جذباتی سیاست کا انجام

مغل شہزادوں میں سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ بہت جلدباز تھے۔ وہ ہمیشہ مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے لیے بیتاب رہتے تھے۔ ان کی یہی بے قراری انہیں اپنے باپ؍ بھائی کے خلاف بغاوت پر اکساتی تھی۔ جہانگیر کو اقتدار سنبھالے ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ اس کے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کر دی۔ وہ آگرہ سے نکلا، راستے میں لوگوں کو ساتھ ملایا اور لاہور آکر شہر کا محاصرہ کرلیا۔ وہ سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کے پاس گیا اور ان سے مالی معاونت کی درخواست کی۔ گرو ارجن دیو نے اسے پانچ سو روپے دے دیے۔ جہانگیر کو پتا چلا تو وہ فوج لے کر لاہور پہنچ گیا۔ خسرو کے ساتھی شاہی فوج کا مقابلہ نہ کر سکے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ خسرو کو زندان میں ڈال دیا گیا مگر اس کے ساتھیوں کا انجام بہت برا ہوا۔ ایک سردار کو گدھے اور دوسرے کو بھینس کی کھال میں سلوا دیا گیا جبکہ تین سو سپاہیوں کے جسم سے کھال کھنچوا دی گئی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ باغیوں کی مالی مدد کرنے پر گرو ارجن دیو کو بھی پھانسی دے دی گئی تھی؛ البتہ جہانگیر نے خسرو کو معاف کر دیا اور اسے لے کر لاہو ر سے کابل چلا گیا لیکن خسرو نے وہاں جا کر بھی بغاو ت کر دی جس کے بعد جہانگیر نے اس کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا کر اسے اندھا کر دیا۔
دنیا بھر کے حکمرانوں کی طرح مغل بادشاہ بھی بغاوت کو بہت سنجیدہ لیتے تھے مگر بادشاہ ہمیشہ اپنے بچوں کو معاف کر دیتا تھا اور ان کے ساتھیوں کو عبرت کا نشان بنا دیتا تھا۔ اگر جہانگیر خسرو کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتا جو اس کے تین سو سے زائد ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا تھا تو کیا وہ دوسری بار بغاوت کرتا؟ جلال الدین اکبر کا ایک قول ہے ''بغاوت وہ دروازہ ہے جو ایک بار کھل جائے تو نسلوں کا خون بہا کر بھی بند نہیں ہوتا‘‘۔ مغل حکمرانوں میں اقتدار کے لیے بغاوت کا آغاز اکبر کے دور میں ہوا تھا۔ اکبر کے بھائیوں نے متعدد بار بغاوت کی مگر اکبر نے ہر بار انہیں معاف کر دیا، حتیٰ کہ شہنشاہ اکبر کے بیٹے جہانگیر نے بھی دو بار بغاوت کی اور دونوں بار اکبر نے جہانگیر کی جان بخشی کر دی۔ جہانگیر جب برصغیر کا حکمران بنا تو اس کے تینوں بیٹوں نے باری باری باپ کے خلاف سرکشی کی۔ پھر جہانگیر کا بیٹا شاہ جہاں مسندِ اقتدار پر بیٹھا تو اس کے چاروں بیٹے بھی باہم دست و گریباں رہے۔ اورنگزیب عالمگیر نے جب ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالی تو دارا شکوہ سمیت اپنے تینوں بھائیوں کو قتل کیا اور اپنے باپ شاہ جہاں کو قید خانے میں ڈال دیا۔ جلد ہی اورنگ زیب نے وہ دن دیکھا جب اس کے بیٹے اکبر نے راجپوتوں کے ساتھ مل کر باپ کے خلاف بغاوت کر دی۔ یہ سلسلہ ہمیں کسی بھی دور میں تھمتا ہوا نظر نہیں آتا، یہاں تک کہ ہندوستان انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ انگریزوں کی حکومت کے قیام تک بغاوت کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔
میرا احساس ہے کہ پاکستان کے مسائل کی بڑی وجہ وہی ہے جو مغلوں کے زوال کا سبب بنی تھی۔ ہم بھی کہانی کے اصل کرداروں کو معاف کر دیتے ہیں اور غیر اہم لوگوں کو نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی کا فیصلہ دیتے وقت جسٹس منیر نے جو نظریۂ ضرورت ایجاد کیا تھا‘ وہ آج تک زندہ ہے۔ ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف نے آئین کو پامال کیا، یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی اناؤں اور اقتدار کی ہوس نے ملک دولخت کر دیا، پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، کسی بھی اقدام پر کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ تو قائم ہو گیا مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور انہیں باہر بھیجنا پڑ گیا۔ میاں نواز شریف کو عدالت سے سزا ہوئی‘ انہیں بھی جیل سے نکال کر لندن بھیج دیا گیا‘ کسی نے اُف تک نہ کی۔ کیوں؟ کیاکوئی ہے جو اس ''کیوں‘‘ کا جواب دے سکے؟ کیا کوئی ہے جو دعویٰ کر سکے کہ نظریۂ ضرورت دفن ہو چکا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا سسٹم چلتا ہی نظریۂ ضرورت کے تحت ہے۔ طاقتورکے لیے الگ قانون ہے اور کمزور کے لیے الگ۔ امیر کو گھر بیٹھے انصاف مل جاتا ہے اور غریب کو اپنا حق لینے کے لیے ایڑیاں رگڑنا پڑتی ہیں۔ حکمران طبقہ تو امیر اور غریب کی تفریق سے بھی بہت بلند ہے۔ یہ خود کو قانون کے تابع سمجھتا ہے نہ آئین کی سپرمیسی کو مانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی حکمرانی کے حوالے سے 139 ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر ہے۔ نیپال، سری لنکا، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی اس فہرست میں ہم سے بہتر ہیں۔ کیا یہ مقام ہمارے لیے لمحۂ فکریہ نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اتنے قانون شکن کیوں واقع ہوئے ہیں؟
پاکستان میں قانون کی حکمرانی صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے جب طاقتور اور کمزور کو ایک ہی نظر سے دیکھا جائے۔ سابق وزیراعظم عمران خان ویسے تو اس فلسفے کے بہت بڑے داعی ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی عملی زندگی میں اس پر زیادہ یقین نہیں رکھتے۔ اگر رکھتے ہوتے تو گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنی رہائش گاہ کے باہر عوام کو اکٹھا نہ کرتے۔ اگر قانون کو عمران خان کی گرفتاری مطلوب تھی تو اس میں اتنا ہنگامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پی ٹی آئی کے ورکرز نے جس طرح عمران خان کی گرفتاری کو روکنے کے لیے بنی گالا کو گھیر رکھا تھا‘ کیا یہ مہذب قوموں کا شیوہ ہے؟ کیا قانون کی حکمرانی اس طرح قائم ہو سکتی ہے؟ اگر خان صاحب ایک آدھ دن کے لیے گرفتار ہو جاتے تو کون سی قیامت آ جانا تھی؟ اگلی صبح عدالت سے انہیں ضمانت مل جاتی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ خان صاحب نے جو راستہ اختیار کیا‘ وہ ان کے شایانِ شان نہ تھا۔ کون سا ایسا سیاست دان ہے جو کبھی گرفتار نہ ہوا ہو؟ خود خان صاحب بھی مشرف دور میں جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ اب بھی کچھ وقت‘ حکومتی جبر کے طور پر ہی‘ اندر گزار لیتے تو ان کے قد کاٹھ میں کوئی کمی نہ آتی۔ اس سے ایک طرف قانون کی پاسداری کی روایت مضبوط ہوتی اور دوسری طرف خان صاحب کو اس کا سیاسی فائدہ بھی مل جاتا مگر انہوں نے موقع ضائع کر دیا۔ سابق وزیراعظم نے گزشتہ روز وکلا سے خطاب کرتے ہوئے خود یہ اعتراف کیا کہ چونکہ وہ طاقتور تھے‘ اس لیے گرفتاری سے بچ گئے، اگر وہ شہباز گل کی طرح کمزور ہوتے تو انہیں بھی گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ خان صاحب خود کو قانون سے مبرا کیوں سمجھتے ہیں؟ اگر وہ خود کو قانون کے تابع سمجھتے تو ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے ایف آئی اے کو جواب دینے سے انکار نہ کرتے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انہیں یہ مشورہ کس نے دیا تھا؟ کوئی بھی شخص ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیسے کر سکتا ہے؟ کیا خان صاحب نہیں جانتے کہ اگر کسی کیس میں آپ ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے تو ادارے آپ کو گرفتار بھی کر سکتے ہیں؟
میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب اس وقت آگ سے کھیل رہے ہیں۔ وہ دانستہ طور پر ایسے بیانات دے رہے ہیں جن کے بعد ان کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ آئی جی، ڈی آئی جی اور ایڈیشنل سیشن جج سے متعلق دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ ہمارا آئین ایساکرنے کی اجازت دیتا ہے نہ ہمارا دین۔ اب حکومت نے سرکاری افسران کو دھمکانے کے جرم میں ان کے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر کاٹ دی ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کے کیس کی سماعت کیلئے لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ دہشت گردی کی ایف آئی آر کا جو بھی مستقبل ہو‘ توہین عدالت کا یہ کیس خان صاحب کے سیاسی مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ طلال چودھری، دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی اس طرح کے کیسز میں سزا بھگت چکے ہیں۔ اگر خان صاحب پر یہ الزام ثابت ہو جاتا ہے تو چھ ماہ قید اور پانچ سال کی نااہلی ان کی منتظر ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ اس کیس کے بعد اداروں کی تضحیک کا سلسلہ یہیں رک جائے گا یا پھر آئندہ آنے والوں کو تنقید کرنے کا نیا راستہ مل جائے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں