ممنوعہ فنڈنگ کیس اور نااہلی

ایک اضطراب ختم نہیں ہوتا کہ دوسری بے چینی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک مصیبت سے جان چھوٹتی ہے تو دوسری گلے پڑ جاتی ہے۔ کبھی سیاسی بحران سر اٹھاتا ہے تو کبھی آئینی اور معاشی بحران قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ مہنگائی کے باعث اٹھنے والی آوازیں کیا کم تھیں کہ حکومت نے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دی ہے۔ مولانا فضل الرحمن، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی شعلہ بیانی نے جلتی پر تیل چھڑکا ہے۔ میں مضطرب تھا کہ آخر ہوا کیا ہے جو حکومت ایک معزز ریاستی ادارے پر تنقید کے نشتر چلا رہی ہے۔ درست کہ حکمران اتحاد کی فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر دی گئی، میں مانتا ہوں کہ عدالتی فیصلے کے باعث پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہو گئی اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر عدالتی فیصلے پر اعتراضات لگ چکے ہیں مگر پھر بھی عدلیہ کے مقام کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ زندہ قومیں نہ تو عدلیہ کا وقار کم ہونے دیتی ہیں نہ ہی نظام عدل کے چہرے کو داغدار کرنے کی سعی کرتی ہیں۔
عدلیہ کے خلاف شروع ہونے والی منفی مہم کے ہنگام میں نے ایک حکومتی شخصیت سے بات کی۔ میں نے پوچھا: آپ وفاقی حکومت چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ پنجاب ہاتھ سے جانے کے بعد آپ کے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا۔ حکومتی شخصیت نے قہقہہ لگایا اور قدرے توقف کے بعد کہا: یہی وقت تو حکومت کرنے کا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ حکومت چھوڑ دیں۔یہ ٹھیک ہے کہ معاشی اور سیاسی مسائل دوچند ہیں مگر ہم ان کے سدباب کے لیے کوشاں ہیں۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو چکی ہے۔ امکانِ غالب ہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ سنائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن تحریک انصاف پر پابندی لگانے، ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے یا عمران خان کو نااہل کرنے کی سفارش کرتا ہے تو سارا کھیل وفاقی حکومت کے ہاتھ میں آ جائے گا۔ وفاقی حکومت فوراً سپریم کورٹ میں کیس فائل کرے گی اور الیکشن کمیشن کی سفارشات کے مطابق پی ٹی آئی بین اور اس کے چیئرمین کو سز ا ہو جائے گی۔ اس لیے ہمارا وفاقی حکومت میں ہونا اشد ضروری ہے‘ ورنہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو سکتا ہے۔ میں نے پوچھا: اگر آخر میں فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے تو پھر آپ معزز عدلیہ کو متنازع کیوں بنا رہے ہیں؟ وفاقی وزیر قدرے سنجیدہ ہوکر گویا ہوئے: یہ تاثر غلط ہے کہ ہم عدلیہ کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ہم تو اپنا آئینی اور قانونی حق استعمال کر رہے ہیں۔ اس بار عدلیہ کے ساتھ ''گفت وشنید‘‘ کا مقصد صر ف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارے اور ہمارے مخالفین کے کیسز دوسرے ججز بھی سنیں‘ ہم نہیں چاہتے کہ فارن فنڈنگ کیس کے ریفرنس میں بینچ پرانے والا ہو۔ اس لیے ہماری عدلیہ سے درخواست ہے کہ وہ ہماری گزارشات کو بھی زیرِ غور لائے تاکہ قانون کا بول بالا ہو۔ وہ مزید کچھ کہنا چاہتے تھے مگر میں نے ٹوک کر پوچھا: آپ کے کہنے کا مقصد ہے کہ یہ ساری مہم اس لیے چلائی جا رہی ہے تاکہ پریشر بڑھے اور فارن فنڈنگ کیس میں بینچ مختلف ہو؟ وفاقی وزیر نے اثبات میں سر ہلایا تو میں نے ایک اور سوال داغ دیا: اگر سب کچھ ایسے ہی ہوا جیسے آپ کہہ رہے ہیں تو پھر وفاقی حکومت قبل از وقت انتخابات کا راستہ اپنائے گی یا پھر بھی مدت پوری کی جائے گی؟ وفاقی وزیر نے لمبا سانس لیا اور کچھ سوچ کر بولے: میرا خیال ہے کہ ہم مدت پوری کرنے کی طرف جائیں گے۔ اس وقت مہنگائی بہت زیادہ ہے‘ عالمی سطح پر پٹرول، گیس اور اشیائے خور و نوش کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہیں۔ فوری طور پر الیکشن میں جانا حکومت کے لیے خودکشی کے مترادف ہو گا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس سال کے آخر میں تیل کی قیمتیں 65 ڈالر فی بیرل تک گر جائیں گی‘ جس کا فائدہ یقینا ہماری معیشت کو بھی پہنچے گا۔ درآمدی بل کم ہوگا تو روپے سے دباؤ ہٹ جائے گا اور مہنگائی میں بھی واضح کمی آئے گی۔ اس لیے ہم ''ویٹ اینڈ سی‘‘ کی پالیسی اپنائیں گے۔
وفاقی وزیر سے گفتگو کے بعد میری بے چینی بڑھ گئی اور مجھے واضح طور پر بگڑتے حالات کی تپش محسوس ہونے لگی۔ دو روز قبل ہی برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عارف نقوی نے کیسے خیراتی مقاصد کے لیے برطانیہ میں کرکٹ میچ کروائے اور کیسے غیر ملکیوں نے اس میں چندہ دیا اور کیسے اس خیراتی رقم میں سے 21 لاکھ ڈالر پی ٹی آئی کے اکائونٹس میں منتقل ہوئے۔ اس سٹوری کے منظر عام پر آنے کے بعد عمران خان نے نہ صرف عارف نقوی کا دفاع کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ ساری رقم بینکنگ چینلز کے ذریعے پاکستان لائی گئی تھی۔ یہ سیاسی فنڈ ریزنگ تھی‘ اس کا فارن فنڈنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس رپورٹ کو مسلم لیگ (ن) اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اور پی ٹی آئی اسے اپنے خلاف مہم کا حصہ سمجھتی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ فنانشل ٹائمز کی سٹوری الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو گی کیونکہ اس کیس کا فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے اور شاید چند روز میں سامنے آ جائے گا۔ میں نہیں جانتا کہ فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آئے گا یا خلاف مگر کچھ حقائق عوام کے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن میں کیس ممنوعہ فنڈنگ کا ہے‘ فارن فنڈنگ کا نہیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت نے کسی دوسرے ملک سے یا اداروں سے پیسے یعنی فارن فنڈنگ وصول کی ہو تو اس پارٹی پر پابندی لگ سکتی ہے جبکہ ممنوعہ فنڈنگ میں آپ کسی شخص سے تو پیسے لے سکتے ہیں مگر کسی بیرونی کمپنی سے نہیں لے سکتے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت ممنوعہ فنڈنگ لے گی تو وہ رقم ضبط ہو جائے گی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد زیادہ سے زیادہ پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ ضبط ہونے کا خدشہ ہے جبکہ بطور پارٹی اس پر پابندی لگنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک خدشہ ضرور ہے اور وہ یہ کہ سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پی ٹی آئی نے کچھ بینک اکاؤنٹس چھپا رکھے تھے اور کچھ اکائونٹس ملازمین کے نام پر تھے۔ اگر یہ الزام ثابت ہو جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں آ جائیں۔ اگر وہ اس کیس میں صادق اور امین نہیں ٹھہرتے تو پھر ان کے خلاف بھی وہی فیصلہ آ سکتا ہے جو نواز شریف کے خلاف آیا تھا۔ وہ تاحیات نااہل ہو سکتے ہیں اور پارٹی کا عہدہ بھی ان کے پاس نہیں رہے گا۔ یہی نہیں‘ اگر بھارتی اور اسرائیلی شہریوں سے مبینہ فنڈنگ کا الزام بھی ثابت ہو جاتا ہے تو پھر پی ٹی آئی کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا‘ اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے یا پھر سپریم کورٹ نے۔
مشہور مقولہ ہے کہ ہر بات کی تہہ میں ایک بات ہوتی ہے اور وہی ساری بات ہوتی ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے عمران خان نے جس طرح چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے‘ اس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے‘ ورنہ چیف الیکشن کمشنر جیسے آفیسر تو ہماری بیورو کریسی میں خال خال ملتے ہیں۔ ان کا تیس سالہ کیریئر گواہ ہے کہ وہ کبھی سیاسی دباؤ برداشت کرتے ہیں اور نہ کسی کے ساتھ ناانصافی کرنا ان کا وتیرہ ہے۔ الیکشن کمشنر کو عمران خان نے اپنی مرضی سے لگایا تھا اور اب وہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ انہوں نے حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ خان صاحب نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے اپنے وزرا بھی متعدد بار ایسا کرتے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنا چیف الیکشن کمشنر کا کام ہے اور اگر وہ اپنا کام کر رہے ہیں تو اس میں اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خان صاحب کو یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کا احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا دیگر آئینی اداروں کا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں