عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں؟

اقتدار کے دن بھی حیاتِ انسانی کی عکاسی کرتے ہیں۔ کبھی حلاوتوں اور تلخیوں کا بھرپور امتزاج اور کبھی دھوپ چھاؤں کی طرح ایک دوسرے سے یکسر مختلف۔ جیسے حیات کے موت اور طلوع کے ساتھ غروب لازم ہے‘ ایسے ہی ہر عروج کا زوال بھی ہے۔ جو مسندِ اقتدار پر بیٹھتا ہے وہ اترتا بھی ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہی غروب ہونے کے لیے ہے اور شمعیں روشن ہوتی ہی بجھنے کے لیے ہیں۔ سدا بادشاہی کسی کی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان پر آج بھی راجپوتوں کی حکومت ہوتی یا خاندانِ غلاماں کی حکمرانی۔ مغل تخت نشین ہوتے یا پھر انگریز وں کا قبضہ برقرار رہتا۔ جو آتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے نہیں آتا اور جو جاتا ہے‘ وہ عمر بھر کے لیے نہیں جاتا۔ مسلم لیگ (ن) ساڑھے تین سال بعد اقتدار میں واپس آ سکتی ہے تو عمران خان کی باری دوبارہ کیوں نہیں آ سکتی؟ تاہم اس کے لیے تھوڑا صبر، تحمل، برداشت اور انتظار کرنا ضروری ہے۔ بے چینی، بے قراری اور اضطراب اس راستے کو مزید کٹھن بنا سکتے ہیں۔ سلطنت چھن جانے کے بعد جس نے بھی بہادر شاہ ظفر کو دیکھا‘ بے تاب ہی دیکھا۔
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ خان صاحب نے اچھا فیصلہ کیا جو پارلیمانی سیاست کی راہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ابھی پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں امیدوار سامنے آئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں قومی اسمبلی میں واپسی بھی ہو جائے۔ لوگ اسے یوٹرن قرار دیں گے مگر میرے نزدیک یہ وقت کا تقاضا ہے۔ کب تک سراب کے پیچھے ننگے پاؤں بھاگا جا سکتا ہے؟ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے کوئی بھی آتشدان میں جلنا پسند نہیں کرتا۔ ابوالکلام آزاد کا قول ہے ''راستہ وہ اختیار کرنا چاہیے جو منزل کی جانب جاتا ہو۔ جو ابتدا میں ہی بھٹک جاتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے‘‘۔ احتجاجی سیاست جمہوریت کا لازمی حصہ ہے اور جمہور کا آئینی حق بھی مگر بدامنی، بے یقینی اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کو ہوا دینا کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد خان صاحب نے احتجاجی سیاست کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ان کی کال پر لوگوں نے لبیک کہا نہ ریاست نے قانون شکنی برداشت کی۔ انہیں یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ وہ لاکھوں پاکستانیوں کی امید ہیں اور سیاست میں توازن کی علامت بھی۔ ایک طرف ساری پرانی سیاسی جماعتیں ہیں اور دوسری طرف تنہا پی ٹی آئی۔ اگر وہ ایسے ہی پارلیمانی سیاست سے دور رہی تو ایوان میں یک طرفہ قانون سازی ہوتی رہے گی اور تحریک انصاف کے ہاتھ سوائے کڑھنے کے کچھ نہیں آئے گا۔ امیر تیمور کہا کرتا تھا ''میدان جنگ میں دونوں ہاتھوں سے تلوا ر چلانے والے کبھی آسانی سے نہیں مرتے‘‘۔
میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کی سیاست کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ وہ ایک وقت میں ایک کام کرتے ہیں۔ پارلیمانی سیاست کرتے ہیں تو احتجاجی سیاست ترک کر دیتے ہیںاور جب احتجاجی سیاست کا رخ کرتے ہیں تو اسمبلیوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ جب تک دونوں کام ایک ساتھ نہیںکریں گے‘ بات بنے گی نہیں۔ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں مگر قومی اسمبلی کا محاذ خالی مت چھوڑیں۔ وہاں ایک مؤثر اور تگڑی آواز کی غیر موجودگی میں الیکٹرانک ووٹنگ کا خواب بکھر چکا ہے، نیب قوانین میں ترامیم ہو چکی ہے اور اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے سے قبل ہی ختم ہو چکا ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں، اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی کا حصہ ہوتی تو کیا یہ ساری قانون سازی اتنی آسانی سے ہو سکتی تھی؟
میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تحریک انصاف اس وقت الیکشن کیوں چاہتی ہے؟ اسے تو شادیانے بجانے چاہئیں کہ وہ اقتدار میں نہیں ہے۔ اگر وہ حکومت میں ہوتی تو آج شاید ساری عوامی توپوں کا رخ اس کی طرف ہوتا۔ میرا احساس ہے کہ عمران خان میاں شہباز شریف سے زیادہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ جب عالمی منڈی میں مہنگائی کا نیا طوفان اٹھ رہا تھا تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور نئے وزیراعظم مہنگائی کی زد میں آ گئے۔ آج انٹرنیشنل مارکیٹ میں صرف پٹرول اور ڈیزل ہی مہنگے نہیں بلکہ گیس، خوردنی تیل، کوئلے، دالوں، گندم اور کاٹن کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ عمران خان اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ 2018ء میں عالمی منڈی میں پٹرول کی اوسط قیمت 65 ڈالر فی بیرل تھی، 2019ء میں یہ 57 ڈالر، 2020ء میں 40 ڈالر اور 2021ء میں 68 ڈالر فی بیرل تھی۔ جنوری 2022ء میں پٹرول کی قیمت 76 ڈالر فی بیرل تھی مگر جیسے ہی فروری کے آخر میں روس اور یوکرین کے مابین جنگ شروع ہوئی‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو جیسے آگ لگ گئی ہو۔ دو ہفتے قبل پٹرول کی قیمت 124 ڈالر تک پہنچ چکی تھی جو اب قدرے کم ہوکر 113 ڈالر فی بیرل تک آ چکی ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہاں 40 ڈالر فی بیرل اور کہاں 124 ڈالر۔ اسے پی ٹی آئی کی خوش بختی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے؟ دوسرا، کچھ عرصہ پہلے کوئلے کی قیمت پچاس ڈالر کے قریب تھی جو اب 350 ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہی نہیں‘ کورونا وائرس کی لہر عالمی معیشت کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی تھی مگر یہ پاکستانی معیشت کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔ جی 20 ممالک نے چار ارب ڈالر سے زائد کے قرضے کی واپسی مؤخر کر دی اور آئی ایم ایف نے 1.4 ارب ڈالر مدد فراہم کی جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے۔ آج شہباز شریف حکومت کو کسی ایسی چھوٹ کا سامنا ہے نہ کوئی ملک مدد کے لیے آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ جنوری 2022ء میں سابق حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ایک ارب ڈالر تو لے لیا مگر معاہدے کی شرائط پر ایک ماہ سے زیادہ عمل نہیں کیا، گزشتہ حکومت کی ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں موجودہ حکومت کو اب دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہیں اور آئی ایم ایف پھر بھی ماننے کو تیار نہیں۔ جب تک آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں ہوتے‘ دنیا کا کوئی ملک یا ادارہ ہمیں نیا قرضہ دے گا نہ ہماری مدد کو آئے گا۔ ہمیں ہر حال میں آئی ایم ایف کو راضی کرنا ہو گا اور اس کی سخت ترین شرائط کا کڑوا گھونٹ بھرنا ہو گا ورنہ زرمبادلہ کے ذخائر جلد ہی زمیں سے جا لگیں گے اور پھر جو ہو گا اس کے بارے میں سوچنا بھی خاصا دشوار محسوس ہوتا ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے درست کہا ہے کہ موجودہ معیشت کو سنبھالنا کسی ایک پارٹی کاکام نہیں ہے۔ یہ بات خان صاحب جتنی جلدی سمجھ جائیں‘ اتنا ہی اچھا ہے۔ معیشت اس وقت وہاں کھڑی ہے جہاں سے اسے کوئی ایک پارٹی یا ایک لیڈر نہیں‘ بائیس کروڑ پاکستانی مل کر ہی نکال سکتے ہیں۔ خان صاحب پر ملک اور قوم کا قرض ہے اور وہ یہ قرض ادا کرکے دوبارہ سربراہِ حکومت بن سکتے ہیں۔ انہیں قومی اسمبلی میں واپس جانا چاہیے۔ جلاؤ گھیراؤ اور احتجاج کی سیاست کو خیر باد کہنا ہو گا۔ اگر ایسا کرنے سے گریز کیا گیا تو بے یقینی کی کیفیت مزید بڑھے گی اور پھر ڈالر کو سنبھالا جاسکے گا نہ سٹاک مارکیٹ کو۔ معیشت میں بہتری آئے گی نہ مہنگائی میں کمی۔ اگر پھر بھی وہ ضد چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے تو کم از کم موجودہ حکومت کے راستے سے ہٹ جانا چاہیے۔ حکومت کو اپنی پالیسیوں کے مطابق ملک کو چلانے دیں۔ اسے عالمی مہنگائی کا سامنا کرنے دیں۔ اگر تو یہ مہنگائی کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب ہو گئی تو عوام کو سکھ کا سانس ملے گا اور اگر وہ ناکام ٹھہری تو اس کا سارا سیاسی فائدہ خان صاحب ہی کی جھولی میں آ کر گرے گا۔ اس صورت میں بھی انہیں دوبارہ حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں