ہم اتنے بے حس توکبھی نہ تھے

کون کہتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت اور مہنگائی ہے؟ کون کہتا ہے سیاستدانوں کی بدانتظامی اور بدعنوانی ملک کو سب سے زیادہ کھوکھلا کررہی ہے؟ کون کہتا ہے بے روزگاری اور عالمی طاقتوں کی اجارہ داری ہماری قومی بنیادوں کو دیمک کی مانند چاٹ رہی ہے؟ میرے نزدیک آج ہمارا سب سے اہم مسئلہ سیاسی تقسیم اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی نفرت، حقارت، جھوٹ، بہتان اور رشتوں میں پڑنے والی دراڑیں ہیں۔ سوشل میڈیا ہو یا دوستوں کی محفل، چوراہا ہو یا گھر کی بیٹھک، کالج یونیورسٹی کی کینٹین ہو یا کسی پارک کا کیفے ٹیریا، جہاں بھی سیاسی مباحثہ ہوتا ہے عدم برداشت کی فضا غالب رہتی ہے۔ بسا اوقات تو ایسی تکرار ہوتی ہے کہ نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ سیاستدانوں سے محبت ہمارے باہمی تعلقات کو خراب کررہی ہے اور سیاسی تفریق نے ہمارے دلوں کو تفریق کر دیا ہے۔ کسی بڑے کا لحاظ رہا ہے نہ کسی رشتے کی تمیز۔ استاد کا احترام نہ کسی دوست سے رغبت۔ چار سو نفرت ہے، گالی ہے یا پھر بدتمیزی اور بدتہذیبی۔ مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے۔
اب تو دینے لگے بچے بھی بڑوں کو گالی
جس کے باعث یہ ہوا اس کی مذمت کی جائے
ایک زمانہ تھا جب عوام سیاستدانوں اور برسرِ اقتدار لوگوں سے خوف کھاتے تھے۔ ان کا ہر ظلم، ناانصافی اورکرپشن کو برداشت کرتے تھے۔ خوف اور جہالت کے سائے میں ووٹ ڈالے جاتے تھے۔ عوام میں سیاسی سوجھ بوجھ اور شعور کا فقدان تھا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیاست کرنے پر پابندی تھی۔ ہر طرف گھٹن ہی گھٹن تھی۔ پھر سیاست میں عمران خان کی اٹھان ہوئی اور سوشل میڈیا نے عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنا شروع کیا۔ لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے اور مسائل کی نشاندہی کرنے لگے۔ ایسا سیاسی شعور کسی بھی قوم کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے سیاسی نظریات پختہ ہونے کے بجائے پٹڑی سے اترنا شروع ہوگئے۔ علم و آگہی کی جگہ جھوٹ اور نفرت نے لے لی ۔ سیاسی بیداری نے کروٹ لی اور ایک دوسری کی ٹانگیں کھینچنے کا رجحان بڑھ گیا۔ کوئی میاں نواز شریف سے محبت کرنے لگا اور کوئی عمران خان کا دیوانہ بن گیا۔ کسی کے من میں آصف زرداری کی چاہت جاگی اور کسی کو مولانا فضل الرحمن میں مسیحا نظرآیا۔ بات یہاں تک رہتی تو پھر بھی گزارہ ممکن تھا۔ کسی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہونا کوئی عیب تو نہیں مگر بات محبت کی چوکھٹ پار کرکے نفرت کے دہلیز تک چلی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہم دن رات سیاست پر گفتگو کرتے ہیں، اپنے مخالف نظریات کے سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور چور ڈاکو ثابت کرتے ہیں جبکہ اپنے پسندیدہ سیاستدان کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ ہم اس کی شان میں گستاخی برداشت کرتے ہیں نہ جائز تنقید کرنے کا حق کسی کو دیتے ہیں اور اگر کوئی تنقید کردے تو ہم غصے سے لال پیلے ہو جاتے ہیں۔ اب ہمارا یہی عمومی رویہ بنتا جا رہا ہے۔
نفرت کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جب سے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ گیا گیا ہے۔ نفرت اور حقارت کے اس کھیل میں شدت پسندی شامل ہو چکی ہے۔ اب ملک میں سیاست نہیں بلکہ زور زبردستی کا راج ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اکابرین نے انتہا پسند رویوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اپنے مخالفین کے بارے میں ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ سننے والا شرمندہ ہو جاتا ہے اور ان کے مخالفین بھی بدلے میں ایسی ہی زبان کی آبیاری کرتے ہیں۔ اینٹ کا جواب پتھرسے دیا جاتا ہے۔ ملک میں اتنا افسوسناک ماحول پروان چڑھ چکا ہے کہ اب کوئی عدلیہ کا احترام کرتا ہے نہ مقتدر حلقوں کا۔ آئین کو معتبر مانتا ہے نہ پارلیمنٹ کو۔ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کہہ دیتا ہے۔ کوئی روکنے والا ہے نہ سمجھانے والا۔ گزشتہ چار ماہ میں ایسے ایسے ٹرینڈز چلائے گئے کہ خدا کی پناہ۔ جھوٹ کو ایسے انداز میں پھیلایا گیا کہ ہرکوئی اسے سچ مان بیٹھا۔ اَن پڑھ اور پڑھے لکھے، اس حمام میں سبھی ننگے نکلے۔ ہمارے رویوں میں اتنی اتنہا پسندی شامل ہو چکی ہے کہ عدلیہ اگر کسی جماعت کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو وہ دشنام طرازی شروع کر دیتی ہے۔ کچھ عرصے بعد فیصلہ کسی اور پارٹی کے خلاف آتا ہے تو وہ تنقید اور تضحیک کا رویہ اختیار کر لیتی ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے ہر جماعت کو اپنی مرضی کی عدلیہ، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے چاہئیں۔ اگر کوئی ادارہ آئین، قانون اور ضابطے کو فالو کرتا ہے تو اس پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ میر صادق اور میر جعفر ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو اس سے بھی زیادہ تضحیک کی جاتی ہے۔
میرا ماننا ہے کہ ہمارے ملک کو دہشت گردوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اس سیاسی تقسیم نے پہنچا دیا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے پیروکار ایک دوسرے کی بغض میں قومی مفادات پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آتے۔ چند روز قبل امریکہ نے افغانستان میں ڈرون حملہ کیا اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کردیا۔ اس واقعہ کے محض ایک دن بعد اتفاقیہ طور پر آئی ایم ایف نے قرضے کے لیے ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ کی تاریخ کا اعلان کیا تو پاکستان میں روپے کی قدر میں بہتری دیکھی گئی۔ ہمارے ہم وطنوں نے اس خبر کی حساسیت کو نظرانداز کرتے ہوئے مذکورہ بالا دونوں واقعات کو ملادیا اور جھوٹ پر مبنی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ ڈرون حملے کے لیے پاکستان نے اڈے بھی دیے اور ایئر سپیس بھی۔ وفاقی حکومت کی نفرت میں یہ اتنا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا کہ جس کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ ہم نے اتنا بھی احساس نہیں کیا کہ ہم دنیا کی خطرناک ترین تنظیم کے سربراہ کی ہلاکت کا الزام اپنے سر لے رہے ہیں۔ ہم یہ پراپیگنڈا کرتے ہوئے بھول گئے کہ دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو کتنا لہو لہان کیا تھا۔ ہمارے گلی کوچے، پارک، بازار، سکو ل اور عبادت گاہیں کتنی غیرمحفوظ ہوگئی تھیں۔ ہم نے دہشت گردی کے اس ناسور کو ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن کرکے ختم کیا تھا۔ ہم اپنی حکومت اور اداروں پر تنقید کرنے کے شوق میں یہ بھی بھول گئے کہ اگر القاعدہ نے بدلہ لینے کی ٹھان لی تو پھر کیا ہوگا۔ ہماری وزارتِ خارجہ نے اس کی تردید کی مگر ہمیں یقین نہ آیا۔ پھر پاک فوج کے ترجمان نے ان قیاس آرائیوں کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ڈرون حملے کے لیے ہماری سرزمین استعمال ہوئی ہو۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم کیسی قوم ہیں جو دشمن کی چلائی ہوئی مہم کا حصہ بننے میں بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اس قصے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک اور دردناک ہے۔ یکم اگست کو بلوچستان میں سیلاب ریلیف آپریشن کی نگرانی کرتے ہوئے کمانڈر 12کور سمیت چھ افسران ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوگئے۔ یہ سانحہ موسم کی خرابی کے باعث پیش آیا مگر سوشل میڈیا پر جس طرح سے ایک مخصوص طبقے کی طرف سے تضحیک آمیز مہم چلائی گئی، جس طرح سے شہداء کے بارے میں گفتگو کی گئی اور حادثے پر من پسند تبصرے کیے گئے وہ سب جہالت اور کم ظرفی پر مبنی تھے۔ کسی بھی معاشرے میں بے حسی اور پراپیگنڈا کا یہ رویہ ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ ہم نجانے کیوں اپنی ذاتی ترجیحات کی وجہ سے غیر ضروری تبصرے کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے شرپسند عناصر کو رد کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ ہم اتنے اتنہا پسند کیوں ہوگئے ہیں؟ ہم اپنے اور پرائے میں فرق کرنا کیوں بھول گئے ہیں؟ ہمارے اندر قومی مفادات کا احسا س کیوں ختم ہوگیا ہے؟ ہمیں ضرور سوچنا ہو گا کہ ہم اتنے بے حس توکبھی نہ تھے جتنے اب نظر آرہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں