مفتاح اسماعیل نہیں تو اور کون؟

دو روز قبل ایک دیرینہ دوست مجھ سے ملنے آیا۔ وہ انتہائی رنجیدہ، پریشان اور مضطرب تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو مہنگائی کا رونا رونے لگا۔ اس نے پہلے پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور پھر گھی، آٹا، دالوں اور گوشت کے بڑھتے نرخوں پر دہائی دینے لگا۔ میرا دوست سابق وزیراعظم عمران خان کا دیوانہ ہے اور گزشتہ تین ماہ سے اس کی دیوانگی دوچند ہو چکی ہے۔ میں نے اس کی تنقیدی گفتگو کو دل کی بھڑاس سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی مگر چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکا۔ وہ جس انداز سے مہنگائی پر آہ و بکا کر رہا تھا‘ اس کے الفاظ میرے دل میں گھر کر رہے تھے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ پورے ملک‘ اس کے عوام کی حقیقی ترجمانی کر رہا ہو۔ وہ دو لائنیں بول کر آہیں بھرنے لگتا تھا۔ مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ میں نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا: تم زیادہ دکھی مت ہو، امید ہے کہ دو تین ماہ میں حالات بہتر ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے والا ہے۔ چین کے کنسورشیم بینک نے 2.3 ارب ڈالر سٹیٹ بینک کو دے دیے ہیں اور دیگر دوست ممالک بھی پاکستان کی مدد کریں گے۔ ڈالر کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے‘ کچھ دنوں تک روپیہ مزید مضبوط ہو جائے گا۔ بین الاقوامی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ جیسے ہی پٹرول کی قیمتیں کم ہوں گی‘ مہنگائی کا طوفان بھی تھم جائے گا۔ میری بات سن کر وہ ششدر رہ گیا اور نہایت ناگواری سے بولا: مہنگائی کسی صورت کم نہیں ہونی چاہیے۔ اگر مہنگائی کم ہو گئی تو ساراکریڈٹ شہباز شریف حکومت کو چلا جائے گا۔ مہنگائی بڑھے گی تو پریشر بڑھے گا اور جلد الیکشن کی راہ ہموار ہوگی۔ میں نے پوچھا: تمہارا مسئلہ مہنگائی ہے یا شہباز شریف حکومت؟ اس نے بے ساختہ جواب دیا: دونوں۔ مہنگائی بڑھتی رہے گی تو ہمیں بھی تنقید کے لیے ایندھن ملتا رہے گا۔ مہنگائی کم ہو گئی تو ہم اس حکومت پر تنقید کیسے کریں گے؟ اس دوست کی گفتگو سن کر میں سکتے میں آ گیا اور سوچنے لگا کہ سیاسی اختلافات نے ہمیں کتنا کھوکھلا کر دیا ہے۔ ایک طرف ہم مہنگائی کو کوستے رہتے ہیں اور دوسری طرف اس پر خوش بھی ہیں۔ یہ بھلا کہاں کی سیاست اور کہاں کا سیاسی اختلاف ہے؟ ملکی مفادات کو کون سیاست کی بھینٹ چڑھاتا ہے؟ ہمیں ادراک ہی نہیں ہے کہ ہم سچ اور جھوٹ کو ایک ترازو میں تول رہے ہیں۔ ذمہ دار اور بے قصور کو ایک نظر سے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ ہم ظالم اور مظلوم کو ایک جیسا کیسے مان سکتے ہیں؟ سیاسی جھگڑے ہمیں بے نقاب کر رہے ہیں اور ستم یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہے نہ فہم۔
تمام سیاسی جماعتیں اور عوام بھی‘ اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر خطرنا ک حدوں کو چھو رہے ہیں، مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں، روپیہ اور سٹاک مارکیٹ گراوٹ کا شکار ہیں۔ اگر اب بھی معیشت کی بنیادیں ٹھیک نہ کی گئیں تو حالات سری لنکا جیسے ہو سکتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت کا دیوالیہ نکل گیا تو پھر یہ سب سیاست کہاں کریں گے؟ سرکاری خزانے سے عیاشیاں اور غیر ملکی دورے کیسے ہوں گے؟ نوکر چاکر، محلات اور سرکاری گاڑیوں کے خرچے کہاں سے پورے کیے جائیں گے؟ اگر حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ہی حالات کی نزاکت کو سمجھتی ہیں تو پھر دیر کس بات کی ہے؟ دونوں کچھ وقت کے لیے سیاست کو بھلا کیوں نہیں دیتیں؟ معیشت کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگانے کے لیے ایک کیوں نہیں ہو جاتیں؟ عمران خان صاحب بنگلہ دیش کی بہت مثالیں دیتے ہیں، کیا انہیں معلوم ہے کہ وہاں دہائیوں پہلے معیشت اور سیاست کو الگ الگ کر دیا گیا تھا۔ اب حکومت کوئی بھی ہو‘کسی بھی جماعت کی ہو‘ معاشی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں۔ حکومتیں آتی‘ جاتی رہتی ہیں مگر معیشت کی گاڑی نہیں رکتی۔ بنگلہ دیش میں معیشت پر سیاست نہیں ہوتی مگر ہمارے سیاست دانوں کا یہ من پسند مشغلہ ہے۔ موجودہ حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے مراعات یافتہ اور امیر طبقے پر سپر ٹیکس اور غربت ٹیکس لگایا ہے تو تحریک انصاف کو بہت برا لگا ہے۔خان صاحب کہتے ہیں کہ سپر ٹیکس لگانے سے کارپوریٹ سیکٹر کی مشکلات بڑھ جائیں گی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا جبکہ شوکت ترین کا ماننا ہے کہ سپر ٹیکس سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ اب کون سمجھائے کہ یہ ٹیکس لگانا وقت کی ضرورت ہے۔ ہر سال بجٹ خسارہ پہلے سے بڑھ جاتا ہے اور معیشت کو کھوکھلا کرتا رہتا ہے۔ سپر ٹیکس 2010ء میں سیلاب آنے کے بعد بھی لگایا گیا تھا اور اب بھی معاشی حالات مخدوش ہیں۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے متعدد بار اپنے خطابات میں کہا تھا کہ 2021ء میں ہماری بڑی صنعتوں نے 970 ارب روپے کمائے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ وہ ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں۔ معلوم نہیں کہ بڑے صنعتکاروں نے وزیراعظم صاحب کی اس بات پر دھیان دیا تھا یا نہیں مگر اب سپر ٹیکس کا نفاذ ہو رہا ہے تو وہ اس پر تنقید کر رہے ہیں حالانکہ اس کا نفاذ اس وقت ناگزیر ہو چکا ہے۔
ملک کی پندرہ بڑی صنعتیں مسلسل دس سال سے اچھا منافع کما رہی ہیں۔ یہ حکومتوں سے سبسڈیز بھی لیتی ہیں اور ٹیکس میں چھوٹ بھی۔ انہیں بہت سا ٹیکس ری فنڈ بھی کیا جاتا ہے اور ان کے لیے ایمنسٹی سکیمیں بھی لائی جاتی ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ اگر حکومت معاشی بدحالی کی وجہ سے ایک سال ان سے دس فیصد سپر ٹیکس لے لے گی تو کون سی قیامت آ جائے گی؟ حکومت کے پاس دو راستے تھے‘ وہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس مزید بڑھا دیتی یا پھر ملک کی اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرتی۔ حکومت نے امیر ترین لوگوں سے ٹیکس لینے کی ٹھانی ہے تو اتنا شور کیوں مچایا جا رہا ہے؟ اگر ملک کے امرا اپنے منافع میں سے ایک بار زیادہ ٹیکس دے دیں گے تو کیا ہو جائے گا؟ اس پر اتنا پروپیگنڈا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ملک پہلے ہی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، ایسے میں صنعتیں بند ہونے اور بے روزگاری بڑھنے کی خبریں پھیلانا ملک و قوم کی خدمت نہیں ہے۔
دوسری طرف واقفانِ حال کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے اکابرین اور اتحادی جماعتیں مفتاح اسماعیل کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اسحاق ڈار واپس آ کر ملک کے خزانے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اسحاق ڈار کا تجربہ بہت وسیع ہے۔ وہ یہ فرائض دو تین بار پہلے بھی سر انجام دے چکے ہیں مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ بنیادی طور پر اکانومسٹ نہیں بلکہ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں۔ دوسرا، ان کے خلاف کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور وہ چار سال سے مفرور ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ‘ جیسے بیان کیا جا رہا ہے‘ وہ بہت قابل ہوں اور چند مہینوں میں معیشت کو بہتر بھی کر دیں مگر انہیں پہلے پاکستان آ کر عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے کیسز میں سرخرو ہوتے ہیں تو وزیر خزانہ بنیں یا وزیراعظم‘ کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ سردست میری نظر میں ڈاکٹر مفتاح اسماعیل وزارتِ خزانہ کے لیے بہترین چوائس ہیں۔ وہ اکانومسٹ ہیں اور ملک کی ایک بڑی کاروباری شخصیت بھی۔ میرے خیال میں وہ وزارتِ خزانہ کو بہتر انداز سے چلا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی ماہر معیشت سیاست دان ہے نہ اتحادی جماعتوں کے پاس کوئی متبادل۔ جہاں تک میں معیشت کو سمجھتا ہوں‘ مفتاح اسماعیل نے جو فیصلے کیے ہیں وہ ناگزیر تھے۔ ان کی جگہ شوکت ترین ہوتے یا اسحاق ڈار‘ انہوں نے بھی یہی کچھ کرنا تھا۔ دوسرا کوئی راستہ وزیرخزانہ کے پاس تھا ہی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں