پنجاب میں گورنر راج؟

بنیادیں ٹیڑھی ہوں تو دیوار کیسے سیدھی کھڑی ہو سکتی ہے؟ عوام نے کسی پارٹی کو مینڈیٹ ہی نہ دیا ہو تو اس کی حکومت زیادہ دیر کیسے قائم رہ سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر‘ اگر آئین و قانون کی خلاف ورزی ہو تو عدالتیں چپ کیسے بیٹھ سکتی ہیں؟ وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی اور پھر ویسا ہی رد عمل آیا جس کا خوف تھا۔ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے آئین کی حدود سے تجاوز کیا تھا‘ سپریم کورٹ نے وہ رولنگ کالعدم قرار دے دی ہے۔ حمزہ شہباز کی حکومت رخصت ہوئی اور چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ بن گئے۔ قانونِ قدرت ہے‘ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ آپ کسی دوسرے کے حصے کا نوالہ چھین کر مطمئن ہو سکتے ہیں اور نہ ہی یہ بھوک کا دائمی علاج ہے۔
اس میں کیا شبہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے وفاق میں آئینی طریقے سے حکومت قائم کی تھی مگر پنجاب حکومت بناتے وقت تحریک انصاف کے ممبرز توڑ ے گئے تھے۔ یہ عمل خلافِ قانون بھی تھا اور اخلاقیات کے منافی بھی۔ چلیں‘ پہلی بار جو ہوا سو ہوا‘ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے مگر 22 جولائی کو دوبارہ وہی عمل دہرایا گیا۔ 186 ووٹ لینے والا امیدوار ہار گیا اور 179 ووٹ حاصل کرنے والا فاتح قرار پایا۔ مسلم لیگ (ن) اور ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے یہ 'کارنامہ‘ جس بنیاد پر انجام دیا وہ بنیاد بہت کمزور تھی۔ آئین ڈپٹی سپیکر کو اس عمل کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا مگر انہوں نے آئین کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے سیاسی اکابرین کے حکم کو ترجیح دی۔ سپریم کورٹ نے وہی فیصلہ کیا جو آئین کی سربلندی کے لیے اسے کرنا چاہیے تھا مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ میاں نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ساتھ ساتھ پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی اس فیصلے کو متنازع بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ معزز عدلیہ کے خلاف ایسی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں کہ خدا کی پناہ! فیصلہ آپ کے حق میں نہیں آیا تو آپ کو اس پر تنقید کا حق ہے مگر منصفین کی تضحیک کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اگر عدالت نے توہینِ عدالت کا مرتکب ٹھہرا دیا تو پھر کیا کریں گے؟ اگرچہ میں بھی اس رائے سے متفق ہوں کہ آئین کی تشریح جب بھی درکار ہو اس پر فل کورٹ بننا چاہیے۔ ویسے بھی پارٹی سربراہ کے اختیارات کو لے کر عدلیہ کے فیصلوں میں بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ جب قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا معاملہ درپیش آیا تھا‘ تب بھی فل کورٹ نہیں بنا تھا، گزشتہ ایک دو دہائیوں میں 15 سے زائد مرتبہ فل کورٹ کی درخواست مسترد کی جا چکی ہے۔ عدالت کا یہ بھی موقف سامنے آیا کہ فل کورٹ ستمبر میں ہی بن سکتا ہے‘ اس وقت تک کیا سب کام چھوڑ دیے جائیں، نیز یہ کہ حکومتی وکلا فل کورٹ کے مطالبے پر عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے۔ اب اگر عدلیہ نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کی نیت پر شک کیا جائے۔ عدلیہ کا احترام ریاست کی بقا کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے‘ اگر آپ عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دیں گے تو یہ ملک و قوم کی خدمت نہیں ہوگی بلکہ ملک انارکی کی جانب بڑھے گا۔
مسلم لیگ (ن) ملک میں سب سے زیادہ اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعت ہے۔ عوام نے ہمیشہ اس پر دوسری پارٹیوں کی نسبت زیادہ اعتماد کیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ توازن کو قائم رکھے۔ عدالتوں پر تنقید پارٹی کے مفاد میں نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے عوامی سطح پر بھی حالات دگرگوں ہیں اور اب پارٹی کوکوئی بچا سکتا ہے تو وہ میاں نواز شریف ہیں۔ عمران خان کے بیانیے کا توڑ صرف میاں نواز شریف کے پاس ہے اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ فوراً واپس آجائیں اور پارٹی میں نئی روح پھونکیں۔ جب سے انہیں پاناما کیس میں سزا ہوئی ہے‘ یوں گمان ہوتا ہے کہ پارٹی پر میاں نواز شریف کی گرفت کمزور ہوگئی ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں پارٹی اس کے برخلاف فیصلہ کرتی ہے۔ پارٹی کے دیگر اکابرین اپنی مجبوریاں بیان کرتے ہیں اور نواز شریف کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ جب 2018ء کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی حکومت سازی کی پوزیشن میں آئی تو میاں نواز شریف چاہتے تھے کہ ان کے پارٹی ممبرز حلف نہ لیں اور اسمبلیوں کا بائیکاٹ کریں کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کی جائزیت پر سوال اٹھا رہے تھے۔ میاں نواز شریف نے جیل سے یہ پیغام پارٹی کو بھجوایا مگر شہباز شریف اور ان کے ہمنواؤں نے اس موقف کی مخالفت میں دلیلوں کے انبار لگا دیے جس کے بعد میاں نواز شریف کو سرنڈر کرنا پڑا۔ 2019ء کے آخر میں میاں نواز شریف کی طبیعت ناساز ہوئی تو انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ میاں شہباز شریف اپنے بھائی کو لندن بھیجنے کے لیے متحرک ہوگئے مگر شنید ہے کہ میاں نواز شریف نے باہر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر پارٹی کے اکابرین اکٹھے ہوئے اور انہوں نے میاں صاحب کو قائل کیا کہ وہ ضرور علاج کی غرض سے لندن جائیں۔ اس کے بعد ایکسٹینشن کے لیے قانون سازی کا مرحلہ آیا تو میاں نواز شریف کی رائے مختلف تھی اور پارٹی کی رائے الگ۔ لندن میں بڑوں کی بیٹھک ہوئی میاں صاحب نے اس کی مخالفت کی مگر پارٹی کی سینئر قیادت نے اپنی بات منوا لی۔ یہی نہیں‘ جب آصف زرداری عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے لیے متحرک ہوئے تو انہوں نے شہبازشریف کو اگلا وزیراعظم بننے کی پیشکش کی۔ جب یہ تجویز میاں صاحب کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے کہا کہ خان صاحب کو پانچ سال پورے کرنے دیں‘ ان کے عہد میں مہنگائی اور بدانتظامی عروج پر ہے اگر پی ٹی آئی حکومت نے اپنی مدت پوری کر لی تو یہ جماعت ہمیشہ کے لیے سیاست سے آئوٹ ہو جائے گی۔ یہاں ایک بار پھر پارٹی نے اپنی سیاسی اور ذاتی مجبوریوں کا بوفے لگا دیا۔ ایک رہنما نے تو یہاں تک کہا کہ آپ لندن میں ہیں‘ ہم پر پاکستان میں کیا بیت رہی ہے یہ ہم جانتے ہیں یا ہمارا خدا۔ اگر ہم نے اس وقت عمران خان کو حکومت سے نہ نکالا تو وہ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت ہم سب کو نااہل کروا دیں گے‘ آپ پہلے ہی تاحیات نااہل ہیں اگر شہباز شریف بھی نااہل ہو گئے تو پارٹی کا کیا بنے گا۔ ایسی باتیں سن کر میاں صاحب نے مشروط ہاں کر دی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بناؤ، مطلوبہ قانون سازی کرو اور دو ماہ میں الیکشن کا اعلان کر دو‘ عالمی سطح پر مہنگائی عروج پر ہے‘ ہم جتنی دیر حکومت میں رہیں گے فائدہ عمران خان کو ہو گا۔ پارٹی نے اس وقت میاں صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی مگر بعد ازاں ایسا نہ ہو سکا۔ میاں نواز شریف کے خدشات درست ثابت ہوئے، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ نواز کی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور ضمنی انتخابات کے نتائج چیخ چیخ کر اس کی گواہی دے رہے ہیں۔
عدلیہ پر تنقید کے علاوہ حکمران اتحاد میں دو اور موضوعات پر بحث جاری ہے۔ اول: آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت عدلیہ کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی۔ دوم: پنجاب میں گورنر راج۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام عدل میں اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر لوئر کورٹس میں تو حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ جب تک عدلیہ میں مؤثر اصلاحات نہیں ہوتیں نظام انصاف میں بہتری نہیں آئے گی۔ لیکن یہ کام صاف نیتی سے ہوناچاہیے۔ خبر ہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن اور بینچ بنانے کے طریقہ کار پر اسمبلی میں بحث کرانے اور قانونی سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا حق ہے مگر موجودہ حالات میں ایسا کرنا عدلیہ سے محاذ آرائی کے مترادف ہو گا۔ دوم، اگر وفاقی حکومت پنجاب میں گورنر راج لگاتی ہے تو یہ کام اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ پنجاب میں ایسے حالات نہیں ہیں کہ گورنر راج لگایا جائے۔ اناؤں کو ٹھیس پہنچی ہے اور اقتدار کی خواہش بے لگام ہے‘ اس کے علاوہ گورنر راج لگانے کی تیسری وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاستدان ہیں‘ انہیں ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ اس بیان سے نقصان ان کی پارٹی کو ہو گا اور سارا فائدہ عمران خان کے حصے میں آئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں