عمران خان کچھ بھی کہہ سکتے ہیں

ایک نابینا شخص سے کسی نے کہا کہ تم سے برا کسی کے ساتھ کیا ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں دی۔ تم پھولوں کو دیکھ سکتے ہو نہ بارش کو۔ تم صبح کا نظارہ کر سکتے ہو نہ ستاروں کے سحر میں گرفتار ہو سکتے ہو۔ تم سمندر کی اچھلتی‘ اٹھکھیلیاں کرتی لہروں سے لطف ہو سکتے ہو نہ ہی پہاڑوں کی بلندیوں کو اپنی آنکھوں میں سمو سکتے ہو۔ وہ نابینا شخص قدرے توقف کے بعد بولا: یہ تو کچھ بھی نہیں، لوگوں کے ساتھ تو اس سے بھی برا ہوتا ہے۔ پوچھنے والے نے پوچھا: کیسے؟ نابینا شخص نے جواب دیا : میرے پاس تو آنکھیں نہیں ہیں‘ اس لیے میں دیکھ نہیں سکتا۔ اس معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس آنکھیں بھی ہیں مگر اس کے باوجود انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ میرا بھی یہی احساس ہے کہ اندھا ہونا ایسے شخص سے ہزار درجہ بہتر ہے جسے آنکھیں ہونے کے باوجود دکھائی نہ دیتا ہو۔ غور کیا جائے تو ملک میں جاری سیاسی تقسیم نے اس شگاف کو اور واضح کر دیا ہے۔ جو عمران خان کے متوالے ہیں انہیں گزشتہ حکومت میں کوئی برائی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ مہنگائی پر تاویلیں دیتے تھے اور بدانتظامی کے دلائل گھڑتے تھے۔ وہ اب بھی عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو سابق وزیراعظم کہتے ہیں وہ من و عن مانتے ہیں، اپنی سوچ کو بروئے کار لانے کی زحمت کی جاتی ہے اور نہ ہی اپنے شعور کی آواز کو سننے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہی حال موجودہ حکومت کے پیروکاروں کا ہے۔ ماضی میں مہنگائی پر واویلا کرنے والے اب خاموشی کی چادر تانے سو رہے ہیں۔ انہیں حکومت کی کارکردگی بری لگ رہی ہے نہ وہ ان کی نیت پر شک کرتے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصرہو ں کہ یہ کیسے لوگ ہیں؟ سچ کو سچ نہیں کہتے اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھتے۔ انہیں برے کی برائی بری لگتی ہے نہ اچھے کی اچھائی اچھی لگتی ہے۔ یہ عجب لوگ ہیں کہ انہیں ربِ کائنات نے آنکھوں جیسی نعمت سے نوازا ہے مگر انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ دماغ جیسی صلاحیت دی ہے مگر سوچ بچار سے گریزاں رہتے ہیں۔ زندگی سے تغیر اور تجسس ختم ہو جائیں تو زندگی کے رنگ پھیکے پڑجاتے ہیں۔ پھول کانٹے لگنے لگتے ہیں اور چھاؤں دھوپ کی مانند چبھتی ہے۔ سیاست دانوں کی زندگی بھی تغیرات اور تضادات کا سمندر ہوتی ہے۔ آج ایک بیانیہ تو کل دوسرا۔ آج موقف کچھ اور کل کچھ اور۔ آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے حریف آج کے حلیف۔ سیاستدانوں کے دن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بدلتے ہیں تو ساتھ ہی ارادے، موقف اور ترجیحات میں بھی بدلاؤ آجاتا ہے۔ اپوزیشن کے زمانے میں کیے گئے وعدے مسندِ اقتدار پر بیٹھتے ہی بھول جاتے ہیں اور حکومت کے دنوں میں کیے گئے کام اپوزیشن میں آتے ہی برے لگنے لگتے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان بھی ان دنوں مجھے اسی کشمکش کا شکار نظر آتے ہیں۔ وہ حکومتِ وقت کے کاموں پر تنقید کرتے ہیں مگر یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ یہ کام تو بطور وزیراعظم ان کے دور میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ چند ایسے ہی کارناموں کی جھلک ملاحظہ کریں۔
(1) جب سے سینئر صحافی ایاز امیر پر تشدد ہوا ہے‘ اینکر عمران ریاض خان کو گرفتار کیا گیا ہے (اب ان کی ضمانت پر رہائی عمل میں آ چکی ہے) ہمارے سابق وزیراعظم کو رہ رہ کر صحافت، صحافی اور اظہارِ رائے کی آزادی کا خیال ستا رہا ہے۔ وہ کبھی ٹویٹ کرتے ہیں اور کبھی جلسوں میں اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ کبھی سوشل میڈیا کا دفاع کرتے ہیں اور کبھی سوشل میڈیا ایکٹویٹس کے حق میں بولتے ہیں۔ ان کا صحافیوں اور سوشل میڈیا کے لیے یہ دکھ سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک سے ٹھیک اٹھارہ دن قبل پیکا ترمیمی صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا تھا۔ اس آرڈیننس میں کسی بھی شخص، جماعت، تنظیم اور حکومت کے قائم کردہ کسی بھی ادارے کی تضحیک کو قابلِ دست اندازی جرم قرار دیا گیا تھا۔ یہ جرم ناقابلِ ضمانت تھا اور شکایت درج کرنے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہونا قرار پایا تھا۔ اس آرڈیننس پر صحافیوں سمیت متعدد شعبہ ہائے فکر کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ بالآخر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اگر یہ قانون موجود ہوتا تو اینکر عمران ریاض خان کی ضمانت نہیں ہو سکتی تھی۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں درجنوں صحافیوں پر تشدد ہوا کئی کو تو اغوا بھی کیا گیا مگر صاحبانِ اقتدار نے اُف تک نہ کی۔ چلیں‘ دیر آید درست آید، اب انہیں صحافیوں کا خیال تو آیا۔ اگر وہ اپنے دور میں ان معاملات پر تھوڑی سی نظربھی ڈال لیتے تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔
(2) عمران خان کے ریاستی اداروں اور مقتدرہ سے گلے‘ شکوے اور شکایتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کبھی وہ الزام تراشی کرتے ہیں اور کبھی گلہ اور کبھی کسی ایسے کام کو نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں جو آئینی طور پر ان کے ذمے ہی نہیں۔ ان کی جماعت کے رضاکاران بھی کبھی سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلاتے ہیں اور کبھی غلط خبروں کا بازار گرم کرتے ہیں۔ کبھی مخالفین کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور کبھی انہیں میر صادق اور میر جعفر کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ آج وہ گلہ گزار ہیں کہ ان کے لوگوں کو فون کالز آ رہی ہیں مگر جب خود وہ حکومت میں تھے تو اپوزیشن کی ایسی شکایات کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ ''سیم پیج‘‘ کی گردان کرتے نہیں تھکتے تھے۔ کبھی فرماتے تھے کہ اداروں نے ہماری کراچی میں مدد کی، کورونا میں ساتھ کھڑے رہے، اپنا بجٹ کم کیا اور جمہوریت کو مضبوط بنایا۔ ویسے تو تضادات ہماری سیاست کا خاصہ ہیں مگر پی ٹی آئی کی سیاست ایسے تضادات سے بھری پڑی ہے۔
(3) چند روز قبل مسلم لیگ (ن) نے نیب قوانین میں ترامیم کیں تو خان صاحب نے پریس کانفرنس میں جی بھر کر سب کوہدفِ تنقید بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بارِ ثبوت نیب پر ہو۔ اگر کسی سیاستدان یا سرکاری ملازم پر الزام لگ رہا ہے تو اسے اپنی بے گناہی میں خود ثبوت دینے چاہئیں۔ اس میں کیا شبہ کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر کسی کے اثاثے اس کی ظاہری آمدن سے زائد ہیں تو اس سے جوابدہی ضروری ہے مگر تنقید وہ کرے جس نے اپنے عہد میں ایسے قوانین بنائے ہوں۔ پی ٹی آئی کے دور میں نیب آرڈیننس2019ء کے ذریعے ایسی ہی ترامیم کی گئی تھیں۔ اس آرڈیننس میں نیب کو پابند کیا گیا تھا کہ اگر وہ کسی سرکاری ملازم پر مالی فوائد کا الزام لگاتا ہے تو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ مالی فوائد اور اثاثوں کا تعلق مخصوص منصوبوں کے ساتھ ہے۔ ابھی تو پی ٹی آئی کو ایوانِ اقتدار سے نکلے محض تین ماہ ہوئے ہیں اور وہ مسلسل یوٹرنز لیے جا رہی ہے۔
(4)گزشتہ ایک ماہ سے عمران خان مہنگائی کو لے کر پریشان ہیں۔ وہ ہر تقریر میں حکومت کے لتے لیتے ہیں اور اپنے دور کی معیشت کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ آج کی معیشت کے بارے میں وہ اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ دیوالیہ ہونے جا رہی ہے۔ نجانے وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی بڑے ملک کی معیشت کبھی بھی دو‘ تین ماہ کے عرصے میں تباہ نہیں ہوتی۔ یہ دہائیوں کی غفلت اور نالائقیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان کے اپنے عہد میں منہ زور مہنگائی عروج پر تھی اور وہ ہمیشہ اسے عالمی مہنگائی کا شاخسانہ قرار دیتے تھے۔ وہ عوام کو بتایا کرتے تھے کہ انگلینڈ، امریکا، جرمنی، فرانس، چلی اور جاپان سمیت دنیا کے سبھی ملکوں میں مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے۔ آج وہ یہ سب بھول چکے ہیں اور مہنگائی کو حکومت کی نااہلی قرار دینے کا سیاسی بیانیہ بنا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام میں ان کے اس بیانیے کو پذیرائی مل رہی ہے۔ خان صاحب کہتے ہیںکہ امریکا نے ان کی حکومت کے خلاف سازش کی‘ عوام مان جاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مقتدر حلقوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تو عوام ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ عوام ان کی باتوں کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھے بغیر ان پر ایمان لے آتے ہیں۔ کوئی بھی شخص حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے نہ اپنے ذہن کو بروئے کار لا رہا ہے۔ میرے نزدیک خان صاحب کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا عوام کا ہے۔ خان صاحب تو سیاست کر رہے ہیں اور سیاست میں یہی کچھ ہوتا ہے؛ البتہ عوام کو ضرور سوچنا چاہیے کہ جس بیانیے کو لے کر وہ چل رہے ہیں اس کی کوئی بنیاد بھی ہے یا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں