عمران خان پرآرٹیکل چھ کی تلوار؟

گزشتہ کئی ہفتو ں سے پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن کا شور بامِ عروج پر تھا۔ میرا بھی من چاہا کہ تاریخ کے مشکل ترین ان ضمنی انتخابات پر کچھ لکھوں مگر پھر ایک نئے خیال نے انگڑائی لی کہ کیا لکھوں؟ یہ الیکشن ہے نہ دنگل بلکہ چارسو جنگ کا ماحول ہے اور جنگ بھی ایسی جو تجزیے کی بساط سے باہر ہوتی ہے۔ جنگ اگر شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج چوہان کے درمیان ہو تو رائے قائم کرنا مشکل امر نہیں کیونکہ ایک طرف لاکھوں کی فوج تھی اور دوسری طرف چند ہزار سپاہی۔ مگر فرض کریں یہی جنگ پرتھوی راج چوہان اور امیر تیمور کے بیچ ہوتی تو تجزیے کی گنجائش کہاں ہونا تھی۔ اسی طرح اگر پنجاب کے الیکشن میں ایک پارٹی مضبوط اور دوسری کمزور ہوتی تو تجزیہ کرنا آسان ہوتا کہ کون جیت کو گلے لگائے گا اور کس کے مقدر میں ہار آئے گی مگر یہاں تو یہ معاملہ ہے کہ ''دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔ ایک سیر تو دوسرا سوا سیر ہے۔ ایک طرف مقبول بیانیہ اور دوسری طرف پنجاب کی سب سے بڑی جماعت۔ ایک طرف جنون اور دوسری جانب الیکشن کا وسیع تجربہ۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے خوب جلسے کیے اور مریم نواز بھی کسی طرح پیچھے نہیں رہیں۔ پندرہ دن تک ایک کے بعد ایک بڑا جلسہ ہوا اور ایک سے بڑھ کر ایک ریلی نکالی گئی۔ عوام میں جوش وخروش بھی تھا اور سیاسی شعور بھی مگر الیکشن مہم کا سب سے تاریک پہلو یہ تھا کہ کوئی مثبت اور تعمیر ی گفتگو نہیں کی گئی۔ دونوں جانب سے غیر سنجیدگی اور بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جھوٹے‘ سچے الزامات کی بھرمار کی گئی اور مخالفین کی تضحیک ہوتی رہی۔ ایسے ایسے نعرے لگائے گئے کہ خدا کی پناہ! کسی نے عوام کے دلوں میں اداروں کے حوالے سے نفرت کا بیج بویا اور کسی نے غیر سیاسی گھریلو خواتین کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کسی نے مخالفین کو چور‘ ڈاکوکے لقب دیے اور کسی نے بدعنوانی کے نئے نئے قصے سنائے۔ میرے نزدیک جب ایسا ماحول ہوتو تجزیہ کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسی ہی صورتحال تھی مگر ہار اور جیت سے قطع نظر‘ الیکشن مہم سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی واپسی ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان کے بیانیے نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہے اور مہنگائی نے موجودہ حکومت کی مقبولیت پر خاصے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
عمران خان کے بیانیے سے یاد آیا‘ چند روز قبل سپریم کورٹ سے ایک تفصیلی فیصلہ جاری ہوا ہے جس نے بظاہر عمران خان کے سازشی بیانیے سے ہوا نکال دی ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہاہے کہ ''امریکی سازش کے کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے۔ عدم شواہد کی بنیاد پر سائفر کے نیشنل سکیورٹی سے منسلک ہونے والے مؤقف کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت کو عدم اعتماد لانے کے حوالے سے بیرونی مداخلت کا بھی کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ سفارتی مراسلے سے متعلق فیصلہ کرنا ایگزیکٹوکا کام ہے۔ سفارتی تعلقات کے پیشِ نظر عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی‘‘۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ عمران خان اب بھی ماننے کو تیار نہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی بلکہ جن بیساکھیوں کے سہارے ان کی حکومت کھڑی تھی‘ وہ بیساکھیاں ہٹ گئیں تو ان کی حکومت دھڑام سے گر گئی۔ ملک کی سب سے بڑی اور معتبر خفیہ ایجنسی اس سازشی بیانیے کو پہلے ہی رد کر چکی ہے اور اب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی یہی فیصلہ دیا ہے تو پی ٹی آئی مان کیوں نہیں لیتی۔ وہ ضد کی سیڑھی سے اترنے کو تیار کیوں نہیں؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پی ٹی آئی نے اب اس فیصلے کے بعد اپنی توپوں کا رخ عدلیہ کے فیصلے کی طرف کیوں کر دیا ہے؟ شواہد آپ کے پاس نہیں تھے، ایک ماہ تک انکوائر ی آپ نے نہیں کرائی‘ پھر بھی آپ متعلقہ اداروں کی بات سننے کو تیار نہیں‘ کیوں؟ چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ عمران خان سیاست کر رہے ہیں اور وہ سیاسی مفاد کے پیشِ نظر ان فیصلوں کو نہیں مانیں گے مگر کیا پاکستان کے عوام بھی سیاست زدہ ہو چکے ہیں؟ کیا عوام کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے پیچھے نہیں کھڑا ہونا چاہیے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر عوام خاموش کیوں ہیں؟ وہ عمران خان کے بیانیے سے خود کو غیر متعلق کیوں نہیں کرتے؟ سادہ سی بات ہے جب آپ عدلیہ کے فیصلوں کو عزت نہیں دیں گے تو ملک انارکی کی جانب بڑھے گا اور یاد رکھیں! انتشار کی آگ میں جلتا ملک کسی کے مفاد میں نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں عمران خان حکومت کے تین مزید غیر آئینی و غیر قانونی کاموں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اول: سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بائیس مارچ کو اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی تھی۔ آئین سپیکر کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کا اختیار نہیں دیتا۔ دوم: تین اپریل کو ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل پانچ کے تحت رولنگ دی جو ان کے دائرۂ اختیار میں تھی نہ اسے آئینی تحفظ حاصل تھا۔ رولنگ آئین کے آرٹیکل 95 اور 69 (1) کی تضحیک اور غیر قانونی تھی۔ سوم: صدر اور وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل آئین کے خلاف تھی اور سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کے منافی بھی۔ اگر عمران خان امریکی سازش کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں تو کم از کم مذکورہ بالا تین غیر آئینی اقدامات پر تو معذرت خواہ ہو سکتے ہیں۔ یقینا انہوں نے یہ کام اپنی حکومت کو بچانے کے لیے کیے تھے مگر آئین کی خلاف ورزی تو صریحاً جرم ہے۔ انہیں ضرور اس معاملے پر نادم ہونا چاہیے۔ وہ ملک کے وزیراعظم رہے ہیں انہیں آئین کی سربلندی کا احساس نہیں ہوگا تو ان کے پیروکار آئین کی حرمت کو کیسے تسلیم کریں گے؟ ہو سکتا ہے کہ عمران خان ان تین اقدامات پر قوم سے معافی مانگ لیں اور یہ بھی ممکن ہے وہ ایسا نہ کریں کیونکہ حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی وہ مسلسل کچھ غیر آئینی اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اول: وہ مسلسل مقتدر حلقوں سے گلہ کر رہے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر نیوٹرل کیوں ہیں؟ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے کوئی کوشش کیوں نہیں کی؟ وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کیوں نہیں کر رہے؟ یہی نہیں‘ اپنے تازہ بیان میں وہ ایک قدم مزید آگے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ''غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، غلطی کو پہچان کر واپس آ جانا چاہیے۔ عسکری و سیاسی قیادت کے لیے یوٹرن بہت ضروری ہوتا ہے۔ دوم: عمران خان کی خواہش ہے کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات ہوں۔ آئین میں اسمبلی کی مدت پانچ سال لکھی ہے مگر خان صاحب نے ضد پکڑ لی ہے کہ الیکشن وقت سے پہلے ہی ہوں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے درجنوں جلسے بھی کیے اور لانگ مارچ بھی۔ نجانے کیوں وہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ ان کا یہ مطالبہ غیر آئینی ہے۔ اگروہ ایسے ہی ضد پر اڑے رہے تو یہ تاثر ملے گا کہ انہیں ایسے اقدامات کر کے راحت نصیب ہوتی ہے جو آئین سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔
عدالتی فیصلے میں غیر آئینی اقدامات کا قصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ جسٹس مظہر عالم نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ''آرٹیکل 5 آئین سے وفاداری کا کہتا ہے لیکن اسے آئین سے خلاف ورزی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے پارلیمنٹ فیصلہ کرے کہ مستقبل میں غیر آئینی اقدامات کا راستہ روکنے کے لیے آرٹیکل 6 کا استعمال کرنا ہے یا نہیں؟‘‘۔ گو کہ یہ اضافی نوٹ ہے اور فیصلے کا حصہ نہیں مگر حکومت نے اسے سب سے زیادہ سیریس لیا ہے۔ کابینہ نے عمران خان پر آرٹیکل 6 کی کارروائی شروع کرنے کے لیے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے۔ میرے نزدیک حکومت اگر ایسا کرے گی تو اپنے لیے مشکلات میں اضافہ ہی کرے گی۔ عدالتی فیصلے میں سابقہ حکومت کے غیر آئینی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے مگر کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی‘ اس لیے حکومت کو بھی اس سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر حکومت نے خود کو اس پھندے میں پھنسایا تو اس کی معاشی اور انتظامی معاملات پر گرفت کمزور پڑ جائے گی جو کسی طور پر بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں