اور سترہ فیصد سیلز ٹیکس لیا جائے گا تو پڑول اور ڈیزل کی قیمتیں کیا ہوں گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں